پانچ برس ہوتے ہیں جب پہلی مرتبہ قوم سے کہا گیا ”گھبرانا نہیں ہے“۔ قوم نے اعتبار کیا اور ہر طرف سے آنکھیں موند لیں قریباً چار برس بعد آنکھیں کھولیں تو معلوم ہوا گھبرانے کا وقت تو کب کا بیت چکا اب تو ہاتھ سر پر رکھ کر رونے کا وقت آ چکا ہے مزید جانچ پھٹک کی تو اندر سے آنٹی پنکی اور فرح گوگی نکل آئیں اولالذکر نے نظام کو اسی طرح جکڑ رکھا تھا جیسے گذشتہ صدی اور آنے والی صدی کے سب سے بڑے افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کے شاہکار افسانے ”صاحب کرامات“ کے ایک مرکزی کردار نے چودھری موجو اسکی بیوی اور اسکی نوخیز بیٹی کو جکڑ رکھا تھا۔ بعد ازاں سامنے آنے والی تفصیلات سے معلوم ہوا کہ آنٹی پنکی نے قوم کے ساتھ وہی کچھ کیا جو افسانہ ”صاحب کرامات“ کے اس روحانی کردار نے چودھری موجو کی بیٹی کے ساتھ کیا اور پوہ پھٹنے سے پہلے ہی سب کو سوتا چھوڑ کر جدھر سے آیا ادھر ہی منہ کر گیا۔ چودھری موجو اور اسکی بیوی صبح بیدار ہوئے تو انہوں نے اس کمرے میں جھانکا جہاں صاحب کرامات کو شب بسری کی سہولت مہیا کی گئی تھی۔ دونوں نے دیکھا کہ کمرہ خالی ہے چار پائی کے نیچے مہمان روحانی شخصیت کی ڈاڑھی پڑی تھی جبکہ کونے میں ایک مٹکا پڑا تھا جس میں سے شراب کی بُو آ رہی تھی۔ موجو کی سادہ لوح بیوی نے جھک کر ڈاڑھی کے بال اٹھائے اپنی آنکھوں سے لگایا مارے عقیدت کے چوما اور چودھری موجو کی طرف بڑھایا۔ موجو آپ ہی آپ میں بڑبڑایا۔ پیر سائیں بہت پہنچے ہوئے بزرگ تھے جاتے ہوئے اپنی نشانی چھوڑ گئے ہیں۔ پھر اس نے بیوی کو ہدایت کی کہ پیر سائیں کی ڈاڑھی کو سنبھال کر کہیں رکھ دے تاکہ گھر میں برکت رہے۔ موجو کی بیوی نے ململ کا نیا دوپٹہ پھاڑ کر اس میں بصد احترام پیر سائیں کی چھوڑی گئی نشانی کو لپیٹا اور اونچے طاق میں رکھ دیا۔
ہمارے مقدر میں لکھے گئے صاحب کرامات اور انکی منظور نظر کیا کیا گل کھلا گئے ہیں ہر آنے والے دن کے ساتھ ایک نئی کہانی سامنے آتی ہے۔ ایک روز ایک کہانی جناب فیاض الحسن چوہان سناتے ہیں تو دوسرے دن دوسری کہانی فردوس عاشق اعوان صاحبہ کی زبانی سننے کو ملتی ہے جبکہ دونوں کے حوالے سے ایک اور کہانی بھی ہے جو دونوں کی طرف سے اپنی اس جماعت کو چھوڑنے سے چند روز قبل قوم کو سنائی جاری تھی۔ اگر دونوں سے پوچھا جائے کہ کس کہانی پر اعتبار کریں تو شاید دونوں کے پاس کوئی جواب نہ ہو۔ اگر آپ بہت اصرار کریں گے تو اس جواب کی توقع ہے کہ ضمیر جاگ اٹھا ہے۔ یہ ضمیر عجیب چیز ہے، دنیا شور مچاتی رہے یہ گہری نیند سویا رہتا ہے پھر جانے کون اسے جگانے آتا ہے یہ پہلی دستک سے پہلے ہی جاگ جاتا ہے اور دہائی دینا شروع کر دیتا ہے، اقتدار سے جدائی اس کیلئے زہر قاتل ہے۔ اسحاق ڈار صاحب نے منصب سنبھالا تو ڈالر کو صبح شام دھمکیاں دینے لگے ڈالر بھی انہیں آنکھیں دکھاتا رہا پھر سب نے دیکھا کبھی ڈالر اوپر تو ڈار صاحب نیچے کبھی کبھی ڈالر نیچے آیا تو ڈار صاحب اسکے سینے پر سوار نظر آئے، دونوں میں یہ کشتی دھینگا مشتی سال بھر سے جاری ہے۔ اب دونوں ہانپ رہے ہیں اب ہانپتے کانپتے ڈار صاحب نے بھی کہا ہے کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں لیکن یہ سنتے ہی سننے والوں کو اختلاج قلب شروع ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی لنگوٹی بھی ہاتھ نہی آ رہی، گن گن کے دن گنے جا رہے ہیں۔ 30 جون اس اعتبار سے آخری تاریخ بتائی جاتی ہے دیکھنا ہے نیا ڈوبتی ہے یا کنارے لگتی ہے۔ ڈار صاحب نے جو عالمی سازش بیان کی ہے وہ تو کئی برس سے بچے بچے کی زبان پر ہے۔ انہوں نے کسی بڑے راز سے پردہ نہیں اٹھایا، سب جانتے میں دنیا کے مالیتی ادارے کہاں سے ڈکٹیشن لیتے ہیں وہ کیوں چاہیں گے کہ ہم اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ ہم نے گزشتہ ایک برس میں کب اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کی ہے۔ اٹھہتر وزیروں مشیروں کی کا بنیہ ہیم سرکار کے زیر تصرف قریباً ایک لاکھ گاڑیاں ہیں، دس برس کی نوکری کرنے والوں کی پنشن پندرہ لاکھ ماہانہ، گاڑی، گارڈ، خانساماں، نوکر، یوٹیلٹی بلز کی رعایت اسکے علاوہ ہے۔ یہی حال بنائی گئی اتھارٹیز کا ہے جن کے سربراہ کی تنخواہ صدر پاکستان اور وزیر اعظم سے زیادہ ہے جبکہ الاٹ پلاٹ ابھی صیغہ راز میں ہیں۔
اسی ہنگام روس سے سستے تیل کا سودا ہو گیا، تیل پاکستان پہنچ گیا، سستے تیل کی امید میں بیٹھے اہل وطن کو ایک مرتبہ پھر تیل دے دیا گیا۔ تیل کی قیمتیں برقرار رکھی گئیں ریلیف نہ ملا۔ وزیر اعظم پاکستان نے باکو کا کامیاب دورہ کیا ہے کامیابی کا حال سرکاری طور پر یوں سنایا جا رہا ہے کہ وہ وہاں پہنچے۔ انہوں نے دیکھا اور فتح کر لیا، ماشا اللہ ماشا اللہ۔ پھر خبر آئی کہ انہوں نے وہاں روسی زبان میں گفتگو کی اور اپنے میزبان کو لطیفے بھی سنائے۔ ٹی وی پر ایک کلپ خصوصی طور پر چلایا گیا جس میں جناب شہاز شریف میزبان کے ساتھ گفتگو کر رہے ہیں پھر دونوں کھل کھلا کر قہقہہ لگاتے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جناب شہباز شریف نے وہاں کوئی عام شام لطیفہ نہیں سنایا۔ عام سے اور نرم س شائستہ لطیفوں پر کسی کو ہنسی نہیں آتی یقینا یہ کوئی خاص اور زیادہ گرم لطیفہ تھا۔ دونوں لیڈروں کی ہنسی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ لطیفے کی حدت ایٹم بم جتنی نہیں تو اسکے قریب قریب ضرور تھی۔ ایک سین میں تو یوں لگا جیسے اچانک چائے کے کپ کے گرم کنارے کو منہ لگ گیا ہے۔ اب جتنی بھی ایل این جی آ جائے غنیمت ہے۔ روسی تیل کی ادائیگی یوآن میں کی جا چکی ہے لیکن کس کس چیز کو یوآن میں خریدیں گے۔ ایسا نہ ہو ہماری حکمت عملی سے یو آن کا بھی وہی حال ہو جائے جو پاکستانی کرنسی کا ہم نے کر دیا ہے۔
بجٹ میں دیئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہماری آمدن سو روپے جبکہ خرچ دو سو روپے ہے۔ اتنی ہی رقم ہم نے لیے ہوئے ادھار کے سود میں ادا کرنی ہے۔ اصل زر اپنی جگہ پر موجود رہے گا ہم اور ادھار لیتے رہیں گے یوں یہ دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرتا رہے گا۔ اب عوام کا گلا کاٹنے کا نہیں سرکار کا اپنا پیٹ کاٹنے کا وقت آ گیا ہے۔
پالیسیاں اور ترجیحات کیا ہیں انکا اندازہ اس خبر سے لگا لیجئے کہ کراچی سٹیل ملز کے برابر کی ایک اور سٹیل ملز چنیوٹ کے قریب لگانے کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ بہت اچھی بات ہے لیکن یہ سٹیل ملز بھی غیر ملکی تعاون سے لگے گی جس میں اربوں ڈالر کا قرض بھی استعمال ہو گا۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ یہ سٹیل ملز منافع ہی کمائے گی اور نقصان میں نہیں جائیگی، فرض کیجئے حکومت کے پاس ایسا نسخہ موجود ہے تو اسے کراچی سٹیل ملز پر برت لینا چاہئے حکومت اسے بیچنے کے درپے کیوں ہے۔ کس کو فائدہ پہنچانا مقصود ہے۔ قومی ایر لائن آج بھی منافع دے سکتی ہے۔ اسکے بعد مارکیٹ میں آنیوالی تین ایئر لائنز پرائیویٹ سیکٹر میں منافع میں چل رہی ہیں۔ یہی حال دیگر پرائیویٹ اداروں کا ہے کوئی بنک ایسا نہیں ہے جس نے دس برانچوں سے کام شروع کیا ہو اور آج اسکی دو سو برانچیں نہ ہوں۔ حکومت اب قوم کو ڈیفالٹ سے نہ ڈرائے، اپنے رنگ ڈھنگ بدلے، آئی ایم ایف کا اعتراض ہم امیروں کی سبسڈی ختم کر کے غریبوں کو ریلیف دینے کا کہتے ہیں جبکہ حکومت کچھ اور چاہتی ہے۔ اس میں کوئی حرج ہے؟ صاحب کرامات کیا کرنے کو ہے؟؟؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.