ایک دن مجھے خواجہ عقیل (المعروف گوگی بٹ صاحب) کا واٹس اپ میسج آیا:
جے دل پڑھے جاندے
تے سب پھڑے جاندے
اس سے مجھے بہت سرشاری ہوئی کہ پنجابی زبان اور لہجے میں ان کا یہ پیغام کس قدر ہماری معاشرت کا عکاس ہے۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ایک عرصہ سے وہ تہجد گزار اور قرآن کے ترجمہ کے ساتھ قاری ہیں۔ اب قوت ایمانی بھی ان کی جانی پہچانی جانے والی قوت میں شامل ہے حق پر ہوں تو کچھ بھی جائز سمجھنا قدرت کا قانون اور حکم بھی ہے۔ اگلے روز میرے بہت ہی معزز دوست میاں نواز انجم جن کا حلقہ یاراں بہت وسیع ہے، ہفتہ بھر پہلے میں نے انہیں کسی ذاتی کام سے فون کیا تو کہنے لگے کہ اب میں گالف کلب ڈیفنس میں ہوں، اِدھر آ جائیں۔ میں ان سے ملنے چلا گیا وہاں پر 20/25 لوگ ناشتہ کی آخری ریلیں چلا رہے تھے۔ تعارف ہوئے، ان میں سے جو یاد رہ گئے رشید لون (سابق ایم ڈی سوئی گیس)، شیخ احتشام، کرنل گلریز صاحبان تھے۔ پارک، مارکیٹ، گلی، بازار، گھر، شادی بیاہ تو درکنار سیاسی حالات تو آج کل مساجد میں بھی موضوع بحث ہیں اور لوگ خانہ کعبہ کے باہر بیٹھ کر بھی درفنطنیاں چھوڑتے ہوئے اپنی ویڈیوز بیچتے رہتے ہیں۔ میاں نواز انجم کی روزانہ صبح 20/25 لوگوں سے ملاقات رہتی ہے، ایک دن سیاسی گفتگو کے آخر پر کھڑے ہو گئے اور اعلان کی صورت میں تین بار دہرایا کہ ”سب پھڑے جان گے“۔ پھر سب پھڑے بھی گئے۔ ان کے پاس اتنی زبردست اطلاعات اور خبریں ہوتی ہیں کہ مجھے رقم کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ اگر یہ نہ ہوا تو مجھے ندامت کا سامنا ہو گا۔ ایک دن انہوں نے بہت ہی اہم ترین اور ناممکنات قسم کی (وطن عزیز کے حق میں اور مخالفین کے خلاف) باتیں سنائیں میں حیران تو ہوا مگر چند دن بعد انہوں نے ایک دوست کا ویلاگ واٹس ایپ کیا جس میں وہ تمام باتیں اور خبریں تھیں، ساتھ لکھا کہ بٹ صاحب یہی باتیں میں نے آپ کو ہفتہ بھر پہلے بتائی تھیں یعنی سب پھڑے جان گے۔ جمعرات کی شام خبر سنی کہ چودھری پرویز الٰہی پھڑے گئے ہیں کبھی ان کی موجودہ
جماعت کا چیئرمین انہیں ”پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو“ کہتا تھا آج یہ اس کی جماعت کے صدر ہیں بہرحال پھڑے گئے ہیں۔ در اصل یہ پھڑے جانے کا سلسلہ ایسے ہی نہیں ہے یہ ان کے اعمال کا نتیجہ اور لازمی نتیجہ ہے۔ اس لیے نہیں کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہے اگر ایسا ہوتا تو ملک اور عوام کے ساتھ سرعام دھوکہ دہی نہ ہوتی۔ دراصل یہ قدرت کے قانون کا وقتاً فوقتاً حرکت میں آنا ہے۔ اگلے روز مجھے میرے دوست اور بہت موقر قانون دان عرفان حیدر گورایا نے فون کیا تو کہنے لگے کہ فلاں جج کی عدالت میں ہوں۔ میں نے کہا کہ فلاں مقدمہ میں بھی آپ نے میرے ساتھ ہونا ہے، بولے کہ ادھر عمران نیازی کی تاریخ ہے میں اِدھر پھنسا پڑا ہوں ان کے کیس کے بعد باری آئے گی میں بھی ادھر چلا گیا تو نیازی صاحب کی سواری باہر لانے کی تیاری ہو رہی تھی کالے بالٹی ٹائپ پردوں کا اہتمام تھا مجھے ایرینا امریکہ جہاں عمران نیازی نے جلسہ میں کہا تھا کہ میں نواز شریف کا واپس جا کر اے سی بند کراؤں گا۔ اس جلسہ میں امریکہ کینیڈا سے آئے ہوئے وہ لوگ تھے جو گریٹ بھٹو شہید کے اس لیے دشمن ہیں کہ انہوں نے آئین میں ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والوں کو غیر مسلم اور وطن عزیز میں اقلیت قرار دیا تھا۔ بقول جاوید اختر چودھری جو اب امریکہ میں ہی رہتے ہیں، ضیا الحق کے دور میں سزائے موت کے قیدی اور کئی سال جیل میں رہے 9500 تعداد تھی یہ وہاں تعینات پولیس کپتان کی رپورٹ تھی بہرحال رانا ثنا اللہ کو مونچھوں سے پکڑ نا، سب کو رلاؤں گا، کرسی سے اترا تو زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا، زرداری سب سے بڑی بیماری، شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بھی نہ رکھوں، فلاں کی پتلونیں اور فلاں کی شلواریں گیلی، مولانا ڈیزل نہ جانے کیا کیا واہیات بیانات ذہن میں گھومتے رہے مگر کون تھا جو اس شخص کو کہہ سکتا تھا جس کا جج عدالت کے اندر بیٹھ کر دو گھنٹے انتظار کرے اور یہ باہر کھڑا اس کی تحقیر کر رہا ہو جس کو جج گڈ ٹو سی یو کہیں۔ یقینا یہ قدرت کا قانون ہے اگر یہ لوگ کسی عوامی نظریے، عوامی ملکی اور قومی مفاد کی خاطر کچھ کرتے تو تاریخ اس کو رقم کرتی مگر جب اقتدار میں آنے کے بعد ان کے گھروں کی اینٹیں کم اور ڈالر زیادہ ہوں، ان کی زندگی محدود، وعدے دعوے اور ارادے ذاتی مفادات پر مبنی لا محدود ہوں، عوام رعایا بلکہ غلام ہوں ان کے عشاق کا جرم صرف عاشقی ہو اور یہ اس کو اپنا حق سمجھیں تو ملکی قوانین نہیں قدرت کا قانون حرکت میں آتا ہے۔ ہر جماعت کے ورکرز سے ہر لیڈر نے خوب انتقام لیا۔ لوگ ووٹ کرتے ہیں، یہ پارٹی بدل جاتے ہیں، لوگ اپنے مسائل کے حل کے لیے چنتے ہیں، یہ اپنے لیے وسائل جمع کر لیتے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ پیپلزپارٹی کے ورکر سے اس سے بڑا انتقام کیا ہو گا کہ وہ منظور وٹو کے دروازے، بابراعوان کے دروازے پر بٹھا دیا جائے لیکن اس کا دوسرا رخ بھی ہے یقینا وہ سیاسی ہے کہ زرداری کو عبرت بنانے کی خواہش رکھنے والے ان کے فالوورز ہو گئے اور اقتدار کا مزہ لوٹا مگر یہ ورکرز کے ساتھ زیادتی ہے۔ اب پی ٹی آئی کے ورکرز کا امتحان دیکھئے کہ پرویز الٰہی کی حمایت کرنا ہو گی۔ ابھی صدر زرداری پنجاب کے دورے پر ہیں، پیپلز پارٹی کے جھنڈے لوگوں کے گلے میں ڈال رہے ہیں۔ سیاسی پرندے چھتریوں کا انتخاب کر رہے ہیں مگر کچھ اس قابل نہیں رہے کہ سابقہ چھتری پر موجود پرندے انہیں اپنے درمیان بیٹھنے دیں کیونکہ یہ ان کے لیے اول فول بول چکے۔ معروف کالم نگار سینئر صحافی طاہر سرور میر بھی اس حوالے سے متفق ہیں کہ اب ان کو ہاتھوں سے دی گئی گانٹھیں دانتوں سے کھولنا پڑ رہی ہیں۔ کوئی نہیں بتا سکتا کہ کوچہ سیاست میں کس کا رخ، کس کا باطن کیا ہے۔ اہلمد سے چیف جسٹس تک رپورٹر سے میڈیا ہاؤس مالکان تک جانبدار ہیں اور یہ سارا آج کا المیہ ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے اگر تم ایک دوسرے کی نیتوں سے واقف ہو جاؤ تو ایک دوسرے کے جنازوں میں شرکت نہ کرو (مفہوم)۔ پھر ایسی بات کو ان کے ساتھ یوں منسوب کیا جاتا ہے کہ اگر تم ایک دوسرے کا باطن جان جاؤ تو ایک دوسرے کی گردنیں اڑا دو (مفہوم)۔ آج محراب سیاست، حکمرانی کے بازار میں کچھ پتہ نہیں کوئی کیا خرید بیچ رہا ہے مگر عوام خوار ہیں یہ جو ملاقاتیں ہیں دراصل اپنے فالوورز کے سودے ہیں، فالوورز کو اپنی قیمت نہیں لگنے دینی چاہئے۔ حالیہ گرفتاریوں میں پنجاب کے سب سے بڑے بقول عمران نیازی ”ڈاکو“ پرویز الٰہی کی گرفتاری پر میں علی وارثی کا ہیڈ لائن پروگرام دیکھ رہا تھا گیارہ منٹ ختم ہو گئے مگر چیدہ چیدہ نمایاں کرپشن کے مقدمات اور حوالے ختم نہ ہو سکے، آج کوئی کسی پر بھروسہ نہیں کر رہا مگر ایک بات طے ہے کہ سب پھڑے جان گے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.