ترین گروپ ٹربل شوٹر کا کام کرسکے گا؟

79

گزشتہ کالم میں تمام سیاسی پارٹیوں اور کچھ ٹیکنو کریٹس کو شامل کر کے قومی حکومت تشکیل دینے کی تجویز دی تو کافی دوستوں نے اس سے اتفاق نہ کیا۔
اختلاف کرنے والے کچھ دوستوں کا خیال تھا کہ قومی حکومت والا آئیڈیا بالکل غلط ہے۔ ملک میں نہ صرف انتخابات منعقد ہونے چاہئیں بلکہ یہ انعقاد فوری طور پر ہونا چاہیے اور اس کے بعد وقت ضائع کیے بغیر اقتداراکثریت حاصل کرنے والی سیاسی پارٹی کو منتقل کر دینا چاہیے۔
سننے میں تو اس قسم کی باتیں بہت آسان اور اچھی لگتی ہیں لیکن اگر ان کو ملک کو درپیش حالات اور صورتحال کے تناظر میں دیکھا جائے تو شائد میرے موقف میں بھی کافی وزن نظر آئے گا۔ بلا شبہ اس وقت سیاسی عدم استحکام اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ اگر ان حالات میں الیکشن کرا بھی دیے جائیں تو بھی دنگے فساد پھوٹ پڑنے کا بہت زیادہ خطرہ ہے اس کے علاوہ اس بات کی ضمانت کون دے گا کہ الیکشن کے بعدہارنے والی سیاسی پارٹی بالخصوص پاکستان تحریک انصاف نتائج بھی تسلیم کر لے گی۔ یقینا اس صورتحال میں ایک نیا فساد جنم لے گا، اور پھرجو صورتحال بگڑے گی وہ شائد کسی کے بھی کنٹرول میں نہ آ سکے۔
چونکہ موجودہ حکومت میں بھی ملک کی بیشتر اہم سیاسی پارٹیاں (پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ) شامل ہیں اگر سیاسی افہام و تفہیم اور باہمی مشاورت سے اسی سیٹ کی کچھ نوک پلک درست کر کے اسے قومی حکومت کی شکل دے دی جائے اور پھر اسے ملک کے حالات سنوارنے اور موجودہ بحرانی کیفیت سے نمٹنے کے لیے کم از کم دو سال دیے جائیں تو امید ہے کہ پاکستان نہ صرف اقتصادی مشکلات بلکہ سیاسی مسائل سے بھی نکل آئے گا۔
اب تک تواس مجوزہ فارمولا کو لاگو کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تھی، لیکن لگتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ بھی دو طرح سے حل ہو رہا ہے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ گزشتہ چند روز سے پی ٹی آئی میں جو اکھاڑ پچھاڑ شروع ہوئی ہے اور اس کے بڑے بڑے راہنما اور عہدیدار پکے ہوئے پھل کی طرح ٹپ ٹپ کر کے گرتے چلے جا رہے ہیں، اگر اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں سیاسی راہنماوں میں سے کچھ کا انتخاب کر کے انہیں کابینہ کا رکن بنا دیا جائے تو شائد اس تناظر میں عمران خان صاحب بھی کچھ زیادہ اعتراض نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہی لوگ چند روز پہلے تک ان کے پیارے اور دل کے قریب اور وفادار تصور کیے جاتے تھے۔
دوسری بات ملکی سیاست میں جہانگیر ترین گروپ کی انٹری ہے۔ سیاسی جوڑ توڑ اور بندے اکٹھے کرنے میں ترین صاحب کی صلاحیتوں سے کون واقف نہیں۔ اگرچہ وہ گزشتہ کچھ برس سے
گوشہ نشینی اختیار کیے ہوئے تھے لیکن ایک دلچسپ ڈویلپمنٹ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہانگیر ترین صاحب اور علیم خان صاحب ایک مرتبہ پھر سے سیاست میں متحرک ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ حالات کو دیکھتے ہوئے اس بات کی پیش گوئی کرنا کوئی مشکل بات نہیں کہ یہ گروپ عنقریب سیاست کے کچھ دمدار ستاروں کو اپنے ساتھ ملا کر ایک علیحدہ سیاسی پارٹی یا پھر پاکستان تحریک انصاف کے اندر کسی فارورڈ بلاک کا اعلان کر دے گا۔
ترین اور علیم خان گروپس کی مشترکہ طور پر ملکی سیاست میں دوبارہ انٹری کی ٹائمنگ بھی بہت اہم ہے۔ ایک طرف تو عمران خان صاحب کی مقبولیت کا سورج غروب ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے اور ان کی سیاست کی ڈوبتی ہوئی کشتی سے ان کے ’جانثار‘ ساتھی بہت تیزی سے چھلانگیں لگا رہے ہیں۔ تو دوسری طرف ان پیشہ ورسیاستدانوں کو کوئی اگلا ٹھکانہ بھی نظر نہیں آ رہا۔ چونکہ ان احباب نے مختلف اوقات میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نواز)کے خلاف اس قدر نامناسب اور نامعقول گفتگو کر رکھی ہے اس لیے ان پارٹیوں میں ان کی آسان انٹری تو شائد ممکن نہ ہو لیکن اگر جہانگیر ترین صاحب کی جانب سے ایک سیاسی پلیٹ فارم مہیا کیا جاتا ہے تو وہ ان صاحبان کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہو گا۔
جہانگیر ترین گروپ کی ا نٹری کو یقینا ملک کے تمام ہی سیاسی حلقے (منفی یا مثبت) انداز میں بھر پور طریقے سے محسوس کریں گے۔گروپ یقینا ملکی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرے گا اور اہم سیاستدانوں اور الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب بھی ہو جائے گا۔اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ ملک میں الیکشن ہونے کی صورت میں یہ گروپ ایک نئی قوت کے طور پر سامنے آئے گا،اور اس کے فعال ہونے سے عمران خان صاحب کی رہی سہی امیدوں،کہ وہ پارٹی کو ایک مرتبہ پھر سے منظم کر لیں گے،پر مکمل طور پر پانی پھر جائے گا،بالفرض الیکشن تاخیر کا شکار ہو جاتے ہیں اور ملک میں کچھ عرصہ کے لیے قومی حکومت کے قیام کا فیصلہ ہوتا ہے تو اس صورتحال میں بھی ترین گروپ ایک اہم کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہو گا۔ ایک طرف توممکنہ طور پر عمران خان صاحب کے قومی حکومت میں شامل نہ ہونے کی وجہ سے جس سیاسی خلا کا خدشہ تھا وہ رفع ہو جائے گا تو دوسری طرف اس گروپ میں شامل لوگ پرانے ساتھی ہونے کی وجہ سے عمران خان کے ممکنہ منفی پرا پیگنڈہ کو بہتر انداز میں کاؤنٹر کر سکیں گے۔ گروپ کی کابینہ میں شمولیت کی وجہ سے انہیں الیکشن میں جانے سے قبل عوام سے بہتر انداز میں رابطہ اور ان کی خدمت کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔
قصہ مختصرپی ٹی آئی اور عمران خان صاحب کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے جس سیاسی خلا کے پیدا ہو جانے کی باتیں ہو رہی تھیں، اگر ترین گروپ ایک تگڑی اور موثر انٹری ڈالنے میں کامیاب ہو گیا تو نا صرف اس قسم کا کوئی خدشہ نہیں رہے گا بلکہ اس بات کے بہت زیادہ امکانات ہیں کہ ترین گروپ ملک کی مستقبل کی سیاست میں اہم کردار ادا کرے۔

تبصرے بند ہیں.