میرے نزدیک خان صاحب کا زوال اْسی روز شروع ہوگیا تھا جب انتہائی نکمے شخص بْزدار کو اْنہوں نے وزیراعلیٰ پنجاب بنانے کا فیصلہ کیا تھا، اْس کی خرابیوں کی جس طرح وہ وکالت کرتے تھے، اْس کی”گندگیوں“ کی جس طرح وہ”صفائیاں ”دیتے تھے، ہم اْس پر حیرت کی انتہاؤں تک پہنچ جاتے تھے اور سوچتے تھے اس شخص نے خان صاحب کو کیا سْنگھایا ہوا ہے کہ خان صاحب اپنے خلاف کہی ہوئی کوئی بات برداشت کر لیتے ہیں اْس کے خلاف ایک لفظ برداشت نہیں کرتے، ایک بار میں نے خان صاحب سے اْن کی وفاقی حکومت کی کارکردگی پوچھی وہ فرمانے لگے ”پنجاب میں بہت کام ہو رہاہے“، اْنہوں نے بْزدار حکومت کے وہ کارنامے گنوانے شروع کر دئیے جو خود بْزدار کو بھی معلوم نہیں تھے، مثلاً ایک بار اْنہوں نے بتایا”بْزدار نے پنجاب کے محکمہ جنگلات میں انقلابی کام کئے ہیں“، ایک ملاقات میں جب میں نے بْزدار سے اْن کے محکمہ جنگلات کے انقلابی کارناموں کے بارے میں پوچھا وہ بولے”کل میں نے ریس کورس پارک میں ایک پودا لگایاہے“، خان صاحب کا یہ ”وسیم اکرم پلس“ جب بھی کسی محفل میں مجھ سے ملتا ہمیشہ یہ پوچھتا ”سائیں ساہڈے لئی کوئی حکم اے تے دسو“، ایک بار تنگ آکر میں نے کہا ”حکم تو کوئی نہیں، ایک عرض آپ کی اہلیت کے عین مطابق میں یہ کرنا چاہتا ہوں ہمارے محلے کے ایک”گٹر“ (مین ہول) پر ڈھکن نہیں ہے، اگر ممکن ہو مہربانی فرما کر متعلقہ محکمے کو ہدایت جاری فرما دیں اْس گٹر پر ڈھکنا رکھ دے“، میرا خیال تھا وہ بہت”بھولے“ ہیں، وہ میرے اس ”طنز“ کو سمجھ نہیں پائیں گے، مگر وہ سمجھ گئے، انتہائی ناراضگی سے میری طرف دیکھا اور آگے بڑھ گئے، اْس کے بعد وہ انتقامی کارروائیوں پر اْتر آئے، ایسی انتقامی کارروائیوں کا چونکہ مجھے پہلے سے تجربہ تھا لہٰذا میں ذہنی طور پر اس کے لئے تیار بھی تھا، ایک روز مجھے اپنے عزیز چھوٹے بھائی دْنیا نیوز کے ڈپٹی بیوروچیف حسن رضا کی کال آئی کہ وزیراعلیٰ بْزدار کے حکم پر ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں آپ کی ملازمت سے برخواستگی کا ایک نوٹس تیار ہو رہا ہے جو ایک دو روز میں آپ کو مل جائے گا“، اس سے قبل ایسی ہی ایک اطلاع مجھے اْس وقت کے سیکریٹری ہائر ایجوکیشن ذوالفقار گْھمن بھی دے چْکے تھے، وہ چونکہ حکمران وقت کے کسی غلط حکم سے اختلاف کرنے کی جْرآت رکھتے تھے تو اْنہوں نے وزیراعلیٰ بْزدار سے صاف کہہ دیا تھا”میں آپ کے اس حکم کی تعمیل تو نہیں کرسکتا ناجائز طور پر کسی کو ملازمت سے برخواست کروں البتہ میرا توفیق بٹ سے ایک ذاتی تعلق ہے جس کی بنیاد پر میں اْس سے بات ضرور کر سکتا ہوں“، اْنہوں نے بڑی عزت سے مجھے اپنے گھر عشائیے پر مدعو کیا اور فرمایا”میری گزارش اے وزیراعلیٰ دے بارے ہتھ تھوڑا ہلکا رکھو“، بْزدار کی بونگیاں خصوصاً کرپشن کی داستانیں اس قدر بڑھتی جا رہی تھیں میرے لئے ہاتھ ہولا رکھنا ممکن نہیں تھا، سو میں اپنے محترم بھائی ذوالفقار گْھمن کے اس حکم کی لاج نہ رکھ سکا، بعد میں اْنہیں سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کے عہدے سے فارغ کر دیا گیا، اْس کے بعد دوسرا حملہ مجھ پر دوسری سیکریٹری ہائر ایجوکیشن ارم بخاری کے ذریعے کروانے کی کوشش کی گئی جس کی اطلاع مجھے حسن رضا نے قبل از وقت دے دی، حسن رضا کے فون کے فوراً بعد مجھے سیکریٹری ہائر ایجوکیشن کی جانب سے ڈائریکٹر کالجز لاہور نے حکم دیا کہ کل آپ کو سیکریٹری صاحبہ کے”دربار“ میں حاضر ہونا ہے“، میں نے کہا”میرے خلاف کوئی شکایت ہے تو مجھے باقاعدہ ایک تحریری نوٹس کے ذریعے بْلایا جائے، زبانی کلامی احکامات ماننے کا میں پابند نہیں ہوں“، میں نہیں گیا، اگلے روز مجھے اْس وقت کے گورنر پنجاب چودھری محمد سرور کی کال آگئی، اْنہوں نے مجھ سے کہا”آج ڈنر تم میرے ساتھ گورنر ہاؤس کرنا“، میں جب وہاں پہنچا عملے نے مجھے بتایا”گورنر صاحب جھیل کے پاس بیٹھے ہیں آپ وہیں چلے جائیں“، وہ بہت بے چین دکھائی دے رہے تھے، اْنہوں نے کہا یہ لوگ آپ کے ساتھ بڑی زیادتی کر رہے ہیں، میں وزیراعظم عمران خان سے بات کروں گا“، تب تک میں بطور پروفیسر اپنے عہدے سے خود ہی مستعفی ہونے کا فیصلہ کر چْکا تھا، میں نے اس فیصلے سے اْنہیں آگاہ کیا تو اْنہوں نے مجھے سختی سے منع کر دیا، وہ فرمانے لگے ”تم سرکار کے ملازم ہو کسی کے دربار کے ملازم نہیں ہو“، اْنہوں نے میری موجودگی میں وزیراعظم خان صاحب کو کال کی اْن سے کہا ”یہ کیا پاگل پن ہے کہ جس شخص نے ہر قسم کے خطرات کو جْوتی کی نوک پر رکھتے ہوئے اتنے برسوں تک آپ کا ساتھ دیا اب آپ کا وزیراعلیٰ اْس کے لکھے چار حرف بھی برداشت نہیں کر سکا اور اْسے ملازمت سے برخواست کر رہاہے“، چودھری سرور نے یہاں تک اْن سے کہہ دیا”یہ زیادتی اگر ہوئی میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو جاؤں گا، اگر اپنے ہی مخلص ساتھیوں کے ساتھ یہ بدسلوکی ہم کریں گے ہمارے ساتھ پھر رہ کون جائے گا“، خان صاحب نے فرمایا”وہ بْزدار سے بات کریں گے“، رات کو خان صاحب کا مجھے میسج آگیا کہ”آپ نے گھبرانا نہیں ہے میں نے بْزدار سے کہہ دیاہے“، خان صاحب کے اس میسج کا میں نے کوئی رپلائی اس لئے نہیں کیا تب تک میں یہ حقیقت جان چْکا تھا میرے خلاف انتقامی کارروائی کا حکم بْزدار نے اپنی طرف سے نہیں خان صاحب کی طرف سے دیا تھا، کیونکہ جتنا میں بْزدار کی ناقص پالیسیوں کے بارے میں لکھ رہا تھا اْتنا سے کہیں زیادہ خان صاحب کی ناقص حکمرانی پر لکھ رہا تھا، خان صاحب کی منافقتوں کے بارے میں جتنا میں جانتا ہوں علیم خان بھی اْتنا شاید نہ جانتے ہوں گے، البتہ اْن کی منافقتوں کا سب سے زیادہ شکار علیم خان ہوئے، خان صاحب کا وسیم اکرم پلس، علیم خان سے اتنا حسد و بغض رکھتا تھا یوں محسوس ہوتا تھا اْسے سوائے اس ایک کام کے اور کوئی کام ہی نہیں ہے، پنجاب کی بیوروکریسی کو ہدایت کی گئی تھی علیم خان کی کوئی بات نہیں ماننی، پر علیم خان کا جو رکھ رکھاؤ ہے اور ذاتی تعلق کی جس طرح وہ لاج نبھاتے ہیں، میرا خیال ہے لوگوں کے اتنے کام پنجاب کی بیوروکریسی شاید وزیراعلیٰ بْزدار کے کہنے پر نہیں کرتی تھی جتنے علیم خان کے کہنے پر کرتی تھی، ایک بار خان صاحب نے مجھ سے کہا ”بٹ صاحب آپ علیم خان کو سمجھائیں کہ بْزدار کے حوالے سے اپنا دل صاف کر لے“، میں نے عرض کیا ”پہلے یہی بات آپ بْزدار کو سمجھائیں“، پھر میں نے خان صاحب سے پوچھا ”بْزدار کی طرف سے علیم خان کی اب کوئی نئی شکایت آئی ہے؟“، وہ بولے”ہاں وہ کہتا ہے مختلف میٹنگوں میں علیم خان اْس کی طرف دیکھ کر ہنستا ہے“، میں نے عرض کیا ”خان صاحب اْس کی طرف دیکھ کر تو پورا پنجاب پوری دْنیا ہنستی ہے، علیم خان کوئی اکیلا ہنستا ہے؟“، میری اس بات پر خان صاحب خود بھی ہنس پڑے۔۔ میری اطلاع کے مطابق مْشکل وقت میں کسی کا ساتھ نہ چھوڑنے کی بلوچوں کی خصوصی روایت و شناخت کا قاتل بْزدار اب پیپلز پارٹی میں شامل ہونے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہا ہے، خان صاحب کو احساس تو اب ہوتا ہوگا کتنا غلیظ شخص اپنے سب سے زیادہ قریب اْنہوں نے رکھا ہوا تھا، علیم خان کے ساتھ جی بھر کے منافقت خان صاحب نے اگر نہ کی ہوتی مجھے یقین ہے علیم خان کو اس وقت کتنی ہی انتقامی کارروائیوں کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑتا خان صاحب کا ساتھ اْنہوں نے نہیں چھوڑنا تھا، کتنے ہی برس خان صاحب کا ساتھ نبھاتے ہوئے شریف حکمرانوں کی انتقامی کارروائیوں کا وہ نشانہ بنتے رہے، بے شمار نقصانات اْٹھائے، پر ڈٹ کر کھڑے رہے، حالانکہ تب خان صاحب کے اقتدار میں آنے کا کوئی تصور تک نہیں تھا، بْزدار تو فصل پکنے کے بعد آیا تھا، فرح گوگی جی اپنے مخصوص و مذموم مقاصد کی تکمیل کے لئے اْسے متعارف نہ کرواتیں آج سیاست کے کسی ڈسٹ بن میں پڑا وہ گل سڑ گیا ہوتا، خان صاحب کو چاہئے اب روزانہ صبح دوپہر شام بْزدار کی تصویر سامنے رکھ کر ملکہ ترنم کا یہ گیت گایا کریں
آواز دے کہاں ہے
دْنیا میری ویراں ہے
Prev Post
تبصرے بند ہیں.