ہور چُوپو گنے

81

جس بڑی تعداد میں خان صاحب کے ”ساتھی“ اْن کا ساتھ چھوڑ رہے ہیں یوں محسوس ہوتا ہے جلدہی کسی روز خان صاحب خود بھی اپنا ساتھ چھوڑ دیں گے اور یہ اعلان نہ فرما دیں ”آئندہ میرا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں، میں چیئرمین شپ سے مستعفی ہوتا ہوں“۔۔
میری اطلاع کے مطابق پچھلے دنوں اس آپشن پر بھی سنجیدگی سے غور کیا گیا خان صاحب کو فی الحال باہر (لندن) بھجوا دیا جائے، تاکہ وہ کچھ وقت وہاں اپنے بچوں کے ساتھ رہ کر دوسروں کے بچوں کا احساس کرنا سیکھ سکیں، ظاہر ہے خان صاحب نے اس پر مْشکل سے ہی راضی ہونا تھا بلکہ اْن سے زیادہ مْشکل سے اْن کی حالیہ بیگم صاحبہ نے راضی ہونا تھا، مگر خان صاحب کے کچھ قریبی و غیر بیگماتی ذرائع نے خان صاحب کو راضی کرنے کی ذمہ داری اْٹھا لی تھی، طاقت وروں نے بعد میں اس آپشن کو اس لئے رد کر دیا کہ باہر جاکر وہ زیادہ خطرناک ہو جائیں گے، اْس سے بھی زیادہ خطرناک جتنے وہ اقتدار سے باہر جا کر ہو گئے ہیں، کیونکہ اوورسیز پاکستانی اْنہیں ”زمینی خدا“ سے کم نہیں سمجھتے، ویسے میں یہ سوچ رہا تھا فرض کر لیں خان صاحب کو باہر (لندن) جانے پر راضی کر لیا جائے جس طرح کے جھوٹے سچے بیانیے بنا کر لوگوں کو بیوقوف بنانے یا اپنے جال میں پھنسانے کے وہ ماہر ہیں ممکن ہے لندن میں بیٹھ کر برطانوی لوگوں کے سامنے کوئی ایسا بیانیہ وہ لے آئیں جس کے بعد وہ برطانیہ کے وزیراعظم بن جائیں، وہ ایک”بے چین روح“ ہیں، وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، شْکر ہے پاکستان میں پونے چار سال بعد ہی اقتدار سے وہ محروم ہوگئے ورنہ اْنہوں نے ضد لگا کے بیٹھ جانا تھا آرمی چیف اور چیف جسٹس کے اختیارات بھی اْنہوں نے ہی استعمال کرنے ہیں، اس ضمن میں سب سے زیادہ تائید اْنہیں اْن”فصلی بٹیروں“ یا”چوندے چوندے لوٹوں“ کی حاصل ہوتی جنہیں ہمیشہ اپنی آنکھ کا اْنہوں نے تارا بنائے رکھا، اب وہ سارے”تارے“ پریس کانفرنسیں کر کر کے خان صاحب اور پی ٹی آئی کو چھوڑنے کے اعلان کر رہے ہیں، پی ٹی”آئی“ اب پی ٹی”گئی“ ہوتی جا رہی ہے، ممکن ہے اپنے ان ساتھیوں پر خان صاحب کو حیرانی ہوتی ہو، ہمیں حیرانی اس لئے نہیں ہوتی کہ ان میں سے اکثر جہاں کی ”کھوتیاں“ تھیں وہیں آن کھلوتیاں ہیں، شرم و حیا پاکستان میں ناپید ہوتی جارہی ہے، مختلف اقسام کی بدتمیزیوں بداخلاقیوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیاسی لوگوں کے دل و دماغ میں یہ تصور تک نہیں اْبھرتا دْنیا اْن کے بارے میں کیا سوچے گی؟ بے شمار ایسے لوگ خان صاحب کے ساتھ جْڑے ہوئے تھے جنہیں اپنے اقتدار میں اْنہوں نے بڑے بڑے عہدوں بڑی بڑی وزارتوں سے اْن کی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھے بغیر ہی نوازا، خان صاحب شاید یہ سمجھتے تھے اگر کسی طاقتور نے اْنہیں اْن کی صلاحیتوں و اہلیتوں کو پیش نظر رکھے بغیر نواز دیا ہے تو اس ”فیض عام“ کا مظاہرہ اْنہیں بھی کرنا چاہئے، اپنے ان ”ساتھیوں“ کے بارے میں وہ یہ سمجھتے تھے وہ مرتے دم تک اْن کے ساتھ رہیں گے، اْن کے ہر مشورے ہر حرف کو وہ”حرف آخر“ سمجھتے رہے، افسوس اْن میں اکثر چار دن کی جیل یا چار چھتر بھی برداشت نہ کر سکے، بندے کو اپنی اوقات میں رہنا چاہئے، مجھے خود اپنی اوقات کا پتہ ہے کہ چار دن تو دْور کی بات ہے چار گھنٹے کی جیل بھی میں برداشت نہیں کر سکتا، چار چھتر تو دْور کی بات ہے ایک چھتر بھی میں برداشت نہیں کر سکتا، سو میں یہ پوری کوشش کرتا ہوں اْتناہی سچ بولوں جتنا کوئی ہضم کر سکے، سخت سے سخت بات کے لئے بھی انداز اگر مہذب اپنایا جائے اْس کے منفی و انتقامی اثرات کم ہوتے ہیں۔۔ پْرانے وقتوں کی بات ہے ایک شاعر نے دوسرے شاعر کو خط لکھا، جس میں اْنہوں نے دوسرے شاعر کو گالی (کْتے کا بچہ) دی، دوسرے شاعر نے اپنے جوابی خط میں لکھا ”حضور آپ کا خط ملا جس میں آپ نے میرے والد محترم کو گالی دی ہے، میں بھی آپ کے والد محترم کو گالی دینا چاہتا ہوں، آپ مجھے اْن کا نام لکھیں اگر آپ کو معلوم ہو تو“۔۔ سلیقے سے بات کرنے والے لوگوں سے دھرتی اب تقریباًخالی ہوتی جا رہی ہے، ہمارے اکثر شاعر اور ادیب بھی اپنی تحریروں میں اب وہ زبان استعمال کرتے ہیں جو ہمارے گلی محلوں کے تھڑوں پر بیٹھنے والے بھی شاید استعمال نہ کرتے ہوں، کیا زمانہ آگیا ہے بغیر گالم گلوچ کے آپ کی کسی بات کو ایک ”کمزور مؤقف“ سمجھا جاتا ہے، اس حقیقت کو بھی اب کوئی پیش نظر نہیں رکھتا کہ جس شخص یا ادارے کو وہ گالی دے رہا ہے وہ کتنا طاقتور ہے اور اس کا کیا خمیازہ اْسے بْھگتنا پڑ سکتا ہے؟ یہ خمیازہ جنرل مشرف کے دور اقتدار میں مجھے بھی بْھگتنا پڑا تھا، اْس کے بعد میں نے توبہ کر لی تھی اور یہ فیصلہ کیا تھا کسی کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے اْس کی حیثیت یا طاقت کو ضرور پیش نظر رکھوں گا، واقعہ یہ ہے 2003 میں محکمہ ڈاک پاکستان نے اْس وقت کے آرمی چیف اور صدر پاکستان جنرل پرویز مشرف کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ چھاپنے کا فیصلہ کیا، یہ خبر میں نے کسی اخبار میں پڑھی اپنے ایک کالم میں اس پر لکھا ”ہمارے محکمہ ڈاک نے جنرل مشرف کی تصویر والا ڈاک ٹکٹ چھاپنے کا فیصلہ کیا ہے، لوگوں کے لئے اب مسئلہ یہ ہوگا ٹکٹ پر تْھوک کس طرف لگائیں؟“۔۔ میرا خیال تھا میرا کالم ایک چھوٹے اخبار میں شائع ہوتا ہے، کتنے لوگ اسے پڑھتے ہوں گے؟ سو میرے اس جْملے کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوگا، پر ہوا یہ کہ اس جْملے کی وجہ سے میرا صرف کالم ہی نہیں اور بھی بہت کچھ بند کر دیا گیا، بس وہ دن اور آج کا دن کسی سے پنگا لیتے ہوئے اْس کی طاقت و حیثیت کو میں ضرور سامنے رکھ لیتا ہوں۔۔ خان صاحب کے بے شمار ساتھیوں خصوصاً”قوم یْوتھ“ کا خیال تھا پچھلے کتنے ہی عرصے سے جن لوگوں یا اداروں سے وہ پنگے لے رہے ہیں وہ شاید سارے ”کْھسرے“ ہو چکے ہیں، اْن میں اتنی سکت ہی نہیں رہی کہ خان صاحب یا اْن کی”قوم یْوتھ“ کا وہ مقابلہ کر سکیں، چنانچہ اْن کے بارے میں جتنی بکواس وہ چاہیں کر لیں، جی ایچ کیو میں داخل ہو جائیں، کور کمانڈر ہاؤس کو آگ لگا دیں، چھاؤنیاں جلا دیں، وہ اتنے”بے عزتی پروف“ ہو چکے ہیں اْنہیں کوئی فرق ہی نہیں پڑے گا، دوسری غلط فہمی”قوم یْوتھ“ کو یہ تھی خان صاحب اب مقبولیت کے اْس درجے پر فائز ہو چکے ہیں جہاں ہر قومی ادارہ اْن کے سامنے اب ہمیشہ سرنگوں ہی رہے گا، اْنہیں یہ یقین ہوگیا تھا اب واقعی یہ پہلے والا پاکستان نہیں رہا،اب سب سے بڑی طاقت عوام کی ہے اور یہ طاقت صرف خان صاحب کے پاس ہے۔۔ ایسی بے شمار غلط فہمیوں میں وہ بدتمیزیوں بداخلاقیوں اور قومی اداروں کے ساتھ چھیڑ خانیوں کی ہر حد پار کر گئے، اب جو کچھ اْن کے ساتھ ہو رہا ہے میری دعا ہے اللہ اْن کے لئے آسانیاں پیدا فرمائے اور آئندہ اْنہیں یہ عقل و ہدایت دے کسی کے ذاتی و اقتداری مفادات کی خاطر اس قدر نہ گر جائیں بعد میں اْٹھ ہی نہ سکیں۔۔ فواد چودھری بھاگ رہے تھے، ابرارالحق رو رہے تھے، کوئی سیاست چھوڑنے کا اعلان کر رہا ہے، کوئی مْلک چھوڑ گیا ہے، اس عالم میں مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہی پی ٹی آئی کے راہنما گلوکار ابرارالحق نے یہ گانا کس کے لئے گایا تھا؟
ہور چُوپو گنے۔۔

تبصرے بند ہیں.