ظاہر پرست، مظاہر پرست اور حق پرست!

140

دنیا ظاہر ہے، دین باطن……! ظاہر کبھی طاہر نہیں ہوتا۔ ظاہر پرست خواہ دین کے نعرے میں پناہ لے، درحقیت وہ دنیا پرست ہوتا ہے۔ ظاہر پرست دین کی ظاہری پرت کو کافی و شافی سمجھتا ہے۔ اسے باطن کی طرف تفکر اور تدبر کی دعوت دی جائے تو وہ اس کا انکار کر دیتا ہے اور ظاہر میں سنائی دینے والے فلک شگاف نعروں میں پناہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ دراصل ظاہر پرست کا شعور اس قدر کثیف ہوتا ہے کہ وہ باطن کی لطافت سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا۔ درحقیقت، حقیقت کی لطیف فضا میں ظاہر پرست کا دم گھٹنے لگتا ہے…… وہ اپنے ظاہری شعور کی سلامتی برقرار رکھنے کے لیے فوراً مروجہ نعروں کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور ایک بے چہرہ ہجوم میں خود کو گم کر دیتا ہے۔
نفرت اور تعصب ظاہر پرست کی سرشت میں شامل ہے۔ زندگی میں اس کی حرکات و سکنات کا محرک محبت کے بجائے نفرت ٹھہرتا ہے۔ اسے کوئی محبت کا کلمہ ابھارتا نہیں اور نفرت کے بوجھ کو وہ دل سے اتارتا نہیں۔ وہ ایک ایسی پاتال میں اتر جاتا ہے جہاں اسے اپنی ہی رائے کی بازگشت ہر طرف سنائی دیتی ہے۔ آزادی رائے کی کھلی فضا میں اس کا دل مالش کرتا ہے۔ روشنی میں اس کا شکن آلود چہرہ اور گرد آلود لباس صاف پہچانا جاتا ہے، اس لیے وہ روشنیِ افکار سے بھاگتا ہے۔ وہ ماضی کے ہیرو کے گن گاتا ہے اور ان کی عظمت کے جھنڈے تلے خود کو نمایاں کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ بھول جاتا ہے کہ اس کے بڑے اس لیے بڑے تھے کہ انہوں نے قربانی دی تھی، جان مال اور منصب کی قربانی دے کر وہ سرفراز ہوئے تھے۔ ظاہر پرست خود پرست بھی ہوتا ہے۔ اس کی رائے اپنے بارے میں عجب ہوتی ہے…… ہمارے آباء عظیم تھے، اب لازم ہے کہ ہمیں بھی عظیم سمجھا جائے، بلکہ عظیم سے عظیم تر سمجھا جائے، ہمیں معصوم عن الخطا تصور کیا جائے۔ جس نے ہماری توہین کی، اس نے گویا ہمارے آباء کی توہین کی، وہ قابلِ گرفت ہیں، قابلِ تعزیر ہے…… ان کے گلے میں رسی ڈال دو، انہیں زندان میں ڈال دو۔
ظاہر پرست ظاہر میں کھویا رہتا ہے، اس کے
پاس حق کو پہچاننے اور پھر حق کے ہمراہ چلنے کی فرصت ہوتی ہے نہ ہمت۔ حق اور ہمت دنوں کا تعلق باطن سے ہے۔ ظاہر پرست حق کا تعین کرنے میں اکثر دھوکے میں رہ جاتا ہے۔ اس کے لیے آسان راستہ یہی ہوتا ہے کہ وہ ہجومِ کرگساں کے ساتھ چل نکلے اور جہاں بھی مردار نظر آئے، وہاں مجبوری کے نظریہ ضرورت کے تحت ڈیرے ڈال دے۔ دراصل ظاہر پرست اس فرقان سے محروم ہوتا ہے جو حق اور باطن میں فرق کرنے میں معاون ہوتا ہے۔
انسانوں کی دنیا میں فرقان کوئی انسان ہی ہوتا ہے۔ دنیائے ظاہر میں حق اور باطل میں فرق کرنے والا اہلِ باطن ہوتا ہے، انسان ہوتا ہے۔ ظاہری دنیا میں زور کلام سے، کلام کے فسوں سے، حق کو باطل اور باطل کو حق ثابت کرنے کے لیے کئی کرایہ دار لوگ موجود ہیں۔ قاضی شریح کے شرعی پیروکار ابھی تک اس دنیا میں تسلسل سے موجود ہیں جو باطل کی تاجپوشی کا فتویٰ صادر کرتے ہیں اور غاصب کے مناقب بیان کرنے کو کارِ ثواب بتاتے ہیں۔ سرکاری عبادت گاہوں میں ایسے تنخواہ دار واعظ شیریں بیان موجود ہیں جو بادشاہ سلامت کی سلامتی کی دعائیں بآوازِ بلند کراتے ہیں، اور مقتدیوں سے بزورِ تکبیر بر وزنِ شمشیر آمین بھی کہلواتے ہیں۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب اونچی کرسیوں پر چھوٹے لوگ بیٹھ جاتے ہیں تو ان کے مصاحبین میں قصیدہ گو شامل ہو جاتے ہیں۔ قصیدہ گو کے ساتھ ساتھ تاریخ کے اوراق میں ہمیں سرکاری مؤرخ بھی نظر آتا ہے جو بادشاہ سلامت کی اندھیرنگری کو نورنگری اور خون ریزی کو فتوحاتِ سکندری لکھتا ہے۔ اہل باطن میں سے ایک بلند اقبال نے کہا تھا:
مانگنے والا گدا ہے، صدقہ مانگے یا خراج
ہر طور سچ اور جھوٹ میں فرق کرنا، فرق جاننے کی کوشش کرنا، خاصہ انسان ہے۔ وہ شخص انسان کہلائے جانے کا مستحق نہیں جو حق اور باطل میں فرق کیے بغیر زندگی گزار رہا ہے۔ ایسا شخص جسم کی سطح پر زندگی بسر کرتا ہے، اسے لذتِ کام و دہن کے سوا کچھ درکار نہیں۔ ہوائے نفس پر چلنے والا ”چلو تم ادھر کو جدھر کی ہوا ہو“ کے رخ پر چلتا ہے۔ امرِ ربی پر چلنے والا، روح کے تقاضوں پر چلنے والا، فرقان اور انسان سے غافل نہیں ہوتا۔ دراصل حق اور باطل کوئی حسابی کتابی کلیہ نہیں، جسے دلیل اور منطق سے ثابت کیا جا سکے۔ حق اور باطل کا تصور جونکہ باطن کی کوکھ سے نمودار ہوتا ہے اور باطن ہی کی آغوش میں پرورش پاتا ہے، اس لیے حق کے متلاشی کسی حق شناس انسان تک پہنچتے ہیں۔ اگر حق پرست انسان کو مائنس کر دیا جائے تو حق اور باطن کی پہچان ناممکن ہو جاتی ہے، کیونکہ دلیل، منطق اور جذباتی نعرے دونوں طرف یکساں ہوتے ہیں۔
تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے تو خوارج نے قرآن نیزوں پر اٹھا کر مسلمانوں کو دھوکا دیا تھا۔ بھولے بھالے مسلمان انہیں دیکھتے تو حیران ہوتے کہ ان کے پاس تو قرآن ہے، یہ لوگ بآوازِ بلند تلاوت بھی کرتے ہیں، ان کی وضع قطع بھی ”اسلامی“ ہے، ہو نہ ہو، یہ حق پر ہوں۔ دوسری طرف حق شناس قرآن صامت سے پہلے قرآنِ ناطق کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اہلِ باطن کے ایک سرخیل، ولی کبیر واصف علی واصفؒ نے کہا تھا ”پاکستان بچانے کے لیے اتنا ہی اسلام کافی ہے جتنا قائدِ اعظم کے پاس تھا“ حق شناسی کے حوالے سے آپؒ ہی کا ایک فرمان ہے ”سچ وہی ہے جو سچے کی زبان سے نکلے“۔
القصہ! جہاں سچ اور جھوٹ میں کوئی مخمصہ پیدا ہونے لگے، وہاں یہ دیکھنا چاہیے کہ سچا انسان کس طرف کھڑا ہے۔ جیسا پہلے بتایا جا چکا ہے کہ سچ اور جھوٹ As Such اس دنیا میں معروضی حقیقت نہیں رکھتا بلکہ RELATIVE ہیں، اس لیے یہاں ظاہر اور باہر کے دلائل ناکافی ٹھہرتے ہیں۔ جس طرف کا لاؤڈ سپیکر زیادہ لاؤڈ ہو گا، اس طرف کی بات سننے میں سچ محسوس ہونے لگتی ہے۔ اکثریت کا عدد دھوکا دے جاتا ہے۔ کثرت غفلت بھی ہو سکتی ہے۔ سچائی کی تلاش ہو تو سچے انسان کی تلاش کی جائے، کہ انسان ہیRELATIVE کو ABSOLUTE کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے…… اپنے کردار کے ذریعے…… قربانی اور ایثار کے ذریعے!! حق سچ تک رسائی کا معتبر وسیلہ انسان ہے…… وہ انسان جو انسان بن چکا ہو، جو آدمیت کے مراحل طے کرتا ہوا ِ انسانیت میں داخل ہو چکا ہو…… انسانِ کاملؐ سے وابستہ ہو…… جو شہرِ علمؐ میں داخل ہونے کا اذن رکھتا ہو…… جو درِ علمؓ پر ایستادہ ہو…… جو کربلا والوں کی سنت پر چلنا جانتا ہو۔ وہ جانتا ہے کہ حق کو اپنی اخلاقی فتح ثابت کرنے کے لیے مظلومیت کے راستے سے گزرنا ہوتا ہے!!

تبصرے بند ہیں.