آج کل پاکستان میں تربوز کا موسم اپنے جوبن یہ ہے شہر کے ہر گلی محلے میں ڈھیر لگے ہوئے ہیں لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے تربوز کی فصل کا رنگ اور ذائقہ دونوں پھیکے پڑ گئے ہیں پرانے دیسی تربوز بہت میٹھے رسیلے اور لال سرخ ہوتے تھے مگر ”اوہ گلاں ای نئیں رہیاں“ اس کی وجہ یہ ہے کہ تربوز کا کوئی ایسا Modified بیج درآمد کیا گیا ہے جو چند ہفتوں میں تیار ہو جاتا ہے اس کی نشوونما جتنی تیز رفتار ہوتی ہے کوالٹی اتنی ہی ہلکی ہے اوپر سے تربوز فروشوں نے ایک نیا طریقہ نکالا ہے وہ تربوز میں ایک ٹیکہ لگاتے ہیں جس میں کیمیکل ملا ہوا رنگ ہوتا ہے وہ انجکشن زدہ تربوز دیکھنے میں بہت سرخ اور چمکدار ہوتا ہے مگر مضر صحت ہے۔ پاکستان کی حالیہ سیاست میں سیاستدانوں کی موجودہ نسل ان کا طرز سیاست اور ان کی کوالٹی کے سارے پہلو ہمارے گلی محلوں میں فروخت ہونے والے اندر سے سفید پھیکے اور انجکشن زدہ تربوزوں مے ملتے جلتے ہیں تربوز کے کاشت کار اپنے وقار کی بحالی کے لیے تربوز کی پرانی ورائٹی کی تلاش میں ہیں جبکہ اہل سیاست سے بھی ہمیں اس جذبے کی امید ہے کیونکہ ہر نئے الیکشن کے نتیجے میں ہمارے تربوز پھیکے نکل رہے ہیں۔
اس وقت سب سے بڑا مسئلہ قومی معیشت کو ادائیگیوں اور دیوالیہ ہونے کے خطرات سے باہر نکالنا ہے۔ پاکستان کو ستمبر میں 10 ارب ڈالر سے زیادہ کے پرانے قرضوں کی قسطیں ادا کرنی ہیں جس کا انتظام بظاہر ناممکن نظر آتا ہے۔ وفاقی وزیر چوہدری احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہمیں ٹیکس اہداف کی مد میں 5500 ارب روپے کے محصولات حاصل ہوں گے جو سارے قرضہ واپس کرنے پر خرچ ہو جائینگے جس کے بعد ملک چلانے کے لیے ہمارے پاس ایک پیسہ بھی نہیں بچے گا دوسری طرف آئی ایم ایف سے قرضہ پروگرام کا 9th Review جو گزشتہ سال نومبر میں ملنا تھا ابھی تک نہیں ملا جبکہ پروگرام کا 10 واں اور 11 واں ریویو بھی تعطل کا شکار ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹینا جارجیا سے خود بات کی ہے کہ تمام تر شرائط لاگو ہونے کے باوجود ہمیں فنڈز نہیں دیئے جا رہے جس کے جواب میں انہوں نے پاکستان میں سیاسی بحران کے خاتمے کی نئی شرط لاگو کر دی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پاکستان آئی ایم ایف کی ساری شرطیں مان چکا ہے جس میں بیرونی فنانسنگ، سبسڈی کا خاتمہ، پٹرول اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ، ڈالر کی مارکیٹ ایکسچینج ریٹ پر خرید و فروخت شامل ہیں۔ اب 2019ء کا شروع کیا گیا پروگرام
جو جون میں مکمل ہونا تھا جس میں ہمیں مجموعی طور پر 6 ارب ڈالر پورے ہونے تھے وہ ناممکن نظر آتا ہے۔ اب حکومت چاہتی ہے کہ اس کی بجائے نئے بجٹ کے بعد ازسرنو قرضہ پروگرام تشکیل دیا جائے اور پرانے قرضے مؤخر کیے جائیں لیکن آئی ایم ایف یہ چاہتا ہے کہ پاکستان میں جب تک نئے انتخابات کے نتیجے میں نمائندہ حکومت نہ بن جائے انہیں قرضہ نہ دیا جائے۔ پاکستان میں اپنی بجٹ دستاویز تک آئی ایم ایف سے شیئر کی ہیں مگر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا۔
تحریک انصاف 9 مئی کے واقعہ کے بعد تنکوں کا ڈھیر ثابت ہوئی یہ بالکل 1912میں ڈوبنے والے بحری جہاز Titanic والی سٹوری ہے جو بہت بڑے برفانی تودے سے ٹکرا کر سمندر میں ڈوب گیا تھا جس پر کتابیں اور فلمیں ایوارڈ یافتہ قرار پائیں۔ اگر یہ جہاز کا کپتان احتیاط سے کام لیتا تو شاید Titanic آج بھی بحری راستوں پر رواں دواں ہوتا۔ تحریک انصاف اور Titanic میں بہت سی باتیں مشترک ہیں جس میں سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈوبنے کے وقت Titanic کے بہت سے مسافروں نے سمندر میں چھلانگیں لگا دی تھیں تا کہ اپنی جانیں بچا سکیں لیکن سمندر کا پانی بہت زیادہ ٹھنڈا تھا جس کی وجہ سے چھلانگ لگانے والے 165 مسافروں میں سے ایک بھی زندہ نہ بچ سکا۔ یہ دیکھنا ابھی باقی ہے کہ پی ٹی آئی کے Titanic سے چھلانگیں لگانے والوں میں سیاسی طور پر بچ جانے والوں کی تعداد کیا ہو گی۔
اسی دوران پی ٹی آئی کے نئے اور پرانے منحرفین آپس میں ملاقاتیں کرتے نظر آتے ہیں گویا تاریخ ایک دفعہ پھر اپنے آپ کو دہرانے جا رہی ہے یعنی ایک اور ق لیگ کی پیدائش ہونے جا رہی ہے جس کے لیے جہانگیر ترین کا فی امید سے ہیں یہ تجربہ ہر لحاظ سے جمہوریت کے لیے مضر صحت ثابت ہو گا مگر ہماری جمہوریت کا یہ حسن ہے کہ جسے ہم ناخوشگوار سمجھ کر چاہتے ہوں کہ ایسا نہ ہو تو وہ ضرور ہو کر رہتا ہے لہٰذا نئی ق لیگ بن کر رہے گی۔ ایک اور پہلو یہ ہے کہ سیاسی وفاداری سے آزادی کا آغاز ہر دور میں ساؤتھ پنجاب سے ہی کیوں ہوتا ہے۔ اس دفعہ ساؤتھ پنجاب سے تحریک انصاف کے پارلیمنٹیرین کی ایک بڑی کھیپ کے پیپلزپارٹی میں شامل ہونے کی خبریں ہیں۔ ساؤتھ پنجاب والوں کی حس اقتدار بڑی تیز ہے یہ سونگھ لیتے ہیں کہ اگلا معرکہ کون جیتے گا اگر ساؤتھ پنجاب کو ایک indicator مانا جائے تو لگتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو ماہرین علم نجوم نے بتا دیا ہے کہ اس دفعہ پنجاب اور وفاق میں ان کے گھوڑے جیت جائیں گے اور اگر ترین گروپ اپنا وزن پیپلزپارٹی کے پلڑے میں ڈالتا ہے تو جس طرح پرانی ق لیگ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت کی تھی اسی طرح نئی ق لیگ بھی ان کی بجائے پی پی پی کو زیاسدہ suit کرے گی۔ ویسے بھی آصف زرداری اس طرح کی سیاسی جوڑ توڑ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ایک تاثر یہ قائم کیا جا رہا ہے کہ اگر بلاول بھٹو کو وزیراوعظم بنایا جائے گا تو ان پر ماضی کے حوالے سے بدعنوانی کے الزامات کی بھرمار نہیں ہو گی۔
یہ تو سیاست اور معیشت کی صورتحال تھی دیکھنا یہ ہے کہ ملک کی 65 فیصد یوتھ کیا سوچ رہی ہے ہمارے ملک کا پڑھا لکھا اور ان پڑھ طبقہ اس لحاظ سے برابر ہے کہ دونوں ہی ملک سے باہر جا کر روٹی کمانے کی فکر میں ہیں کیونکہ یہاں پر روزگار سکڑ رہا ہے اور مہنگائی میں بے لگام اضافہ متوسط طبقے کے لیے وبال جان ہے۔ یوتھ اس لیے بھی فرسٹریشن کا شکار ہیں کہ انہوں نے اقتدار کی باریاں لینے والوں کو بے دخل کر کے بھی دیکھ لیا مگر Statur Quo کو ختم کرنے کا نعرہ لے کر اقتدار حاصل کرنے والی نئی پارٹی تحریک انصاف نہ صرف StatusQua کا بال بیکا نہ کر سکی بلکہ خود بھی اس کا حصہ بن گئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سال انڈیا کی آبادی دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ اب دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک چین نہیں بلکہ انڈیا ہے۔ ہم اپنے مسائل کو آبادی میں اضافے کے ساتھ جوڑتے ہیں جبکہ مین پاور انڈیا کے لیے ایک Asset کی حیثیت رکھتا ہے جسے وہ اپنے لیے خوشحالی کی ضمانت سمجھتے ہیں کہ آبادی جتنی زیادہ ہو گی مارکیٹ اکانومی کا سائز اتنا ہی بڑا ہو گا اشیاء و خدمات کی ڈیمانڈ زیادہ ہو گی۔ چین یہ ثابت کر چکا ہے انڈیا نے بھی یہ دنیا سے منوا لیا ہے مگر پاکستان اپنے موقف پر قائم ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.