کسی بھی ذہنی مریض سے ہمدردی تو کی جا سکتی ہے لیکن اُس کی خواہشات کا احترام یا اُس کے مطالبات کو تسلیم کرنا تندرست دماغ کیلئے قبول و منظور کرنا کسی صورت ممکن نہیں ہوتا کہ ایسا کرنے سے ایک کی جگہ دو ذہنی مریض ہو جاتے ہیں۔ انسانی تاریخ روشن خیالوں کی نہیں روشن ضمیروں کی مقروض ہے۔ جنہوں نے اعلیٰ ترین انسانی اقدار کو انسانی حقوق کے درجے پر فائز کرا دیا۔ روشن خیال کیلئے لازمی نہیں کہ وہ روشن ضمیر بھی ہو لیکن روشن ضمیر ہمیشہ روشن خیال ہی ہوتا ہے اور روشن ضمیر کے افکار کی روشن خیالی ہی انسانی معاشروں کو رہنے کے قابل بناتی ہے۔ آج کا مغرب روشن خیالوں کا نہیں روشن ضمیروں کی اعلیٰ ترین کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ کبھی یہ نورِ خورشید ہمارے مشرق سے ابھر کر دنیا میں پھیلتا تھا۔ جزا سزا کے معیارات بھی انہیں روشن ضمیروں کی دین ہے۔ روشن خیال اور روشن ضمیروں میں ایک بنیادی فرق یہ بھی ہے کہ روشن خیال بنانا پڑتے ہیں جبکہ روشن ضمیر پیدا ہوتے ہیں۔ روح کی نجاست کسی روحانی یونیورسٹی کے قیام سے دور نہیں ہوتی بلکہ یہ روح کی روح کو طہارت کرانے کا نام ہے۔ انسان گوشت پوست کی کسی مخلوق نہیں ایک رویے کا نام ہے اور جس کا رویہ غیر انسانی ہو جائے وہ انسان اور جانور کی درمیانی مخلوق تو ہو سکتا ہے، انسان بہرحال نہیں رہتا حالانکہ اُس کی جسمانی ہیئت میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آتی کہ یہ قانون بھی انسانوں نے ہی بنا رکھا ہے۔ انسانی حقوق انسانوں کے ہوتے ہیں لیکن جب رویے ہی غیر انسانی ہو جائیں تو کیا انسان کو اُس کے وہ حقوق دیئے جا سکتے ہیں جو اُسے بطور محب وطن اور قانون کا پابند شہری ہونے کے ناتے دیئے گئے ہوتے ہیں۔ آزادی ہر انسان کا پیدائشی حق ہے لیکن یہ حق قاتل اُس وقت کھو دیتا ہے جب وہ کسی کی جان لینے کا غیر انسانی فعل سر انجام دیتا ہے۔ جرم کرنے کے بعد مجرم کے انسانی حقوق سزا سے پہلے حوالاتی کے حقوق میں تبدیل ہوتے ہیں اور جزا سزا کا فیصلہ ہونے کے بعد اگر ملزم باعزت بری ہو جائے تو وہ واپس اپنے انسانی حقوق حاصل کر لیتا ہے لیکن اگر وہ مجرم ثابت ہو جائے تو اُس کے انسانی حقوق ختم ہو کر قیدیوں کے حقوق میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پھانسی پانے والے مجرم کے بھی حقوق ہوتے ہیں لیکن وہ اُن انسانی حقوق سے یکسر مختلف ہوتے ہیں جو سماج میں بسنے والے پُرامن اور قانون کے پابند شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔ جب کوئی شخص پاگل ہو جاتا ہے تو اُس کی شکل صورت یا جسمانی ہیئت نہیں بدلتی صرف ذہنی حالت تبدیل ہوتی ہے اور ذہنی مریض کے بطور انسان کے کچھ حقوق تو بچ جاتے ہیں لیکن وہ فرائض کی بجا آوری سے بری الذمہ ہو جاتا ہے۔ یہ فرائض سماجی ہوں یا قانونی بلکہ اُس پر تو الہامی قوانین بھی لاگو نہیں ہوتے۔ پاگل کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہو سکتا لیکن اس کے باوجود ریاست اُس کے پاگل ہونے کے بعد کے حقوق کا تحفظ کرتی ہے۔ چند انسانوں کا گروہ یا جتھا اگر کروڑوں انسانوں کی ریاست پر حملہ آور ہو کر من مرضی کا ضابطہ اخلاق یا ضابطہ فوجداری نافذ کرنے کے جرم کا مرتکب ہو گا تو اُس کے وہ حقوق چھین لیے جائیں گے جو ایک مہذب شہری کو حاصل ہوتے ہیں۔
کسی بڑے آدمی کو ترسی ہوئی یہ زمین اتنی بانجھ ہو چکی ہے کہ گزشتہ 76 سال میں کسی عظیم قائد کا پیدا ہونا تو دور کی بات ہم عالمی معیار کی ایک کتاب بھی نہیں لکھ پائے۔ پاکستانی سیاست کا وتیرہ
رہا ہے کہ سیاستدان فوج کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کرتے ہیں اور پھر جب فوج اور سیاستدان کی ان بن ہو جاتی ہے تو وہی سیاست دان جو فوج کے رحم و کرم پر ہوتا ہے اُسے سماج میں موجود ”جعلی دانشور“ یا ”ٹُکر نویس“ نیلسن منڈیلا یا خمینی بنانے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں۔ یہی تاریخی سچ ہے اگر فوج سیاستدانوں کے ساتھ ہے تو پاکستان کی فوج دنیا کی نمبر ون فوج ہے اور اگر فوج پیچھے ہٹ گئی ہے اور اقتدار آپ کو اپنی صلاحیتوں سے چلانا یا بچانا پڑ گیا ہے تو نتیجہ سیاستدانوں کی شکست پر ختم ہوتا ہے اور ایک نیا ”عوامی ہیرو“ عوام کے سامنے متعارف کرا دیا جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اُس سیاستدان کے قصیدہ گو اور نعرے بازوں کا ایک ہجوم اس کے گرد اکھٹا ہو جاتا ہے یا کر دیا جاتا ہے جو آوے ای آوے اور جاوے ای جاوے کے فلک شگاف نعروں میں عوامی ضرورتوں اور خواہشات کے ہر کوہ ہمالہ کو دبا دیتا ہے۔
9 مئی جہاں پاکستان کی عسکری تاریخ میں ایک سیاہ دن کے طور پر ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہیں یہ دن اس حوالے سے بھی ہمیشہ یادگار رہے گا کہ صرف ایک شخص نے اپنی خواہشات کے مزار پر
دھمال ڈلوانے کیلئے اپنی سیاسی جماعت، لاکھوں ووٹرز، ہزاروں ورکرز اور ان گنت نوجوان خواب اپنی انا کی بھینٹ چڑھا دیئے۔ کسی ریاست کے نوجوانوں کا مایوس ہونا یا اُن کے خوابو ں کا ٹوٹنا انہیں انارکی کی طرف لے جاتا ہے۔ نوجوان یا عشق کرتا ہے یا انقلاب اور میں سمجھتا ہوں یہ دراصل ایک ہی جذبے کے دو نام ہیں۔ جب کوئی ایک فرد کو دنیا کا ہر سکھ دینے کیلئے سب کچھ قربان کرنے کیلئے تیار ہو جائے تو اُسے عشق کہتے ہیں اور جب ہمارا یہی جذبہ دنیا کے تمام انسانوں کیلئے ہو جائے تو وہ انقلاب کہلاتا ہے۔ دونوں رومان سے شروع ہو کر حقیقت کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں۔ عمران نیازی کی ابتدائی سیاست رومانوی تھی جب صرف خواب تھے جنہوں نے تعبیر کاروپ دھارن کرنا تھا لیکن جب ایک طویل اور صبر آزما کوشش کے باوجود خوابوں میں تعبیر کے رنگ نہ بھرے جا سکے تو عمران نیازی اپنے انقلابی ساتھیوں کو بتائے بغیر چند نوواردوں کے ہمراہ طاقت فراہم کرنے والے مرکز پر جا کر سجدہ ریز ہو گیا اور یہ ہرگز آپ بابا فرید شکرگنج کا مزار نہ سمجھ لیجیے گا۔ انقلاب رد انقلاب میں تبدیل ہو چکا تھا روشن خیالی برق رفتاری سے تاریک خیالی میں تبدیل ہو چکی تھی لیکن قصیدہ گو قصیدے لکھتے رہے، کامیابی اور روشن مستقبل کی نوید سناتے رہے۔ اسد عمر کے وزیر خزانہ بنتے ہی آٹھ ماہ تک جب اُس آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فیصلہ نہ ہو سکا جہاں جانے پر عمران نیازی نے خود کشی کا وعدہ کیا تھا تو روپے کی قدر گرنا شروع ہو گئی اور پاکستان کے عوام پر بوجھ بڑھنا شرو ع ہو گیا جو آج ایک سال سے زائد کا عرصہ گزرنے اور تحریک انصاف کے خلاف عدمِ اعتماد ہونے اور نئی اتحادی حکومت بننے کے باوجود روزانہ کی بنیاد پر بڑھتا جا رہا ہے۔ عام آدمی کیلئے جسم اور روح کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو چکا ہے لیکن تحریک انصاف کے انارکسٹ ملک کو بربادی کی راہ پر تنہا چھوڑ کر معافی نامے دے کر گھروں کو رخصت ہو رہے ہیں۔ وہ شرمندہ ہیں، تحریک انصاف اور عمران نیازی سے لا تعلقی کا اظہار کر رہے ہیں۔ 9 مئی کے ملزمان گرفتار یا فرار ہو رہے ہیں، عمران نیازی سیاستدان سے اپنے مقدمات کا وکیل بن چکا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر بتا رہا ہے کہ القادرٹرسٹ کے 190 ملین پونڈ سے اُس کا کوئی تعلق نہیں حالانکہ برطانیہ میں پڑے ہوئے پیسے بھی ملک ریاض کے تھے، القادر ٹرسٹ کی زمین جو گوگی، پنکی اور زلفی بخاری کے نام ہے وہ بھی ملک ریاض نے دی ہے، ٹرسٹ کو ڈونیشن بھی ملک ریاض نے ہی دی اور 190 ملین بھی سپریم کورٹ میں ملک ریاض کے اُس اکاؤنٹ میں آیا جس نے ریاست پاکستان کو جرمانے کی رقم ادا کرنی تھی۔ ہر طرف ملک ریاض اور اُس سے مستفید ہونے والے کا نور ظہور ہی نظر آ رہا ہے لیکن ان تمام حالات میں پاکستانی عوام کا کوئی پُرسان حال نہیں۔ عمران نیازی سیاست کرے یا چھوڑ دے اس کا فیصلہ اُس نے ہی کرنا ہے اور قوی امکان ہے کہ کسی دن پاکستانی عوام عمران نیازی کو بھی کوئی نہ کوئی اعلان ِلاتعلقی کرتے دیکھ لے گی۔ اب اُس کا طریقہ اعلانیہ اختیار کیا جاتا ہے یا غیر اعلانیہ یہ اُن کا اپنا فیصلہ ہو گا۔ مریدکے میں تین بچوں کے باپ نے بچوں کو بھوک سے بلکتے ہوئے دیکھ کر خود کشی کر لی۔ بچے باپ سے لپٹ کر کہتے رہے ”پاپا اٹھ جاؤ ہم روٹی نہیں مانگیں گے، ہمیں بھوک نہیں لگی۔“ کاش! اس معاشرے میں آج کوئی روش ضمیر ہوتا تو کہتا بچو! میں ہوں نا! میں ہوں ریاست، میں زندہ ہوں لیکن ذہنی مریض قیادتوں سے ایسی توقع رکھنا۔۔۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.