ساڈا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ

75

”گرداتنی زیادہ ہے کہ چہرے پہچانے نہیں جارہے۔ پاکستان کے حکومتی ڈھانچے میں عدلیہ، سیاست بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ کے رول نے اتنی کروٹیں لی ہیں کہ نقوش مٹنے لگے ہیں۔
اس بات سے قطع نظر کب عدلیہ اچھی ہوجاتی ہے اور اس کے ساتھ ایک سیاسی پارٹی کی ہمدردیاں جڑ جاتی ہیں کب ولن بن جاتی ہے اطر دیگر پارٹیاں ان کی آڈیووڈیو ز جاری کرکے لوگوں کے ذہنوں میں ان کے فیصلے مشکو ک کرنا چاہتے ہیں اس اثناء میں وہ چاہتے ہیں کہ جیسے ان کے طالع آزما ذہن سے ماضی میں کی گئی عدلیہ کے حق میں ریلیاں محوہو جاتی ہیں عوام کے ذہن کی سلیٹ بھی صاف ہوجائے۔
ادھراینکر ایسا ہونے نہیں دیتے آج کل اینکرز عمران ریاض کے غائب ہونے پر اس کا صحافی نہ ہونے کا الزام کافی نہیں انسان ہونے کا حق بہرحال اس سے نہیں چھینا جاسکتا۔
صحافی کون ہوتے ہیں اس کے لئے ماضی کے دریچوں میں اگر جھانکیں تو لمحہ موجود میں دو ایک کو چھوڑ کر کوئی بھی اس معیارپر پودا نہیں اتررہا یہ نہیں کہ صحافی بولنے کی طاقت نہیں رکھتے بلکہ پہلے نڈر صحافیوں کہ نسبت اب زیادہ بولڈ بولتے ہیں کہ لوگ کم پرسمجھوتہ نہیں کرتے لوگوں کا (Dobamine Level)ڈویامین لیول لیول ان کے بلڈ شوگر کی زیادہ ھو گیا ہے۔ لوگوں کی سماعت اور بصیرت کم پر راضی نہیں ہوتی زیادہ بولڈ صحافی ضرور ہیں اب مگر یہ بولڈ نیس Boldnessسپانسرڈ ہوتی ہے وقت کے ساتھ ساتھ اپنا رخ بدلتی رہتی ہے۔
مگر جب ہم آج بھی مولانا ظفرعلی خان محمد حسین آزاد مولانا ابولکلام آزاد سرسید شبلی ودیگر اسی مشکل ترین دور کے لوگوں کے اداریئے، اشارے، انشائیے اور جسے اب کالم کہیے تحریریں دیکھتے ہیں تو آفاقی اصولوں پر کہی،بات اور سپانسر ڈبیانیہ Spenserdمیں فرق واضع ہوجاتا ہے۔
لہٰذا بات بظاہر نڈرویئے کی نہیں صحافیوں کے ملکی ستونوں پر متجاوزرویوں کی پردہ پوشی کی ہے یا انہیں بے جا اچھالنے کی اب اس دورخی صحافتی دنیا جولوگوں کو کسی جانب مائل کرنا چاہتی ہے اثرکھو بیٹھی ہے۔
ان کے مقابل آئے ہوئے اینکرز بھی جتنے متضادرائے والے چینل بدل چکنے کے بعد اپنا تبصرہ پیش کررہے ہوتے ہیں بے اثر ہو جاتا ہے کہ وہی چہرہ پہلے تو اپنی پارٹی بدلنے کی وٖضاحت نہیں کرپاتا لہٰذااسے اپنی ساکھ کے لیئے اداروں کی مدد سے ملنے طالی خفیہ خبروں کا سراغ لگانا پڑتا ہے اور تیس پنتیس لاکھ تنخواہ لینے والا یہ محنت خود نہیں کرتا بلکہ چینل کی طرف سے دی گئی ریسرچ ٹیم اور تھانوں کے مخبروں کے علاوہ چھوٹے چھوٹے یوٹیو بر میڈیا پر سنز ساری عمر دھوپ میں سڑتے خراب موٹر سائیکلوں پر پھرتے رپورٹروں سے خبریں خرید کی جاتی ہیں وڈیوز بھی بکتی ہیں۔ نام ایک اینکر کا ہو جاتا ہے محنت غریبوں کی رل جاتی ہے مگر پھر بھی لہجے کا خلوص گفتگو کی سچائی اور مقبو لیت نصیب نہیں ہوتی۔
کبھی کبھی میں سوچتی ہوں جو لوگ مقبولیت سے محبو بیت تک پہنچے کوئی ڈنڈے سوٹے کے زورپر نہیں تھے بلکہ اہلیت کے ساتھ ساتھ یقینی طور پرخلوص کا شہد بھی شامل تھا۔
یعنی دنیا میں سو جھوٹ بول لیں مگر کارخانہ قدرت میں ”سچ“ ہی کہ مانگ ہے اس کہ تصدیق بڑے رائٹرز کی سو انح عمریاں بھی ہیں جن لوگوں نے سچ کے قریب ہو ر لکھا (کہ مکمل سچ کسی کے وارے میں نہیں) مقبول ہوئے بناوٹی تحریریں شو آف اور ذات سے باہر ہو کر لکھنے کے عمل نے مقبو لیت کے دروازے بند رکھے۔
وطن عزیز میں حالیہ صورتحال ہر محب وطن شہری ودیہاتی کے لیے پریشان کن ہے۔ ادارے روبروہیں آگ لگے یا گولی چلے موقف کی مخالفت کے باوجود گولی کے دونوں طرف اپنے لوگ ہیں بھٹکے ہوئے بھی اور فرائض نبھانے والے بھی اپنے لوگوں کی غلطیاں اتنی سنگین ہوں تو انتظامیہ کے لیے مسائل ہی مسائل ہوتے ہیں کمر توڑ مہنگائی کے دور میں یہ بے یقین حکو متیں قانونی موشگافیاں اطر انتخابات کے قبل ازوقت امراء نے صورتحال کو کشیدہ کردیا ہے حالانکہ جیسے بعد ازوقت انتخابات میں قباحت ہے اسی طرح قبل ازوقت انتخابات کا متحمل ہونا بھی قرضوں میں دبے ملک کے لیے ممکن نہیں۔ اس کے لیے اس طرح کی فضول دلیلیں دینا کہ فلاں خرچہ چھوڑ کر الیکشن پر کرلیں جبکہ تمام”مدات“میں پہلے ہی کمی کا عنصر ہے اور زیادہ تر ادارے ”ایڈ“ یعنی امداد پر چلتے ہیں پاپولیشن پلاننگ چونکہ انٹر نیشنل مسئلہ ہے امریکن امداد سے چلتا ہے اسی طرح بجلی کی کمپنیاں بھی دوہرے تہرے منافع پر بکی ہوئی ہیں انتہائی رینگتی ہوئی معیشت میں یہ آڈیو وڈیوکا بھنڈارلطف تو دیتا ہے کہ اب لے دے کے یہی انٹر ٹینمنٹ رہ گئی ہے مگر اس کے لیے بنائے گئے کمیشنوں پر کس نے اعتبار کرنا ہے سب کے اپنے اپنے جج ہیں اپنے اپنے لیڈر اور اپنے اپنے جرنیل یہاں کون کس کہ سنتا ہے۔
وطن کا ریڈلائن حتمی ہونا کتنا ضروری ہے مگر آزادی کے 75برس بعد بھی حقیقی آزادی کے نعرے کیا ثابت کرتے ہیں کیا قائداعظم کی دلائی ہوئی آزادی نقلی تھی؟ امریکہ سے بھی اگر لڑناہے تو بتاؤ نہیں لڑنے ”جوگے“ تو بند کرو یہ فضولیات کبھی مددتو کبھی مذمت امریکہ نہ ہوا”شوہر“ ہو گیا یہ ہمارا عمومی رویہ ہے کہ پہلے مدد مانگو اگر کو ئی نہ کرے تو اس کی آتما ”رولِِ دع،وہ حکومت جو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گئی پس پشت محرکات کو چھوڑ بھی دیں تو طریقہ صحیح اپنائا گیا لنچ کے ٹائم ڈنر نہیں ہوا اتنے بڑے بڑے قانون دان موجود ہیں جو سارا دن قانونی شقوں کی گرہیں کھولتے رہتے ہیں مگر ہوتا وہی ہے اس وقت کا بھاری پلڑا چاہے اب ہر وقت کے روبن ہڈالگ ہوتے ہیں میرا اشارہ پرویزالہیٰ کی طرف نہیں ہر دورکے مسیحا بھی الگ ہوتے ہیں اب کون کہہ سکتا تھا کہ برسوں جیل کاٹنے ٹین پرسنٹ کہلانے والے زرداری اس دور کے پولیٹیکل جینئس ہوں گے،تمام تر الزامات کے ”نکے“ پرشہبازشریف کو رکھ کر خودبذریعہ بلاول خارجہ پالیسی پر متمکن ہو جائیں گے کہ داخلہ پالیسی میں تو پہلے ہی ماہر ہیں۔
اگر سیاسی دور چلا اور منتخب حکومتیں آئیں تو پی پی پی سب سے زیادہ فیضیاب ہونے والی جماعت ہو گی ”ہینگ لگے نہ پھٹکری
رنگ بھی آئے چوکھا
جبکہ متاثر جماعتیں شاکر شجاع آبادی کے کلام پر منتج ہوں گی:
اساں اجڑے لوک مقدراں دے
ویران نصیب داحال نہ پچھ
تو شاکر آپ سیانا ایں
ساڈھا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ

تبصرے بند ہیں.