انتخابات کے پیچھے چھپی کرپشن کا خوف

49

تقریباً تیرہ سے پندرہ مہینے قبل جب سابق وزیر اعظم عمران خان کو تحریک عدم اعتماد کی صورت میں نکالا گیا تو ابتداء میں مسند اقتدار سے ہٹائے جانے کی ضد میں انہوں نے غیر سیاسی رویہ اپنایا اور ضدی فاسٹ باؤلر کی طرح ردعمل دیتے ہوئے اپنی جماعت رہنماؤں اور کارکنوں کو ایک ایسی تحریک میں جھونک دیا جسکے اختتام پر وہ ملک میں قبل از وقت انتخابات چاہتے تھے وہ مقصد نہ پہلے ضد پر حاصل ہوا نہ اب حاصل ہونے کا امکان ہے اب فرق صرف اتنا ہے کہ وزارت اعظمیٰ سے نکالے جانے کے غصے کیساتھ کرپشن سمیت دفاعی اداروں کیخلاف سازش جیسے مقدمات کا خوف انہیں ڈرا رہا ہے جسکے لئے انہیں این آر اوملنے کا ایک ہی امکان ہے کہ انتخاب ہوں وہ وزیر اعظم بنیں اور اپنے خلاف کرپشن کے مقدمات سمیت دفاعی اداروں کی املاک کو نقصان پہنچانے اور شہداء کے ورثاء کو تکلیف پہنچانے جیسے سنگین جرائم سے بچ سکیں کیا ایسا ممکن ہے جواب ہے نفی میں اس سوال کے جواب کو تلاش کرنے سے قبل ہم نظر دوڑاتے ہیں کب کب عمران خان نے ایک سیاسی رہنما کے بجائے ایک ضدی فاسٹ باؤلر کا رویہ اپنایا تیرہ سے پند رہ ماہ قبل اسوقت کی اپوزیشن نے قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کروائی تو اسوقت کے وزیر اعظم عمران خان نے بجائے سیاسی انداز میں اسکا مقابلہ کرنے کے ایک ایسی مزاحمت کا آغاز کیا جو ایک سیاسی رہنمانہیں بلکہ ایک ضدی اور انوکھے لاڈلے جیسا ردعمل تھا انہی دنوں میں اسلام آباد میں ایک جلسے میں ایک کاغذ لہرا کر عوام کو ایک ایسا جذباتی بیانیہ دیا کہ انکے خلاف عدم اعتماد اعتماد امریکی حکومت کی ایماء پر اپوزیشن لیکر آئی ہے جب عمران خان کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ سیاسی رہنماء ہونے کا ثبوت دیتے اور اپوزیشن میں بیٹھ کر حکومت کو ٹف ٹائم دیتے لیکن اسکے بعد بھی سابق وزیر اعظم کے غیر سیاسی فیصلوں کا سلسلہ جاری رہا بجائے اسمبلی میں بیٹھ کر سابق وزیر اعظم عمران خان حکومت کو ٹف ٹائم دیتے ایک ایسی تحریک کا آغاز کردیا جسکا آغاز ایک غیر سیاسی فیصلے سے کیا قومی اسمبلیوں سے مستعفیٰ ہو کر سڑکوں پر آگئے اور پھر اسہی اثناء میں انہوں نے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف اور حساس اداروں کو تحریک عدم اعتمادکا ذمے دارٹھہرانا شروع کردیا اب امریکی سازش بیانیے سے یو ٹرن لینے کے بعد انہوں نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر پر مختلف الزامات عائد کرتے ہوئے ایک سال تک ایسا بیانیہ ترتیب دیا جس میں انہوں نے اپنے رہنماؤں اور کارکنوں اور ووٹرز کو مسلح افواج اور اداروں کیخلاف اس حد تک اکسایا کہ ان کارکنوں نے اپنی لیڈر شپ کی جانب سے دیئے گئے ایک غلط بیانیئے پر چلنا شروع کردیا سابق وزیر اعظم کو جیسے قومی اسمبلی رہنے کا ایک فیصلہ کرنا تھا اسوقت انہوں نے مستعفی ہونے کا غیر سیاسی فیصلہ کیا اسی انداز میں انہوں نے ایک اور غیر سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے آرمی چیف کی تبدیلی کے موقع پر اپنی غیر سیاسی فیصلوں کے تسلسل کو برقرار رکھتے ہوئے ایک ایسا کردار ادا کرنے کی کوشش کی جو آئینی طور پر ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے تاہم ایک ضدی اور لاڈلے کپتان کے طور پر ایک ایسی ناکام کوشش کی جسکے نتیجے میں انکے اور مقتدرہ کے مابین جاری خلیج طول پکڑتی گئی اس اثناء میں راقم کی معلومات کے مطابق اس ایک سال میں جتنے بھی مزاکرات بالواسطہ یا بلاواسطہ ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کو واضح پیغام دیا گیا کہ ایک سیاسی رہنماء کی طرح آگے چلیں اور مقتدرہ کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں کسی بھی حکومت سے ایک تعلق آئین میں واضح ہے اور مسلح افواج اسی پر گامزن ہے تاہم سابق وزیر اعظم عمران خان نے ان پیغامات کو اسی انداز میں نظر انداز کیا جیسے انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا بلکہ انہی پیغامات کے بعد سابق وزیر اعظم جس انداز میں عدالتوں میں پیش ہوئے اور ایک ایسا بیانیہ دیا کہ وہ ریڈ لائن ہیں اور حاصل معلومات کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان اپنی اندرونی میٹنگز میں بہت واضح رہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ پر جتنا دباؤ بڑھائیں گے انہیں اتنا ریلیف ملے گا اور ریڈ لائن کی گردان کرتے کرتے نؤ مئی کو وہ اور ان کی جماعت ایک ایسی ریڈ لائن کراس گئے جس میں مقبولیت کا گراف بھی زمین بوس ہوا بلکہ اپنی ہی جماعت کے لوگ یا تو عہدے یا جماعت ہی چھوڑ چھوڑ کر چلتے بنے نؤ مئی کے واقعات کے ابتداء میں دفاع کرنے کے بعد اب خان صاحب نے اس پر بھی یو ٹرن لینا شروع کردیا ہے اب وہ کبھی اسکا دفاع کرتے ہیں تو کبھی اس سے لاتعلقی کبھی واقعات کی مذمت تو کبھی اسکی ذمے داری جماعت کے رہنماؤں اور کارکنوں پر ڈال دیتے ہیں سابق وزیر اعظم عمران خان تیرہ مہینے یا گزشتہ بیس سال کسی نظریئے کی سیاست نہیں کی وہ حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑھتے رہے دو ہزار دو میں قومی اسمبلی کے ایک نشست سے دو ہزار اٹھارہ تک وزیر اعظم بننے تک عمران خان نے کسی نظریئے کی نہ تو جدوجہد کی نہ قربانی دی حالات اور واقعات کے نتیجے میں اس وزارت اعظمی کے مسند پر فائز ہونے کے بعد بھی انہوں نے اپنے تبدیلی کے نعرے پر عمل کے بجائے صرف اور صرف بیانات پر معاملہ چلانے پر توقف کیا کیونکہ جس معاشی ٹیم کے خواب وہ عوام کو دکھاتے تھے وہ کوئی وجود نہیں رکھتی تھی تو ملک کی معیشت کیا بہتر کرتی ملک میں انصاف کے نظام کو کیا بہتر بتاتے تمام سیاسی جماعتوں کے آزمائے ہوئے بابر اعوان انکی قریبی قانونی مشیر تھے تو اندازہ لگایا جاسکتا تھا کہ قانون کا نظام کیسے بہتر ہوتا خیبر پختونخواہ کو بطور ماڈل پولیس پیش کرنے والے عمران خان نے کے پی پولیس کو مثالی پولیس بنانے والے سابق آئی جی ناصر درانی کو حکومت بننے کے چند ماہ کے اندر آئی جی پنجاب تعینات کردیا لیکن ریاست مدینہ بنانے کے دعوے کرنے والے اس سیاسی رہنماء کو نے چند ہی ماہ میں انہیں نہ صرف عہدے سے ہٹایا بلکہ وسیم اکرم پلس اور فرح گوگی کو لیول پلئینگ فیلڈ فراہم کرنے کیلئے ساڑھے تین سال میں پنجاب میں ریکارڈ آئی جی پولیس اور چیف سیکریٹری تبدیل ہوئے جسکی مثال ماضی میں نہیں ملتی ساڑھے تین سال بحیثیت وزیر اعظم اور سربراہ مملکت انکی کارکردگی اس قابل نہیں جسکی بنیاد پر کوئی بیانیہ بنائیں اب اپنی (کلٹ فالوورز) کو صرف بیانات پر گھیر کر انتخابات کا حصول چاہتے ہیں کیونکہ عدم اعتماد سے نکالے جانے کا غصہ اور فارن فنڈنگ القادر ٹرسٹ توشہ خانہ کے مقدمات سمیت نؤ مئی کے واقعات میں انکے اپنے کردار نے انہیں خوف زدہ کردیا ہے اب عمران خان کو یہ سمجھناہوگا کہ کرپشن کے مقدمات ہوں یا نؤ مئی کے واقعات کا معاملہ لاء آف لینڈ کے تحت معاملات آگے بڑھیں گے اور ملک میں انتخابات کا انعقاد کسی سیاسی قوت کی خواہش پر نہیں آئین کے تحت وقت پر ہونگے اور آئین وفاق اور صوبائی اکائیوں اور سیاسی قوتوں اور شہریوں کو مساوی حقوق دیتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.