کون سوچے گا؟؟

94

کبھی کبھار قوموں اور ملکوں کی تاریخ میں ایسے واقعات ہو جاتے ہیں جو ان کا رخ تبدیل کر دیتے ہیں۔ 9 مئی کا سانحہ جہاں ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گیا وہاں یہ سوال بھی ہر ذہن میں گونج رہا ہے کہ اب آگے کیا ہو گا؟ کیا ہم ہمیشہ کے دکھوں کی طرح اس دکھ کو بھی فراموش کر دیں گے یا آنے والے دنوں کے لیے کوئی لائحہ عمل بھی ترتیب دے پائیں گے۔ کیا عوام اور فوج کے درمیان حائل اس خلیج کو ختم کرنے کے لیے کوئی سوچے گا اور کون سوچے گا۔ کیا صرف سوچے گا یا مضبوط گراؤنڈز پر کوئی مسیحائی، کوئی تدارک کرنے کے لیے کہیں سے عملی اقدامات بھی اٹھائے جائیں گے یا نہیں؟ میری ناقص عقل کے مطابق اس سانحے کے پیچھے ففتھ جنریشن وار کا سوچا سمجھا منصوبہ کارفرما ہے۔ پاکستان کی دشمن قوتیں آج سے نہیں بلکہ نہ جانے کب سے اس پر عمل پیرا تھیں اور بالآخر ہمارے سینٹر آف گریویٹی پر وار کرنے میں کامیاب رہیں۔ ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے کاندھے پر بیٹھ کر آنے والے سیاستدانوں میں سے کسی نے بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نام لے لے کر نشانہ تنقید بنانے والوں کا ضمیر تو بس اتنا ہی ہے کہ تخت سے اترتے ہی اپنے تیر سیدھے کر لیتے ہیں۔ دوسری طرف عوام میں ایسے جتھے وجود میں آ چکے ہیں جو ملک پر ہر طرح کی مصیبت کا قصور وار اسٹیبلشمنٹ کو قرار دیتے ہں۔ انہیں میں سے کچھ ظالموں نے شہداء کی یادگاروں کو نشانہ بناتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ وہ والدین، بہن بھائی اور بیوی بچے جو وطن پر قربان ہو جانے والے پیاروں کے جسد ہائے خاکی رب کے سامنے
احساس تشکر کے ساتھ جب لحد میں اتارتے ہیں تو ان کے دلوں پر کیا بیتتی ہو گی۔ جنگیں تو جنگیں رہیں ہم نے تو ملک کو دہشت گردی کے عفریت سے نجات دلانے کے لیے بھی اتنی قربانیاں دی ہیں کہ جس کا اعتراف پوری دنیا نے کیا ہے۔ اب اگر دیوار کی دوسری طرف بھی نظر نہ دوڑائی جائے تو منافقت ہو گی۔ پچھلے ایک سال سے ملک پر مسلط کی گئی سیاسی بلا نے ملک کی نوے فیصد عوام کو سکھ کا سانس تک نہیں لینے دیا۔ سانحہ 9 مئی کے بعد ڈھائی جانے والی پولیس گردی کی شکل میں ظلم و ستم کے پہاڑ بھی پاکستان کی تاریخ میں کسی نے نہیں دیکھے ہونگے۔ پورا ملک خوف، دکھ اور غصے کے بگولوں میں گھرا کسی مسیحا کی تلاش میں دیواریں تک رہا ہے۔ دیواریں اس لیے کہ نہ کوئی راستہ نظر آتا ہے نہ کسی منزل کا سراغ۔ ہم تو دونوں طرف سے مارے گئے۔ بے یقینی اور بھروسے کا فقدان ذہنی بیماری کی شکل اختیار کرتا نظر آتا ہے۔
رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے پوری کر رکھی ہے۔ چین کے لیڈرز کی بصیرت کو داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ انہوں نے اس دجالی فتنے کو ملک میں گھسنے ہی نہیں دیا۔ چین کا اپنا نیٹ ورک اور اپنا سوشل میڈیا ہے۔ اپنا بانس اپنی بانسری۔ لیکن ہم سوائے انٹرنیٹ بند کرنے اور جواباً کوسے جانے کے کچھ نہیں کر پائے۔ وہ بھی لوگوں نے پائریسی لگا لگا کے کام چلائے رکھا۔ ان کو داد دیجئے جن کی انگلی کے نیچے ہمارے پورے ملک کا نظام ہے۔ ایک بٹن دبانے سے پورے ملک کا سسٹم کولیپس کر سکتا ہے۔ ہم من الحیث القوم صرف کرپٹ ہی نہیں کوتاہ بین اور کوتاہ نظر بھی ہیں۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسی ہمارا اول و آخر منشور بن چکا ہے۔ سوشل میڈیا کے اوائل میں تو کسی نے اسے درخورِ اعتنا بھی نہیں سمجھا تھا اور آج دنیا بھر میں سیاسی، سماجی بحرانوں سے لے کر انقلابات تک کی بات سوشل میڈیا کی مرہون منت ہو چکی ہے۔ کیا کوئی ہے جس کے دماغ میں یہ خیال آیا ہو کہ کیوں نہ چین کی طرح سوشل نیٹ ورک ہمارا اپنا ہو۔ سوشل میڈیا پر ہماری ذاتی معلومات اور تشہیر پر اربوں کھربوں روپے باہر چلے جاتے ہیں لیکن آٹے میں نمک کے برابر بھی واپس نہیں آتے۔ میں پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ سانحہ 9 مئی کے پیچھے کارفرما عوامل اور ٹولز میں ایک سوشل میڈیا بھی جو مسلسل ہمارے نوجوانوں اور بچوں کی سماج مخالف ذہن سازی کر رہا ہے۔ ہم صرف دیکھنے کی حد تک ہی رہ گئے ہیں بلکہ ہم سے اکثریت اس کی اسیر ہو کر آزادانہ طور پر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکی ہے۔ سماجی اقدار کی گراوٹ کا یہ حال ہے کہ ہم پیسے والے کو بڑا آدمی کہتے ہیں اور مفاد کے علاوہ کسی رشتے کی ہمارے نزدیک کوئی ویلیو نہیں رہ گئی۔ سانحہ 9 مئی جیسے تاریخی المیے کا شکار ہونے کے بعد کیا کہیں کوئی یہ سوچ موجود ہے کہ ہم ایسے واقعات کو مستقبل میں دہرائے جانے سے کیسے روک پائیں گے۔ صرف سزائیں دینے سے جرم رک پاتا تو آج تھانوں کی ضرورت ہی باقی نہ رہتی۔ سزا قانونی حق ضرور ہے لیکن کسی قومی بیماری کا حل بھی نہیں۔ ہمارے حکمران طبقے کو اس کا حل سوچنا ہو گا ورنہ اگر نفرت کا یہ ناسور ختم نہ ہوا تو پھر ہمیں خود کو محب وطن کہلانے کا کوئی حق ہے نہ ذمہ دار شہری کہلانے کا۔

تبصرے بند ہیں.