خدا بچائے، خدا بچائے

58

دنیا میں امریکی مناظر خصوصی دلچسپی کا مرکز بنتے ہیں۔ ٹرمپ کے دور سے ہماری اور ان کی خبروں میں مماثلث بڑھتی جا رہی ہے۔ یہی دیکھ لیجیے کہ ایک بھارتی شہری امریکا کی کرسیئ صدارت پر بیٹھنے کا متمنی ہوکر ٹرک لے کر وائٹ ہاؤس میں گھسنے کی کوشش میں گرفتار ہوگیا۔ وہ نازی فسطائیت سے متاثر تھا۔ نازی جرمنی کا جھنڈا بھی اس سے برآمد ہوا۔ 6ماہ سے منصوبہ بندی کر رہا تھا مگر ناکام ہوگیا! بائیڈن کو قتل کرکے امریکی اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتا تھا۔ سیکورٹی والوں نے دھر لیا۔ خواب، منصوبے، ارادے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ حفاظتی بیریئر سے ٹکراکر آنکھ کھل گئی۔ یہاں بھی نیازی نازی فسطائیت ہی کے خمار میں مبتلا تھے۔ 9مئی کے تمام مظاہر اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ امریکی سینیٹر کو مدد مدد پکارتے ہوئے کہنے لگے کہ 99فیصد پاکستانی میرے ساتھ ہیں مگر اب آئے دن ڈوبتے ٹائی ٹینک سے اپنے ٹائیگرز بھی چھلانگیں مارتے نکل بھاگ رہے ہیں توبہ تِلّا کرتے جدھر سینگ سمائیں جا چھپنے کی جگہ پائیں، جو سر پر ہاتھ رکھ دے وہیں جا گھسیں۔ ن لیگ، پی پی، ق لیگ یا لگے ہاتھوں جلدی جلدی ٹھوک ٹھاک کر نئی پارٹی اٹھا کھڑا کرتے (ج لیگ؟) جہانگیر ترین۔ سستے مہنگے لوٹوں، ہارس ٹریڈنگ کا بازار پھر گرم ہونے کو ہے۔
پی ٹی آئی کے اسٹیج گرمانے والے، نعرہ باز، آواز سے سر بکھیرتے مجمعے اکٹھے کرتے مخلوط بازو لہرانے کے مناظر بپا کرنے والے سبھی اب نئے اسٹیج کی تلاش میں ہیں۔ یہ لنڈا بازار جمہوریت کے حسن کی ہی ایک اور جہت ہے! ہمارے لیے شاہان گلوبل ولیج نے یہی نظام پسند فرمایا ہے۔ (بلاایمانی تربیت، تعلیم وتزکیہ، چنگیزی سیاست) ہمیں امریکا، مغرب سبھی ان جمہوری بلوؤں میں پکڑے جانے والوں پر ’انسانی حقوق‘ کے بھاشن دے رہے ہیں۔ اپنے ہاں انہوں نے ٹرمپ کے حامیوں (جوکیپٹل ہل حملے میں ملوث تھے) کے سرغنہ حملہ آور کو 18سال قید کی سزا توڑپھوڑ، سیکورٹی اداروں پر حملے اور بغاوت کی سازش کے عنوان سے لگا دی ہے۔ (انہی واقعات میں ملوث 70سابق وحاضر سروس فوجی بھی جیل کاٹیں گے۔) ہمارے ہاں ایسے ہی بلوائیوں کی مغرب بلائیں لیتا ہوا ہم پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ جیلوں میں پی ٹی آئی خواتین سے ظلم وزیادتی کی جعلی ویڈیوز،کہانیاں گھڑی جا رہی ہیں۔ بیرون ملک سے ٹوئٹری پروپیگنڈا کرنے والوں کو ڈاکٹر عافیہ صدیقی یاد نہ آئی۔ امریکی جیلوں میں جرمِ بے گناہی پر دو دہائیاں بیت گئیں، اس کے بچوں میں سے ایک ننھے بچے کو مار ڈالا، دو جدائی کا داغ لیے بڑے ہوئے، والدہ، بیٹی ملن کی آس بھری بوڑھی آنکھیں لیے قبر میں جا سوئیں۔ آج ’لیڈیز‘ اور ’خواتین‘ کے عنوان سے حقوقِ نسواں یاد دلانے والے ذرا اپنے گریبان میں بھی جھانکیں۔ یہ سارے بلوے ’فیملیز‘ عورتوں بچوں کا جھانسہ دیتے ہوئے کئے۔ قریب نہ آؤ، چھوؤ مت، آنسو گیس، پانی کی بوچھاڑ نہ کرو، کہتے آگ بھڑکاتے رہے۔
اب امریکی نظیر ہمارے سامنے ہے 18سال قید کی! قومی توقیر کی علامات سے کھل کھیلنے کی سزا۔ اسلامی سزائیں تو شدید تر ہیں مگر ہم تو انہی آقاؤں کے قوانین نافذ کیے بیٹھے ہیں۔ سو اتنی سزا تو بنتی ہے! یوں بھی یہ طبقہ تو مرد وزن مساوات کا پرچارک ہے۔ آگ لگانے، تخریب کاری میں ہم رکاب شانہ بشانہ، مرد مار قسم کی خواتین ہیں تو سزا اٹھانے میں تذکیر تانیث کا کیا فرق روا رکھنا؟ یہ خواتین جیلوں میں ’سی‘ کلاس دینے پر بھی شکوہ سنج ہیں کہ پی ٹی آئی کے ورکر کو ’اے‘ کلاس دی جائے۔ سیاسی کارکن کو تو یقینا سیاسی جدوجہد کے مطابق بہتر سلوک دیا جانا چاہیے، مگر یہ سیاست تھی کب؟ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجاکر اربوں کا نقصان پہنچانے والے عناصر اے کلاس کے مستحق کیونکر قرار پائیں؟ یوں بھی زیادہ تر تو اب سیاست اور پی ٹی آئی سے تائب ہوہوکر، گھر خاندان پر توجہ دینے کی طرف لوٹنے کے معافی نامے، حلف نامے بھر رہے ہیں۔ ان کی سفارش تو ہم بھی کریں گے۔ بچوں کو
مائیں اور شوہروں کو بیویاں لوٹا دیں، یہ قوم پر احسان ہوگا۔ جب دیا رنج بتوں نے تو (مجازی) خدا یاد آیا! جس رفتار پر پرواز جاری ہے، لگتا ہے آخر میں عمران خان، بشریٰ بی بی، فرح گوگی، بزدار اور معروف خوش دامنِ عدل رہ جائیں گی۔ وہ بھی اب گلوگیر شاید دامن سے آنسو، ناک پونچھتی ہی ملیں۔ الٹی پڑ گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا! آن لائن انقلاب آنے کو تھا، آن لائن ہی لوٹ گیا۔ لائن ڈراپ ہوگئی عین منجدھار میں۔
ٹوئٹتے ٹوئٹتے سبھی منہ موڑے نکلے چلے جا رہے ہیں۔ پہلے سیاست بر زمین حقیقی ہوتی تھی۔ سیاسی کارکن ڈٹ کر جیلیں جاتے، سزائیں کاٹتے، مدت گن گن کر رکھتے۔ نکل کر اپنی پارٹیوں سے کیش کرواتے۔ قربانیوں کے عوض کوٹے، مناصب، اسمبلی کے ٹکٹ لیتے۔ ’چاہِ یوسف سے صدا‘ جیسی کتابیں لکھتے یا لکھواتے۔ اب ’چاہِ ٹوئٹر‘ سے صدائیں لگتی ہیں۔ پڑھنا لکھنا نہیں آتا! زیادہ تعداد وہ ہے جسے تاریخ جغرافیہ سیاست سبھی سے فارغ خطی ملی ہوئی ہے۔ حد سے حد دورانِ تعلیم مطالعہئ پاکستان کے نصاب کے رٹے لگے ہوں گے۔ دودھ پینے (برگر، فوڈ پانڈا) والے مجنوں، سوشل میڈیا پر بحث مباحثہ جھوٹے ناموں، جعلی میڈیا اکاؤنٹ پر بداخلاقی بدتہذیبی کے بگھار لگانے والے۔ ملک وقوم کے لیے خون تو کیا پسینہ بہانے سے بھی جی جان چراتے۔ کھیل کھلنڈریوں، لاابالی پی ایس ایل تماشوں پر پلنے والی نسل، ذہنی سطح بے آب وگیاہ، بنجر چاند کی مانند۔ نظریہ، ملت، امت، کردار سازی، اقدار، کتب بینی، سنجیدگی، فکر وتدبر سبھی سے عاری۔ پوری قوم کے بڑوں کو اس عجب سانحے کے پس منظر، مضمرات، نتائج وعواقب پر غور کرنا اور مستقبل محفوظ کرنے کی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ میدانِ عمل میں موجود سیاسی جماعتیں اگر صرف مجمعے لگاکر ڈنگ ٹپاؤ کارکردگی سے کام چلانا چاہیں گی تو کسی بہتر مستقبل کی توقع عبث ہے۔ اصلاً ہم مغرب کی غلامی سے ایک دن بھی آزاد نہیں ہوئے، اس لیے جمہوریت کتنی ہی بدصورت کیوں نہ ہو شکلیں بدل بدل کر ہمیں جکڑے رہے گی۔
ہم نے یہ سب بھگتا ہے۔ فارمولا سویلین حکومت کا اوپر سے نافذ ہوتا ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی کی میئر شپ میں بہترین نظام چل رہا تھا مگر جماعت اسلامی (اس دور کی) کو برداشت کرنا ممکن نہ تھا۔ سو نمٹنے کے لیے لسانی، نسلی تعصب کا جن بوتل سے نکال کھڑا کیا۔ تجربہ خوفناک ثابت ہوا۔ تین چار دہائیاں معاشی شہ رگ دبوچ کر صوبائی اور قومی سطح پر طوفانِ بلاخیز ہم نے بھگتا۔ ایک پوری ابھرتی نوجوان نسل کے فکری، نظریاتی زاویے تباہ کردیے۔ عصبیت کا زہر بو دیا۔ اب یہ تجربہ الطاف حسین سے کوئی کم ثابت نہ ہوا۔ سر چڑھے، بڑوں کے لاڈلے کھلنڈرے نے ملک کو کھلونا سمجھ کر اس سے کھیلا۔ حکمرانی 22کروڑ عوام کی امانت، نہایت تدبر تفکر سنجیدگی طلب ذمہ داری ہے۔ احساسِ جوابدہی مانگتی ہے۔ الطاف حسین، مشرف اور عمران خان کے مابین ملک کے نظریاتی بخیے ادھڑ گئے۔ معیشت قرضوں کی بیساکھیوں پر دنیا بھر میں بھیک مانگتی در در پھری۔ اسی دوران مصنوعی طور پر فارمولے نت آئے آزمائے گئے۔ ٹی ایل پی، طاہر القادری، کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا۔ قادیانی ہو، دین دشمن ہو، جوڑجاڑکر جیسی تیسی حکومت چلا لی جائے۔ فطری قیادت ملک میں ابھرنے، تیار ہونے کا ہر دروازہ بند ہے۔ کوئی بھی باصلاحیت، باکردار، امانت ودیانت، والی شخصیت کا ابھرنا، پنپنا ناممکن ہے۔ جھوٹ کا دوردورہ ہے۔ دورِ غلامی میں ہمہ نوع قیادتیں موجود رہیں۔ امت سے وابستگی، نوجوانوں کے ولولے، امنگیں اور انہیں راہ دکھانے والے نمونہ ہائے فکر وعمل۔ اعلیٰ مقاصد کے لیے جینے اور قربانیاں دینے والے۔
اب تو سیاست کے ہیراپھیری کھلاڑی، بکاؤ مال، اربوں میں کھیلنے والے والدین اور ان کی گدی سنبھالنے والی اولادیں۔ عالمی صلیبی صہیونی قادیانی پشت پناہی میں پلنے والے۔ سب کا میکہ اور بھاری بھرکم جائیدادیں اثاثہ جات لندن دبئی فرانس امریکا میں۔ کشمیر پر جانیں نچھاور کرنے والے، افغانستان پر غیرت کے جرعے پی کر عالمی پا کھنڈ کے مقابل جا کھڑے ہونے والے نوجوان نشانِ عبرت بنا ڈالے گئے۔ ملک کو سیرت وکردار، اخلاق وروایات کے پاسداروں، تاریخ ساز کرداروں سے محروم کردیا۔ پی ایس ایل منتہائے مقصود۔ اس پر چیئر گرلز، ماڈلز، شوبز نوعیت کی حسن فروش سجاوٹوں کا مآل اس کے سوا ہو بھی کیا سکتا ہے جو آج ہم بھگت رہے ہیں! کردار سازی کے سب در بند ہیں، قیادت کی معراج عمران خان ہے اور اس پر مر مٹنے والی ہر عمر کی صرف خواتین ہی نہیں ژولیدہ فکر دیندار بھی ہیں!
نہ ایک ریلے سے لیں سبق ہم
تو آئے گا اور تند ریلا
خدا بچائے خدا بچائے
بڑا گراں ہے خدا کا کوڑا

تبصرے بند ہیں.