اشرف ممتاز سے میری پہلی ملاقات کب ہوئی مجھے ہرگز یاد نہیں، یہ میری صحافتی زندگی کا آغاز تھا جب میں نے بہت کچھ سیکھنا تھا، بہت کچھ جاننا تھا۔ یہی وہ عمر ہوتی ہے جب آپ اپنی زندگی کے اصول وضوابط طے کرتے ہیں، انسپائریشن لیتے ہیں اور اپنوں سے پہلوں کو دیکھ کے فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ نے کیا کرنا ہے اور اس سے بھی بڑھ کے یہ کہ آپ نے کیا نہیں کرنا۔ مجھے روزنامہ خبریں میں میجر ریٹائرڈ طاہر کے ساتھ پولیٹیکل بیٹ کی ذمے داری ملی تھی اور فیلڈ میں میری جن ’بیٹ فیلوز‘ سے کم و بیش روزانہ ہی ملاقات ہوتی تھی ان میں سلمان غنی، پرویز بشیر، روف طاہر، خواجہ فرخ سعیدکے ساتھ اشرف ممتاز بھی تھے۔ اشرف ممتاز انگریزی کے معتبر ترین اخبار’ڈان‘ سے وابستہ تھے اور وہ بہت بہتر طور پر جانتے تھے کہ کسی بھی خبر کا بہترین اور اہم ترین پہلو کون سا ہے۔ اکثر اتفاق ہوتا کہ ہم ایک ہی موٹرسائیکل پر کبھی نواز شریف اور کبھی نوابزادہ نصراللہ خان کی کوریج کے لئے جاتے، پھر ان کی باتوں کے سیاسی اثرات اور نتائج کو ڈسکس کرتے اور یہی وہ موقع تھا کہ میں نے اشرف ممتاز صاحب کو آئیڈیل بنایا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جرنلزم کرنے میں دو ہی چیزیں سب سے اہم ہیں، ایک آپ کی دیانتداری ہے اور دوسرے آپ کی محنت اور اسی سے آپ کا ٹیلنٹ، شہرت اور کامیابی جنم لیتی ہے۔ میں جرنلزم میں اپنے بہت سارے استاد سمجھتا ہوں مگر ان میں پچانوے فیصد سے زائد ایسے ہیں جن کو دیکھ کر میں نے یہ سیکھا کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ میں نے نہیں کرنا۔ اشرف ممتاز ا ن سب سے جدا تھے۔ میں انہیں دیکھا اور ہمیشہ کوشش کی کہ یہ جو کچھ کر رہے ہیں میں نے وہی کچھ کرنا ہے مثال کے طور پربغیر کسی خوف، بغیر لالچ اور بغیر لگی لپٹی کے سوال۔ جرنلزم سوال کرنے کے سوا کیا ہے، کچھ بھی نہیں۔ میں نے ان سے سیکھا کہ ہارڈ ٹاک میں لہجہ نہیں بلکہ سوال سخت ہوتا ہے،اس میں موجود علم اور نظریہ پختہ ہوتا ہے۔ اشرف ممتاز کے سوالات بہت ساروں کومحتاط اور پریشان کر دیتے تھے اور بہت ساروں کوکنفیوژ اورڈیفینسو۔ ان بہت ساروں میں نواز شریف سے نوابزادہ نصراللہ خان تک سب شامل تھے حالانکہ موخرالذکر جواب دینے میں، دلیل دینے میں ماہر تھے۔
سچ کہوں تو میں نے اشرف ممتاز صاحب سے پروفیشنل ازم سیکھا اور اس کے ساتھ تھوڑا سا پریکٹیکل ازم ملایا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک بڑے سیاسی خاندان کی طرف سے ہمیں چینی کی بوریاں بھیجی گئیں اور ہم دونوں ہی اس پر پریشان ہوئے کہ انہیں واپس نہیں بھیجا جا سکتا تھا جبکہ وہ ہماری عدم موجودگی میں ہمارے گھر ان لوڈ کروا دی گئی تھیں۔ میں نے چینی کی بوری رکھ لی اور فون کر کے شکریہ ادا کیا، کہا، آئندہ یہ زحمت مت کیجئے گا کہ مجھے اچھا نہیں لگے گا کہ میں موٹرسائیکل پربوری رکھے اسے واپس چھوڑنے آؤں۔ اشرف ممتاز نے اس بوری کے کلوکلو اور دو دوکلو کے پیکٹ بنوا کے غریبوں میں تقسیم کر دئیے۔ اسی طرح مجھے علم ہوا کہ ایک سیاسی عالم دین جو اس وقت پاکستان میں موجود نہیں، ان کی طرف سے انہیں عیدالاضحی پر بکرے کی دو رانیں تحفے کے طور پر موصول ہوئیں مگر انہوں نے گھر کے دروازے پر آیا ہوا وہ تحفہ واپس کر دیا۔میں ان سے اکثر کہتا تھا کہ وہ تحفہ جو آپ نے ڈیمانڈ ہی نہیں کیا اور آپ کے گھر خلوص اور محبت کے ساتھ بھجوا دیا گیا، اسے حرام مت سمجھیں۔میں کہتا،ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ جب ہم کسی کا بغیر مانگے ہوئے بھی تحفہ واپس کر دیتے ہیں تو وہ اسے اپنی توہین سمجھتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ہم اس سے اچھا تعلق نہیں رکھنا چاہتے اور ایک اچھا تعلق ہی صحافی کا اثاثہ ہوتا ہے ورنہ ہم دونوں ہی یہ جانتے اور سمجھتے ہیں کہ ہماری اہمیت ہمارے ادارے اور ہماری پوزیشن کی وجہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ ’ڈان‘ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک دوسرے کم اہم انگریزی اخبار میں بطور چیف رپورٹر گئے تو ان لوگوں نے بھی ملاقاتیں اور رابطے کم کر دئیے جو کبھی خانہ کعبہ سے فون کر کے کہا کرتے تھے کہ میں آپ کے لئے یہاں بیٹھا اللہ تعالیٰ سے خصوصی دعائیں کر رہا ہوں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان کے ساتھ انہوں نے بھی اچھا سلوک نہیں کیا جنہیں وہ خود سپورٹ کرتے رہے، ان کی مد د کرتے رہے اور آخر کار ایک پروفیشنل اورایماندار صحافی روزگار کے بغیر ہو گیا، آخری دنوں میں وہ عرب نیوز میں کالم لکھ رہے تھے۔ اشرف ممتاز میں وہ کوئی ’خوبی‘ نہیں تھی جو صحافیوں کی پہچان بنائی جاچکی ہے اور مجھے یہ کہنے میں بھی عار نہیں کہ ہمارے بہت سارے صحافی ایسے ہی مست ملنگ ہیں۔ ننانوے فیصد کی تنخواہیں عشروں کی محنت مشقت کے باوجود سکس فگرز میں نہیں مگر وہ درویشوں جیسی زندگی گزارتے ہیں۔ وہ تو صحافی کالونی میں پلاٹ بھی نہیں لینا چاہتے تھے کہ یہ ہمارا حق نہیں۔ ہم سب نے انہیں قائل کیا کہ اگر آپ نہیں لیں گے تو کوئی دوسرا لے جائے گا۔ حکومت اگر بطور پالیسی سب کو دے رہی ہے توا سے کرپشن نہیں سمجھا جا سکتا۔ انہوں نے جب فیروز پورروڈ پر اپنا گھر بنایا توانہیں ایک کچھ متنازع مگر بہت سستا پلاٹ مل رہا تھا اور پراپرٹی ڈیلر کا کہنا تھا کہ آپ تگڑے صحافی ہیں، آپ اس پر گھر بنائیں، آپ سے کون چھین سکے گا مگر انہوں نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ وہ چھوٹا پلاٹ لے لیں گے مگر جھگڑے والا نہیں اور اسی طرح ان کے نوجوان بیٹے کی ایکسیڈنٹ میں وفات، وہ چاہتے تو حادثہ کرنے والوں کومزا چکھا دیتے مگر انہوں نے معاف کر دیا حالانکہ اس وقت گورنر خالد مقبول، وزیراعلیٰ پرویز الٰہی سمیت ہر طاقتور شخص ان کے گھر افسوس کے لئے آیا۔ چوہدری پرویز الٰہی نے اس کے بعد ہی قانون بنایا کہ ہسپتال میں پہلے ایمرجنسی ٹریٹمنٹ ہوگی، قانونی کارروائی اس کے بعد ہوگی ورنہ پہلے پولیس رپورٹ ضروری تھی اور بہت سارے لوگ اسی وجہ سے جان گنوا بیٹھتے تھے۔ فقیری، درویشی اور اللہ پر توکل کی اس سے بڑی مثال کیا ہو گی؟
اب تو کئی برسوں سے انہوں نے اذان سے بھی پہلے نماز کے لئے مسجد میں پہنچنا اپنا شعار بنا لیا تھاجبکہ میں جماعت کے بغیر بھی پڑھ لیتا ہوں سو مجھے ان سے ملاقات کے لئے جانا ہوتا تو خیال رکھنا پڑتا کہ کہیں اذان تو نہیں ہوچکی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ایک طویل انتظار کرنا ہوگا۔ سلمان غنی اور پرویز بشیر سمیت دوسرے دوستوں نے مجھ سے بھی تعزیت کی کیونکہ میرا اشرف ممتاز صاحب سے آخر تک تعلق رہا۔ میں عید پر ان کے گھر گیا اور پھر وہ مجھے نئی بات کا ایڈیٹر بننے پر مبارکباد دینے کے لئے دفتر تشریف لائے۔ اشرف صاحب مجھے فون کرتے کہ تم فیلڈ میں ایکٹو ہو بتاؤ کیا ڈیویلپمنٹ ہورہی ہے اور میں انہیں فون کرتا کہ مجھے سمجھائیں کہ اس ڈیویلپمنٹ کا مطلب کیا ہے،اس کے مختلف پہلو کیا ہیں، اس کے اثرات کیا ہوں گے۔ میں دکھی ہوں کہ میرا آئیڈیل، میرا بھائی، میرا دوست، میرا استاد نہیں رہا۔ مجھے یقین ہے کہ ان کی ابدی رہائش گاہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہوگی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.