اگر اس فانی اور اسباب کی محتاج دنیا میں دعا، بد دعا، نعروں اور تقریروں سے ہی تبدیلیاں آنی ہوتی- تو اس دنیا میں کوئی مسئلہ باقی ہی نہ رہتا۔ فلسطین اور کشمیر کب کے آزاد ہو چکے ہوتے۔نعرے اور بڑھک باز قیادت کا یہی وطیرہ ہوتا ہے کہ وہ مقبول عوامی سیاست کرتی ہے۔ صحافی نے سوال کیا یا یہ کہہ لیں کہ اس سے فرمائشی سوال کرایا گیا اور اس کے جواب میں ایبسلوٹلی ناٹ کہہ کر اس قدر پروپیگنڈا کیا گیا کہ حقیقت سے نا آشنا ایک واضح اکثریت نے یہی سمجھا کہ یہ بات امریکیوں کو ان کے منہ پر کہی نہیں بلکہ ماری گئی ہے۔ اس کے بعد سائفر، بیرونی سازش اور امریکن غلامی کی زنجیریں توڑنے کی بڑھکیں اور پھر امریکی رکن کانگریس کو اپنی حمایت کے لئے فون اور سارا انقلاب ٹائیں ٹائیں فش۔یہ بات فقط میرے قائد انقلاب تک محدود نہیں ہے بلکہ اکثریت کا یہی حال ہے اگر امریکن غلامی کی زنجیریں توڑنی ہی تھیں تو ایران سے گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہو چکا تھا ہمت کرتے اور غلامی کی زنجیریں توڑتے اور ایران سے گیس درآمد کرنی شروع کر دیتے لیکن حقیقت اور افسانہ میں بس اتنا ہی فرق ہوتا ہے کہ جتنا کسی حقیقی انقلابی اور میرے قائد انقلاب میں ہے۔ موجودہ حکومت ابھی بر سر اقتدار بھی نہیں آئی تھی کہ اس کے خلاف ایک زبردست پروپیگنڈا مہم شروع کی گئی کہ یہ امپورٹڈ حکومت ہے خیر جس طرح اب ”انقلابی قیادت“ امریکہ سے ترلے منت کر رہی ہیں اس سے ان کے امپورٹڈ حکومت کے نعرے کی ہنڈیا تو بیچ چوراہے میں پھوٹ چکی ہے لیکن دوسری جانب اس منفی پروپیگنڈا کے بر عکس موجودہ حکومت جو کچھ کر رہی ہے اور صرف بیان بازی کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر جو کچھ کیا جا رہا ہے اس سے واضح طور پر نظر آ رہا ہے کہ حقیقی زنجیر شکن تو یہ حکومت ہے کہ جس نے مرحلہ وار امریکی غلامی کی زنجیریں توڑنے کا آغاز کر دیا ہے۔ جب سے یہ حکومت آئی ہے تو تمام شرائط مکمل کرنے کے بعد بھی گذشتہ نو ماہ کے دوران ایک ڈالر بھی آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو نہیں ملا۔ اس دوران جس طرح موجودہ حکومت سے ناک کی لکیریں نکلوائی گئیں اس کی مثال بھی ماضی میں پاکستان تو کیا دنیا میں کہیں اور بھی نہیں ملتی اوراس کی وجہ اس کے علاوہ اور کچھ نہیں اور اب تو یہ بات واضح بھی ہو چکی ہے کہ در حقیقت بیرونی سازش کس کے حق میں ہوئی اور کون ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کا کام کر رہا ہے۔
امریکی غلامی کی زنجیریں توڑنا کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن خطہ کی صورت حال جس طرح تبدیل ہو رہی ہے اس نے بھی موجودہ حکومت کے لئے اس کام کو قدرے آسان کر دیا اور کوئی شک نہیں کہ اس میں بہت اہم کردار موجودہ آرمی چیف سید عاصم منیر ادا کر رہے ہیں۔ کسے نہیں معلوم کہ ایران کے ساتھ
لین دین تو دور کی بات ہے امریکہ تو ایران سے بات کرنے والوں کا بھی دشمن بن جاتا ہے۔ پہلا کام تو یہ ہوا کہ ایران سے 205میگا واٹ بجلی کی فراہمی شروع ہوئی اور اس کے لئے دونوں ممالک کے سربراہان مملکت نے اس کا افتتاح کیا۔ ایران سے جو گیس پائپ لائن کا معاہدہ ہے اس پر حکومت نے امریکہ سے پوچھا کہ کہ اسے اس پر کیا تحفظات ہیں۔ روس سے زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر تیل کا معاہدہ کیا اور پہلا جہاز ایک لاکھ ٹن خام آئل لے کر عمان پہنچ چکا ہے اور وہاں سے یہ دو حصوں میں پچاس پچاس ہزار ٹن کے ساتھ پاکستان پہنچ جائے گا۔ یہ ایک سمپل کے طور پر آیا ہے اور اس میں سے پچاس ہزار ٹن آئل کو سرکاری آئل ریفائنری سے اور باقی پچاس ہزار کو پانچ نجی آئیل ریفائنریوں سے ریفائن کروا کر اس کی کوالٹی کی جانچ کی جائے گی۔ وفاقی وزیرمصدق ملک نے ایک بیان میں کہا کہ روسی تیل کی موجودہ شپمنٹ سے پٹرول کی قیمتوں میں کمی نہیں آئے گی بلکہ جب زیادہ کارگو آنا شروع ہو جائے گا تو اس وقت قیمتوں میں کمی ہو گی۔ ان کے اس بیان کو انتہائی منفی انداز میں سوشل میڈیا پر وائرل کیا گیا حالانکہ ان کی بات سو فیصد درست تھی اس لئے کہ ایک لاکھ ٹن تو فقط چار سے پانچ دن کی کھپت پوری کر سکتا ہے تو جب تک اس کے معیار کی جانچ کر کے معمول کے مطابق تیل آنا شروع نہ ہو جائے اس وقت تک تیل کی قیمتوں میں کمی نہیں کی جا سکتی اور جب روس سے معاہدے کے مطابق تیل آنا شروع ہو جائے گا جو کہ پاکستان کی کل ضروریات کا 33 فیصد ہو گا تو اس کے مطابق کمی کی جائے گی اور اس میں سب سے اہم بات کہ روس کو اس کی ادائیگی ڈالر کی بجائے چینی یوآن میں کی جائے گی۔ جس کو بھی بین الاقوامی سیاست کی کچھ سمجھ ہے تو امریکن ڈالر کی بجائے چینی کرنسی یو آن میں ادائیگی سے سمجھ سکتا ہے کہ امریکن غلامی کی زنجیریں توڑنے کے حوالے سے یہ کس قدر اہم اقدام ہے۔
اس بار حکومت جو بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے عشروں کے بعد یہ پہلی بار ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر کوئی حکومت بجٹ پیش کر رہی ہے اور گذشتہ ایک سال کے دوران بغیر آئی ایم ایف کے حکومت گیارہ ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگیاں کر چکی ہے۔ یہاں ایک بات کی وضاحت کر دیں کہ کچھ احباب یہ اعتراض کر سکتے ہیں کہ اگر زنجیریں توڑنی ہی ہیں تو پھر آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کیوں کیا جا رہا ہے تو اس حوالے سے عرض ہے کہ بات آئی ایم ایف کے ایک ارب اور دس کروڑ ڈالر کی قسط کی نہیں ہے بلکہ بین الاقوامی مالی روایات کے تحت گذشتہ سال سیلاب متاثرین کے لئے بین الاقوامی برادری نے نو ارب ڈالر سے زیادہ کے جو وعدے کئے تھے وہ آئی ایم ایف کی جانب سے قسط کی ادائیگی کے بعد ملنے ہیں اس کے علاوہ بھی دوست ممالک کی جانب سے ادائیگیاں بھی اسی بات سے مشروط ہیں لیکن جس طرح کسی خاطر خواہ امداد کے بغیر حکومت نے سیلاب متاثرین کی نگہداشت کی ہے یہ امر یقنا قابل تحسین ہے۔ ان مالی معاملات سے ہٹ کر سب سے اہم بات کہ اس وقت عمران خان کو این آر او دینے کے حوالے سے کسی کو اندازہ ہی نہیں کہ حکومت اور آرمی چیف پر کس قدر بین الاقوامی دباؤ ہے اور خاص طور پر امریکہ کا لیکن حال کی گھڑی تک حکومت اور آرمی چیف دونوں اس دباؤ کو خاطر میں نہیں لا رہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں تھا اور ماضی میں امریکہ کی سرپرستی کے بغیر ملک کا چلنا تو ایک طرف حکومت کا چار دن چلنا بھی محال ہوتا تھا لیکن گذشتہ ایک سال کے دوران بیرونی قوتوں اور ان قوتوں کے اشارے پر اندرون ملک اس حکومت ہی نہیں بلکہ آرمی چیف کے خلاف کیا کچھ نہیں ہوا لیکن تمام سازشیں ناکامی سے دوچار ہوئیں اور اب تو ملک کو دیوالیہ کرنے والے کی امیدوں پر بھی پانی پھر چکا ہے اور ملکی معیشت دوبارہ اپنے قدموں پر کھڑی ہو رہی ہے پٹرولیم مصنوعات، گھی، آئل اور گیس سیلنڈر کی قیمتیں کم ہو رہی ہیں اور اوپن مارکیٹ میں چوبیس گھنٹے میں ڈالر پچیس روپے نیچے آیا ہے خدائے بزرگ و برتر نے چاہا تو امریکن غلامی کی زنجیریں بھی ٹوٹیں گے، معیشت میں بہتری بھی آئے گی اور عوام کو ریلیف بھی ملے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.