9مئی کے بعد جس طرح تحریک انصاف کے رہنما پارٹی کو چھوڑ رہے ہیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ یقینا ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ پر ایک سے زائد بار برا وقت آ چکا ہے لیکن اتنی قلیل مدت میں اس قدر کثیر تعداد میں لوگوں نے پارٹی کو خیر باد نہیں کہا۔ جنرل ضیاء کا مارشل لاء لگا اور اس دور میں کسی قسم کا کوئی متحرک میڈیا نہیں تھا اور سیاسی کارکنوں کے لئے مارشل لاء لگنا ایک بھیانک سپنے کی مانند ہوتا تھا۔ضیاء مارشل لاء کے بعد حنیف رامے نے مساوات پارٹی، مولانا کوثر نیازی نے پروگریسو پیپلز پارٹی، ممتاز بھٹو اور عبد الحفیظ پیر زادہ نے سندھ بلوچ پختون فرنٹ بنایا جبکہ غلام مصطفی جتوئی نے نیشنل پیپلز پارٹی بنائی۔ نوے کی دہائی کے آخر میں فاروق لغاری نے ملت پارٹی اور آفتاب احمد شیر پاؤ نے قومی وطن پارٹی بنا لی۔ اس دوران مختلف اوقات میں پارٹی رہنما آتے بھی رہے اور جاتے بھی رہے۔ اسی طرح جب 1999میں جنرل مشرف نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا تو نواز لیگ معتوب جماعت ٹھہری اور دو ڈھائی سال بعد ہی نواز لیگ میں سے ایک پوری جماعت قاف لیگ کا ظہور عمل میں آیا۔ ملک بھر سے ریس جیتنے والے گھوڑے اس جماعت میں شامل کئے گئے لیکن اس کے باوجود بھی حکومت بنانے کے لئے پاکستان پیپلز پارٹی سے بندے توڑ کر پٹریاٹ کا ایک گروپ بنانا پڑا۔ انتہائی مشکل حالات کا سامنا کرنے کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی 1988میں الیکشن جیت کر واپس آئی اور اس طرح الیکشن میں فتح حاصل کی کہ جنرل حمید گل مرتے دم تک ببانگ دھل کہتے رہے کہ انھوں نے ملک و قوم کے مفاد میں اس الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی کی اکثریت کو کم کیا تھا۔نواز لیگ نے 2008کے الیکشن میں واپسی کا سفر شروع کر دیا تھا اور2013میں وہ ایک اچھے مینڈیٹ کے ساتھ واپس آئی۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کے ساتھ جو ہو رہا ہے اکثر لوگ اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں کہ سیاسی جماعتیں کبھی ختم نہیں ہوتیں اور تحریک انصاف بھی دوبارہ پہلے کی طرح پوری طاقت کے ساتھ ملکی سیاست میں واپس آئے گی۔ عمومی طور پر تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے لیکن جو لوگ یہ بات کہہ رہے ہیں در حقیقت وہ بہت سے زمینی حقائق سے دانستہ یا غیر دانستہ نظریں چرا رہے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی
، نواز لیگ اور تحریک انصاف کے حوالے سے حقائق میں جو بہت بڑا فرق ہے اسی فرق کو آج کی تحریر میں واضح کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ حقائق کی مکمل تصویر قارئین کے سامنے آ سکے۔
آج کی تحریر اس بات کو فرض کر کے ہو رہی ہے کہ عمران خان عوام میں بہت زیادہ مقبول ہیں جبکہ ہم اس بات کو اس لئے تسلیم نہیں کرتے کہ گذشتہ سوا سال کے دوران ان کے تمام اقدامات عوام کی عدم پذیرائی کی بنا پر ناکام ہوئے ہیں۔ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی واپسی 1988میں گیارہ سال کے بعد ہوئی تھی اور بھٹو صاحب اس دنیا میں نہیں تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جب وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو اس وقت ان کی عمر 35سال سے کچھ زیادہ تھی اور 2007میں اگر ان کی شہادت نہ ہوتی تو اس وقت بھی ان کی عمر54سال ہوتی۔ اسی طرح میاں نواز شریف جب 2007میں واپس آئے تو ان کی عمر کم و بیش 58سال تھی اور جب 2013میں وہ وزیر اعظم بنے تو وہ 63سال کے تھے جبکہ عمران خان کی عمر اس وقت 71سال سے کچھ کم ہے اور یہی سب سے بڑا فرق ہے کہ جسے نظر انداز کر کے تحریک انصاف اور عمران خان کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اندازے لگائے جا رہے ہیں اس لئے کہ پاکستان کے سیاسی حالات میں کوئی بہت بڑی غیر متوقع تبدیلی نہ آ جائے ورنہ جو دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے اس کے مطابق اکتوبر یا جب بھی انتخابات ہوتے ہیں تو اس میں عمران خان وکٹری اسٹینڈ پر نظر نہیں آ رہے تو سوچیں کہ اگلے انتخابات 2028میں اگر ہوتے ہیں تو اس وقت عمران خان کی عمر 76سال سے زیادہ ہو چکی ہو گی تو کیا اس عمر میں بھی وہ نوجوان طبقہ کو قبول ہوں گے اور کیا خان صاحب اس وقت بھی اسی طرح فٹ ہوں گے کہ جس طرح آج ہیں اور ایک سال میں کیا اسی طرح سو سے زائد جلسے کرنے کی ان کی صحت انھیں اجازت دے گی۔ دوسری بات کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی واپسی گیارہ سال بعد ہوئی تھی اور نواز لیگ کی واپسی 14سال بعد2013میں ہوئی تھی تو گیارہ اور چودہ سال بعد تو عمران خان 80برس سے زائد عمر کے ہو چکے ہوں گے تو اس عمر میں کم بیک کے کس قدر امکانات ہیں اس کا اندازہ قارئین خود لگا سکتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس1988میں عوام کو بتانے کے لئے بہت کچھ تھا نیو کلیئر پروگرام، 1973کا آئین، اسٹیل مل، اسلامی سربراہی کانفرنس اور قادیانیوں کو کافر قرار دینا۔ اسی طرح نواز لیگ کے پاس بھی ایٹمی دھماکے، موٹر ویز اور میٹرو سمیت عوام کو بتانے اور دکھانے کے لئے کافی سامان تھا لیکن تحریک انصاف کا اس حوالے سے دامن کم و بیش خالی ہے اور اس کے پاس دکھانے اور سنانے کے لئے فقط عمران خان کی تقریریں ہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس بھٹو صاحب کے عدالتی قتل کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی شکل میں ایک کرشماتی شخصیت موجود تھی کہ جس کی قیادت کوعوام نے تہہ دل سے قبول کیا تھا اور اسی طرح نواز شریف تو ابھی زندہ ہیں اور صحت مند بھی ہیں لیکن ان کی پارلیمانی سیاست سے نا اہلی کے بعد محترمہ مریم نواز کی قیادت کو پوری نواز لیگ میں قبولیت مل چکی ہیں اور نواز لیگ کا ووٹر اور سپورٹر میاں نواز شریف کے بعد صرف مریم نواز کو ہی قائد تسلیم کرتا ہے۔ اب اس کے بر عکس تحریک انصاف میں عمران خان کی نا اہلی کی صورت میں کوئی ایک رہنما بھی ایسا نہیں ہے کہ جو اپنے ذاتی حلقہ انتخاب کے سوا پورے پاکستان میں عوامی مقبولیت کا دعویٰ کر سکے۔ شاہ محمود قریشی یقینا ایک پرانے سیاسی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن وہ تو کئی بار اپنی ذاتی سیٹ بھی نہیں بچا سکے اور یہی حال پرویز خٹک کا ہے کہ وہ بھی دو ڈھائی نشستوں کے سیاستدان ہیں اور ان سب کی حالت غلام مصطفی جتوئی اور آفتاب احمد شیر پاؤ سے زیادہ نہیں کہ جو اپنے آبائی حلقوں کی دو تین سیٹوں تک محدود ہیں۔ اس کے علاوہ 1988میں جنرل ضیاء اس دنیا میں نہیں رہے تھے اور 2007میں جنرل مشرف کی طاقت ختم ہو چکی تھی لیکن اس کے بر عکس عمران خان نے جن قوتوں سے محاذ آرائی شروع کر رکھی ہیں ہم کسی کا نام نہیں لیتے لیکن اتنا ضرور کہیں گے کہ ان کی طاقت کا سورج ابھی سوا نیزے پر اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے بلکہ ان میں سے ایک سورج میں تو فل چارج بیٹری ابھی چھ ماہ پہلے رکھی گئی ہے اور دوسرے سورج کی بیٹری بھی چارجنگ پر لگائی ہوئی ہے اور اس کو پوری طرح چارجنگ کے بعد 17ستمبر کو لگا دیا جائے گا اور ہمارے کالم کی بیٹری نے ابھی چارجنگ پکڑی تھی کہ دامن کالم میں گنجائش ختم ہو گئی۔ وجوہات اور بھی بہت ہیں لیکن فی الحال اسی پر گذارا کریں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.