بدلتا ہے رنگ، آسماں کیسے۔ کیسے ……!

123

لاہور میں اگلے دن سابق وزیرِ اعلیٰ اور تحریکِ انصاف کے صدر چوہدری پرویز الہی کی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری عمل میں آئی تو کوئی سوچ بھی سکتاتھا کہ ایسا ہو سکتا ہے لیکن ایسا ہوا ہے اور صرف یہی کچھ ایسا نہیں ہوا ہے بلکہ12مئی کے بعد تحریک انصاف میں جو ٹوٹ پُھوٹ شروع ہے۔ جناب عمران خان کے قریبی ساتھی ایک ایک کرکے ان سے دُوری اور علیحدگی کے اعلانات کرتے چلے آ رہے ہیں اور دِن بدِن اُن کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ جناب عمران خان کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ یقینا یہ سب کچھ بھی ایسا نہیں ہے جس کا اڑھائی تین ہفتے قبل کسی نے تصور کیا ہو۔ ایسا کچھ ہوا ہے، ہو رہا ہے اور بہت کچھ اور ہونے والا ہے تو یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ قانونِ فطرت سے کسی کو مفر نہیں ہے۔ قدرت کے اپنے فیصلے اور ضابطے ہیں جو پورے ہو کر رہتے ہیں۔ قدرت کے یہ فیصلے، اصول اور ضابطے کبھی نوشتہ دیوار کی صورت میں سامنے آتے ہیں تو کبھی مکافاتِ عمل کی شکل اختیار کیے ہوتے ہیں۔ کبھی یہ ہر کمال راہ زوال کا ثبوت بہم پہنچاتے ہیں تو کبھی اِن کو بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے، کیسے کا عنوان دیا جا سکتا ہے۔ قدرت کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں۔ جب کوئی فرد یا افراد، کوئی جماعت یا گروہ یا کوئی طبقہ غرور، تکبر، ضد، ہٹ دھرمی، انتقام، نفرت اور انتہا پسندی کا شکار ہو کر ساری حدیں پھلانگ لیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اس کے لیے کوئی روک ٹوک نہیں، کوئی قانون اور ضابطہ ِ اخلاق نہیں اور وہ جو چاہے کرے تو پھر قدرت کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آتی ہے اور اُسے مکافاتِ عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تحریکِ انصاف اور اس کے قائد جناب عمران خان اور دیگر وابستگان بلا شبہ آج کل اسی صورتِ حال سے دو چار ہیں۔ اُن کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ انہوں نے جو کچھ بویا ہے اب اُسے کاٹ رہے ہیں۔ اس میں زیادہ کیا دھرا تحریکِ انصاف کے قائد جناب عمران خان کا ہے۔ جناب عمران خان بلا شبہ اپنے دور کے ایک زبردست کرکٹر تھے اور انھیں سیلیبیرٹی کا درجہ حاصل تھا۔ تاہم غرور، تکبر، ضد، ہٹ دھرمی، خود پسندی، انا پرستی اور کسی کو اپنے جیسا نہ سمجھنا جیسی خصوصیات ہمیشہ سے ان کی شخصیت کا حصہ چلی آ رہی ہیں۔ مغربی معاشرے اور طرزِ زندگی میں پائی جانے والی مادر پدر آزادی سے جنم لینے والی، کچھ دیگر خصوصیات یا قباحتیں جن کا یہاں ذکر مناسب نہیں ہے وہ برطانیہ میں ان کے کرکٹ کھیلنے کے دور کا عطیہ سمجھی جا سکتی ہیں۔ خیر اس تفصیل میں نہیں جاتے کہ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے۔ اس سے ہٹ کر قومی تاریخ بالخصوص قومی سیاست میں ان کے کردار کا مختصراً جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ جس کا اُ نہیں اور تحریکِ انصاف کو در پیش موجودہ صورتِ حال سے کچھ نہ کچھ تعلق ضرور بنتا ہے۔
جناب عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے قیام کے بعد 1997ء کے عام انتخابات میں حصہ لیا تو بری طرح انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا کہ نہ وہ خود ہی اور نہ ہی ان کا کوئی نامزد امید وار قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست
پر کامیاب ہو سکا۔ 12 اکتوبر 1999 ء کو میاں نواز شریف کی حکومت ختم کرکے جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کیا تو جناب عمران خان جنرل پرویز مشرف کے حامیوں کے ہراول دستے میں شامل ہو گئے۔ اپریل 2002 ء کے پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں بھی اِنہوں نے پرویز مشرف کی ہر ممکن حمایت کی۔ اکتوبر 2002 ء میں عام انتخابات ہوئے تو وہ اور ان کی جماعت کی کارکردگی میانوالی سے قومی اسمبلی کی محض ایک نشست پر کامیابی تک محدود رہی۔ اس کے بعدانہوں نے جنرل پرویز مشرف سے اپنی راہیں جدا کرلیں۔ 2008 ء کے عام انتخابات کا انہوں نے بائیکاٹ کیا۔ وفاق میں پاکستان پیپلزپارٹی اورپنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی حکومتیں قائم ہوئیں تو اس کے ساتھ ہی ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے آئی ایس آئی کے ذریعے جناب عمران خان کی سر پرستی کرنے اور ان کے سر پر ہاتھ رکھنے کا فیصلہ کر لیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا کھل کر جناب عمران خان کی حمایت میں سامنے آ گئے۔ اکتوبر 2011 ء میں لاہور میں اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے مینارِ پاکستان پر ان کا کامیاب جلسہ ان کے لیے قومی سیاست میں آگے بڑھنے کی نوید لایا۔ اس کے بعد چل سو چل ضرور ہوا لیکن مئی 2013ء میں وہ اپنے دل میں بسی انتخابات میں فیصلہ کن بر تری حاصل کرنے کی خواہش کے پورا نہ ہونے پر اپنے مزاج کے مطابق ضد، ہٹ دھرمی، نفرت، الزام تراشی، ہرزہ سرائی اور میں نہ مانوں کا اندازِ سیاست کو پوری طرح اپنانے کی راہ پر گامزن ہو گئے۔ اسلام آباد میں اگست 2014 ء میں شروع ہو کر 16 دسمبر 2014 ء، 126دنوں تک جاری رہنے والے اُن کے دھرنے کے دوران اُنھیں اسٹیبلشمنٹ بالخصوص آئی ایس آئی سر براہان کی جو حمایت حاصل رہی، اگر یہ سب تاریخ کا حصہ ہے تو یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ جولائی 2018ء کے عام انتخابات سے قبل جناب عمران خان وہ بلند مقام حاصل کر چکے تھے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ ان کی کامیابی کے لیے اپنی ساری کشتیاں جلانے کے لیے تیار ہو چکی تھی۔ اس کا نتیجہ یقینا جناب عمران خان اور ان کی جماعت کی کامیابی کی صورت میں سامنے آنا تھا۔
اگست 2018ء جناب عمران خان نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو اسٹیبلشمنٹ سے اُن کی گاڑھی چھننا ہی جاری نہ رہا بلکہ ہر دو فریقین کی طرف سے ایک پیج پر ہونے کا لفظی اور عملی اظہار بھی کھل کر سامنے آنے لگا۔ جناب عمران خان اگلے تقریباً تین برسوں تک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سمیت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تعریف و توصیف میں کس حد تک رطب اللسان رہے اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ بالخصوص آئی ایس آئی اور اُس کے چیف جنرل فیض حمید جناب عمران خان اور اِن کی حکومت کے لیے کس حد تک بیساکھیوں اور سہارے کا کام کرتے رہے، اسکی تفصیل میں نہیں جاتے کہ ہر کوئی بڑی حد تک اِس سے آگاہ ہے۔ لیکن جو کہتے ہیں کہ ایک وقت آتا ہے کہ جب معاملات اپنی اصلی شکل میں سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں، یہاں بھی ایسا ہی ہوا کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے جناب عمران خان کی حکومت کی بیڈ گورننس، ناقص حکومتی پالیسیوں اور کم تر کار کردگی کی بنا پر اس پر انگلیاں اُٹھنی شروع ہو گئیں۔ نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ جناب عمران خان کے خلاف قومی اسمبلی میں عدمِ اعتماد کی تحریک کی کامیابی کی صورت میں اُن کی حکومت کا اختتا م ہوا اور اِس کے ساتھ ہی اُنہوں نے جو اعلان کر رکھا تھا کہ اپنی حکومت کے خاتمے کی صورت میں مزید خطر ناک ہو جاؤں گا پر اُنہوں نے عمل درآمد ہی نہ شروع کر دیا بلکہ اپنی جماعت، اپنے ساتھیوں، اپنے ہالیوں اور موالیوں، اپنے وابستگان اور اپنے عقیدت مندان سبھی کو اس میں جھونک دیا۔ یہ ایک طرح کی جنگ تھی جو جناب عمران خان نے وزیرِ اعظم میاں شہباز شریف کی اپنی مخالف حکومت کے خلاف ہی نہ لڑنا شروع کی بلکہ اس میں ریاستی اداروں اور اُن سے وابستہ ذمہ دار شخصیات کو بھی اپنے تیروں اور توپوں کے نشانے پر رکھ لیا۔ جلد ہی جناب عمران خان کی اس جنگ نے مملکت کے اداروں کے خلاف ایک کھلی جنگ یا دوسرے لفظوں میں ایک طرح کی دشمنی کی حد تک کی مخالفت اور بغاوت کی شکل اختیار کرلی جس کا نتیجہ اب اُن کی جماعت کی ٹوٹ پھوٹ کی صورت میں سامنے آنا شروع ہو چکا ہے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا اور ہو رہا ہے اس کی تفصیل انشاء اللہ اگلے کالم میں۔ (جاری ہے)

تبصرے بند ہیں.