امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے جلوس پر خود کش حملہ نہ صرف جماعت کی قیادت بلکہ سیاسی حلقوں کے لئے بھی غیر متوقع تھا، سراج الحق ہی وہ غیر متنازع شخصیت ہیں، جن سے ذاتی اور سیاسی اختلاف کم ہی کیا جاسکتا ہے، سیاسی معاملات جب پوائنٹ آف نو ریٹرن تک آگئے تو محترم سراج الحق نے قوم کے وسیع تر مفاد میں پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی قیادتوں سے ملاقاتیں کر کے انھیں مذاکرات پر آمادہ کیا، جس کا سب نے خیر مقدم کیا،انکا انداز بیان ہمیشہ مشفق ہی رہا انھوں نے کسی سیاسی قائد کی ذات کو کبھی نشانہ نہیں بنایا، خود کو علاقائی،گروہی،لسانی اور فروعی اختلا فات سے ہمیشہ الگ تھلگ رکھا، وہ اپنے سیاسی مخالفین کو بھی ادب سے ہی مخاطب کرتے رہے، مہنگائی، بے روزگاری،لاقانونیت اور دیگر قومی مسائل پر احتجاج کرتے ہوئے بھی انھوں نے کبھی شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، یہی وجہ ہے جب بھی وہ سرکار اور اور اپوزیشن کے پاس مل بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کی تجویز لے کر گئے تو سب نے ان کا احترام کیا ہے۔بلوچستان میں خود کش حملہ ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا، کسی بھی امیر جماعت اسلامی پر یہ پہلا خود کش حملہ تھا، مقام شکر کہ شرکاء جلوس ایک بڑے نقصان سے بچ گئے،امیر جماعت اور کارکنان محفوظ رہے، اگر خود کش حملہ آور کی جیکٹ پھٹ جاتی تو یہ زیادہ خطرناک ہوتا، اس لئے اس سانحہ میں بہت کم نقصان معجزہ ہی قرار دیا جاسکتا ہے۔
اس حملہ کی وڈیو دیکھ کر یہ اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خود کش حملہ آور کارکنان کے درمیان موجود تھا،اور وہ امیر محترم کی گاڑی کے قریب پہنچنے کیلئے موقع کی تلاش میں تھا،پھر اچانک اس نے خود کو اڑا لیا، تنظیمی لحاظ سے جماعت اسلامی کی صلاحیتوں کا اعتراف جس طرح اس کے مخالفین کرتے ہیں،اس طرح اس کی سکیورٹی کا نظام بھی بے مثال ہے، لاکھوں افراد پر مشتمل سہ روزہ پر امن ا جتماعات اِس کا منہ بولتا ثبوت ہیں، جہاں ہزاروں کی تعداد میں خواتین بھی شریک ہوتی ہیں، اس کے باوجود ایک خود کش حملہ آور کا موقع پا کر کارکنان کے درمیان آنا،اور اس کا آزادانہ نقل و حرکت کرنا،ایساعلاقہ جو ٹی ٹی پی کے حوالہ سے معروف ہے، ناقص سکیورٹی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے اس پر جماعت کے ذمہ داران کو بھی غور کرنا ہے۔صوبہ میں تمام سکیورٹی ایجنسیز کی موجودگی کے باوجود حملہ آور کا باآسانی جماعت کے جلوس میں پہنچ جانا سکیورٹی فورسز کی اہلیت کے سامنے بھی سوالیہ نشان ہے۔
میڈیا کی وساطت سے معلوم ہوا کہ خود کش حملہ آور کی شناخت ہوگئی ہے، اس کے خاندان کی تلاش جاری ہے، حملہ آور کا تعلق کوئٹہ سے بتایا جاتا ہے جو گذشتہ ڈیڑھ سال سے گھر سے غائب تھا۔اُمید واثق ہے کہ اس کا نیٹ ورک بھی جلد پکڑا جائے گا۔
ماہرین کی رائے یہی ہے کہ جب سے سی پیک جیسے بڑے معاشی منصوبہ کی داغ بیل ڈالی گئی ہے،بہت سی عالمی طاقتیں ہمسایہ ملک کی معاونت میں سرگرم عمل ہیں، انڈیا کے جاسوس کلبھوشن کی گرفتاری اسی شرارت کا نتیجہ ہے۔ کہاجاتا ہے کہ کاشغر سے گوادر تک کا منصوبہ جسکی مالیت اندازے کے مطابق58 بلین ڈالر ہے اسکی تکمیل کی آفر بیجنگ نے اسلام آباد کو کی ہے،ماہرین کہتے ہیں کہ اگر یہ رئیل پر اجیکٹ پایہ تکمیل کو پہنچتا ہے تو مغرب کے سارے روایتی اور سمندر کے ر استے بائی پاس ہو جائیں گے، جس کے تجارتی،معاشی اور جغرافیائی اثرات نہ صرف اس خطہ بلکہ دنیا پر مرتب ہوں گے، بہت سے خفیہ ہاتھ اس کاوش میں ہیں کہ اس علاقہ میں کسی صورت امن نہ ہونے دیا جائے۔
حال ہی میں سعودی، ایران تعلقات کی نئی شروعات، پاکستان کا روس سے تیل کی خریداری کا معاہدہ ایسی پیش رفت ہے،جس کا ہر سطح پر خیر مقدم کیا جارہا ہے، چین کی کاوشوں سے جنوبی ایشیا میں نئی صبح کروٹ لے رہی ہے، ایک نئے معاشی بلاک کا خاکہ سامنے آرہا ہے، جنگ وجدل کی پالیسی میں غرق انکل سام کو یہ گوارا نہیں، کھل کر سی پیک کی وہ مخالفت تو نہیں کر رہا مگر ہمارے ہمسایہ ملک کا کندھا استعمال کرتے ہوئے دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، ماضی میں بھی کئی ایسے نیٹ ورک پکڑے گئے ہیں جن کے ڈانڈے دہلی سے ملتے تھے۔
مقامی انتخاب کے نتیجہ میں گوادر میں جماعت اسلامی کے مولانا ہدایت الرحمان کامیاب قرار پائے ہیں، انھوں نے مچھیروں کے حقوق کے لئے آواز اٹھائی ہے،پہلی دفعہ جماعت اسلامی کو اس صوبہ میں بڑی سیاسی کامیابی ملی ہے،مولانا نے بڑے سرداروں کے برعکس نوجوانوں کو ہتھیار اٹھانے اور پہاڑوں پر جانے کے بجائے انھیں پرامن سیاسی جدوجہد کی ترغیب دی ہے، گوادر کے پر امن ماحول میں مولانا کا کردار بھی کلیدی ہو گا، امن مخالف قوتیں اس لئے گھناؤنا کھیل رہی ہیں، اس صوبہ میں روزانہ سکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں، جو اس بات کی شہادت ہے کہ بیرونی ہاتھ نسل نو کو استعمال کرتے ہوئے انھیں گمراہ کر رہا ہے۔
خفیہ ایجنسی کی شبانہ روز محنت کے نتیجہ میں گرفتار علیحدگی پسند بلوچ راہنما کا یہ اعتراف کہ حقوق کی جنگ صرف آئینی اورسیاسی طور پر ہی ممکن ہے، کچھ طاقتیں بلوچ گروہوں کو ایک پریشر گروپ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہیں مگر اس کا زیادہ نقصان بلوچ کمیونٹی کو ہی ہو رہا ہے، ان کے موقف میں نوجوانوں کے لئے بڑا سبق موجود ہے۔
محترم سراج الحق نے ژوب میں اپنے دورہ سے پہلے کشمیری راہنماؤں سے مل کر پریس کانفرنس میں انڈیااور عالمی برادری کو بڑا واضح پیغام دیا تھا کہ مقبوضہ کشمیر متنازع علاقہ ہے لہٰذا جی20 کانفرنس کا انعقاد یہاں ممکن ہی نہیں، اس کے بعد چین اور دیگر شرکاء ممالک نے بھی اس سے اتفاق کیا تھا، گمان ہے کہ سراج الحق پر خود کش حملہ اس سلسلہ کی کڑی ہی نہ ہو، تاہم انکی دیدہ دلیری ہے کہ انھوں نے حملہ کے باوجود ژوب میں عوامی جلسہ کرتے ہوئے انھیں قوتوں کو بلا بھیجا ہے کہ وہ صرف اللہ کا خوف رکھتے ہیں،تاہم انتہائی سنگین الزام قابل توجہ ہے جو سراج الحق نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ پر عائد کیا ہے، جماعت کے ایک پروگرام میں انھوں نے کہا کہ صوبائی سرکار کی رٹ کہیں نظر نہیں آئی، دن کی روشنی اور تاریکی میں عوام خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اراکین اور مقامی قیادت نے بتلایا ہے کہ موصوف دن رات حالت نشہ میں رہتے ہیں، گورننس پر انکی کوئی توجہ نہیں ہے۔
معدنیات سے مالا مال، تذویراتی طور اہم صوبہ کی حکمرانی پر ایسے فرد کا تقرر سوالات کو جنم دیتا ہے، جس کا ازالہ وفاقی حکومت ہی کو کرنا ہے، ا س الزام میں حقیقت کتنی ہے، اس کا جواب خود وزیر اعلیٰ پر بھی قرض ہے۔اسکی ایک صورت تو یہ ہو سکتی ہے کہ وہ دہشت گردی کو چیلنج سمجھ کر ختم کریں، تاکہ اس کے مالی وسائل سے تمام شہری مستفید ہو سکیں۔ وزیر اعظم نے بھی اس حملہ میں ملوث کرداروں کو کیفر کردار تک پہچانے کا عزم کیا ہے،ریاست کے تمام سٹیک ہولڈرز کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ جو پہلے ہی تاخیر کا شکار ہے اس کو عملی جامہ پہنانے میں اپنا کردار اد کریں،تاہم اس کا راستہ پر امن بلوچستان ہی سے ہو کر گذرتا ہے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.