قومی سیاسی تاریخ کے طالب علم کے طور پر مجھے مستقبل کا منظرنامہ نظر آنا شروع ہو گیا ہے۔ نومئی کے بعد ابھی نو جون نہیں آیا مگر حالات اتنی تیزی سے بدلے ہیں کہ یقین نہیں آ رہا۔آٹھ مئی کی شام تک ڈرایا جا رہا تھا کہ عمران خان بہت بڑی قوت بن چکا ہے، اس نے قوم کا وہ شعور بیدار کر دیا ہے جو بھٹو کی پھانسی اور نواز شریف کی جلاوطنی بھی نہیں کرسکی تھی، سوشل میڈیا پر کچھ اورمر د اور کچھ عورتیں ہذیان بک رہے تھے اور شائد یہی وہ غلط فہمی تھی جس نے بم کو آخری لات مارنے کی منصوبہ بندی کروا دی۔سچ پوچھیں کہ وہ بم کو بہت عرصے سے فٹ بال بنا کے کھیل رہے تھے۔وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے ذریعے وہ فیصلہ کن گول کر لیں گے۔ وہ یہ بھی سمجھ رہے تھے کہ پاکستان کے عوام ان کے لئے اسی طرح نکلیں گے جس طرح ترکی کے عوام اردوان کے لئے نکلے تھے اور ٹینکوں کے سامنے لیٹ گئے تھے مگر سوال یہ ہے کہ عمران نے اردوان کی طرح عوام کو دیا کیا ہے۔ کریڈٹ پر دو ہی میگا پراجیکٹ ہیں ایک نشئیوں کے لئے لنگر خانے اور دوسرے ہسپتالوں میں ذلیل کرواتا ہوا صحت کارڈ۔ ہسپتالوں نے صحت کارڈ کے لئے الگ وارڈز بنا رکھے ہیں جہاں پر سہولتیں ناپید ہیں اور عوام کو اس طرح ٹریٹ کیا جاتا ہے جس طرح فقیر اور بھیک منگے آ گئے ہوں اور یہ صورتحال پی ٹی آئی حکومت سے ہے۔
ہمارے انتخابات کی ایک سائنس ہوتی ہے اور وہ کتابوں میں پڑھائی جانے والی پولیٹیکل سائنس سے الگ ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ میں نے ایک مہینے میں جو کچھ دیکھا ہے اس کے بعد مجھے نوے فیصد لگ رہا ہے کہ اکتوبر، نومبر میں انتخابات ہوجائیں گے۔ ہماری پولیٹیکل سائنس کے مطابق جیتنے کے لئے الیکٹ ایبلز بہت ضروری ہیں۔ ہمارے وہ دوست جو آٹھ مئی تک کہہ رہے تھے کہ پی ٹی آئی کھمبوں کو ٹکٹ دے تو وہ بھی جیت جائیں گے تو مجھے ان کی بات پچا س فیصد درست ثابت ہوتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ بہت سارے حلقوں میں انہیں ’پوٹینیشل کینڈیڈیٹس‘ نہیں ملیں گے اور خانصاحب کو کھمبوں کو ہی ٹکٹ دینے پڑیں گے لیکن دوسری طرف امیدوار تو تب ہوں گے اگر پی ٹی آئی انتخابات میں بطور سیاسی قوت موجود ہو گی۔ میرا گمان ہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے جاتے ہی نو مئی کے واقعات کی بنیاد پر عمران خان کی پی ٹی آئی پر پابندی کا عمل شروع ہو سکتا ہے۔ اسے کسی نئے نام اور انتخابی نشان کے ساتھ میدان میں آنا پڑے گا۔ یہ ہماری سیاست میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی بلکہ جب پیپلزپارٹی پر پابندی لگائی گئی تھی تو پھر ایک پیپلزپارٹی پٹریاٹ بنی تھی جس کی سربراہ بے نظیر بھٹو نہیں مخدوم امین فہیم تھے۔ مجھے امکان لگ رہا ہے کہ جو پی ٹی آئی انتخابی میدان میں ہوگی اس کی سربراہی پارٹی چیئرمین کی بجائے پارٹی صدر کر رہے ہوں گے جو کہ چوہدری پرویز الٰہی ہیں اور وہ اس وقت پارٹی صدارت پر اپنا حق ثابت کرنے کے لئے ایک چھہتر ستتر برس کی عمر میں قربانیا ں دے رہے ہیں۔
ایک سوال ہے کہ چوہدری صاحب نے کبھی گیلی جگہ پاوں نہیں رکھا تو اب دلدل میں کیوں اترے، کہنے والے کہتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح اب بھی ڈیوٹی پر ہیں مگر ا ن کے پاس اسائمنٹ کچھ مختلف ہے۔ اس بار بھی وہ وہی کام کر رہے ہیں جو انہوں نے نواز شریف کے ساتھ کرنے کی کوشش کی تھی مگر اس مرتبہ لیبارٹری میں اس کا فارمولہ تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یقین کیجئے کہ جو چوہدری صاحب، باجواہ صاحب کے کہنے پر، پی ڈی ایم سے کئے ہوئے حلفیہ وعدے سے یوٹرن لیتے ہوئے خانصاحب کی بیعت کر سکتے ہیں توعمر بھر کے مہربانوں کے کہنے پر ایک متبادل کھیل کا حصہ کیوں نہیں بن سکتے۔ پھر یقین کیجئے کہ چوہدری صاحب ایسے ہرگز نہیں ہیں کہ وہ اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لیں اوراس عمر میں جب ٹکرلیں جس عمر میں ٹکرلینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، وہ کون سے ٹین ایجر ہیں کہ افلاطونی عشق کا شکار ہوجائیں، وہ سیانے بیانے ہیں۔ اب منظرنامہ کچھ یوں ہے کہ ایک پی ٹی آئی عمران خان کی ہوگی جو ممکنہ طور پر الطاف حسین کی ایم کیو ایم والی پوزیشن پر ہو گی۔ اس سے ملحقہ ایک پی ٹی آئی چوہدری پرویز الٰہی کے پاس ہو گی اور اس سے پرے ایک اور پی ٹی آئی اپنا نام بدل کے،الیکٹ ایبلز کے ساتھ، جہانگیر ترین کی کمانڈ میں ہوگی۔مجھے لگتا ہے کہ عمران خان اپنا ووٹ بنک بچانے کے لئے انتخابات کا بائیکاٹ کر سکتے ہیں کیونکہ وہ کچھ بھی کہہ سکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں مگر اس بائیکاٹ کا وہی نتیجہ نکلے گا جو پچاسی میں پیپلزپارٹی کے بائیکاٹ کا نکلا تھا کہ سیاسی منظرنامے پرنئے لوگ حاوی ہوجائیں گے۔ بائیکاٹ کا فیصلہ عمران خان کے لئے ویسا ہی تباہ کن ہو گا جیسا ان کا قومی اسمبلی سے نکلنے کا تھا یا صوبائی اسمبلیاں توڑنے کا تھا مگر جنہوں نے ان سے وہ فیصلے کروائے، وہ یہ بھی کروا سکتے ہیں، ہاں، اس سے فواد چوہدری یاد آ گئے، ان کے پاس بھی تو ایک پی ٹی آئی ہوگی چاہے جیسی بھی ہوجتنی بھی ہو۔
مریم نواز نے باغ، آزاد کشمیر میں مشتاق منہاس کے انتخابی حلقے میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ نون کی سیاست ختم کرنے والے بہت آئے اور بہت چلے گئے۔ با ت تو درست ہے کہ میں نون میں سے شین کو نکلنے کی باتیں اکتوبر ننانوے سے سن رہا ہوں مگر نون سے شین تو نہیں نکلی مگر نکالنے کے خواب دیکھنے والوں کے تراہ سمیت بہت کچھ نکل گیا۔مجھے لگتا ہے کہ نواز شریف اور شہباز شریف کو والدین کی دعائیں لگی ہوئی ہیں مگر دوسری طرف والدین کے حوالے سے کچھ اچھی خبریں نہیں ہیں کہ ان کے تو جنازے تک نہیں پڑھے گئے تھے۔یقین کیجئے کہ ماں باپ کی دعائیں بہت درجہ رکھتی ہیں۔ یہ عرش تک ہلا دیتی ہیں اور تقدیروں کو بدل دیتی ہیں۔اچھا چلیں چھوڑیں، ہوسکتا ہے کہ بہت سارے دوستوں کو میرا ممکنہ منظر نامہ پسند نہ آیا ہو تو ان کے لئے ان کے پسند کا منظرنامہ لکھ دیتا ہوں کہ اب تک باقی رہ جانے والی حکومتیں خانصاحب کے دباؤ پرقبل از وقت ٹوٹ گئی ہیں۔ پی ٹی آئی نے الیکٹ ایبلزسے محرومی کے بعد کھمبوں کو ٹکٹ دئیے ہیں اور ان کھمبوں پر عوام نے ووٹوں کی بارش کر دی ہے۔ مسلم لیگ نون، پیپلزپارٹی اور جے یو آئی والوں کے ڈبوں سے چار، چار ووٹ بھی نہیں نکلے ہیں۔ عمران خان ایک یونانی دیومالائی فاتح کی صورت میں اسلام آباد میں داخل ہو رہے ہیں اور ان سب کے گھروں اور دفتروں کو نو مئی سے کہیں زیادہ جوش اور جذبے کے ساتھ ملبے کا ڈھیر بنا یا جا چکا ہے جن سے انہیں شکوے ہیں، شکایتیں ہیں۔ چوکوں چوراہوں میں پی ٹی آئی کی صنم جاویدیں ان کے پیارے خانصاحب کی توہین کرنے، انہیں تکلیف دینے والوں کو سرعام پھانسیاں دے رہی ہیں۔ ہیں جی، ایسا ہی ہے؟
Prev Post
تبصرے بند ہیں.