شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

129

مئی کا مہینہ پاکستان کی تاریخ میں دو حوالوں سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، پہلا یہ کہ 28 مئی 1998 کو اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کر کے پاکستان نے بیرونی جارحیت کے خلاف خود کو مکمل طور پر محوظ بنا لیا، اس روز پاکستان نے بھارت کی جانب سے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں صوبہ بلوچستان کے ضلع چاغی کے ایک پہاڑ کے اندر پانچ کامیاب ایٹمی دھماکے کر کے اپنے دشمنوں کو یہ پیغام دیا تھا کہ جو پاکستان کی طرف بری نظر سے دیکھے گا اسے فنا کر دیا جائے گا۔ دوسرا حوالہ یہ ہے کہ مئی کے مہینے میں ہی داخلی سطح پر پاکستان کا برا چاہنے والوں کو بھی مکمل طور پر بے نقاب کر دیا گیا، نو مئی کے واقعات کی ہر شعبہءزندگی سے ہر سطح پر ہر جانب سے اور ہر طرح سے مذمت کی جا رہی ہے ،اور تو اور خود عمران خان ،فواد چودھری اور ان کی جماعت کے کئی سینئر ارکان نے ان واقعا ت کی مذمت کی ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وطن کے محافظوں سے ہر کسی کو پیار ہے۔ کچھ شر پسندوں کی طرف سے نو مئی کے واقعات میں سرکاری املاک جلائی گئیں فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا اور فوج و شہدا کے حوالے سے بنائی گئی یادگاروں کو بے رحمی سے نقصان پہنچایا گیا مگر فوج کے ساتھ پاکستان کے عوام کی وابستگی ہر طرح کے شکوک و شبہات سے بالا تر ہے، 1965 کی جنگ ہو یا 1971 کا سانحہ 1999 کی کارگل جنگ ہو یا سابق فاٹا کی مختلف ایجنسیوں میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہر دور میں اور ہر مرحلے پر عوام اپنی بہادر فوج کے ساتھ کھڑے رہے ہیں، یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے عوام کے دل ہمیشہ اپنی افواج کے ساتھ دھڑکتے ہیں بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ساری جنگیں پاکستان کے عوام نے اپنی افواج کے ساتھ مل کر لڑیں جبکہ یہ بات بھی بڑے فخر کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ افواج پاکستان ہر طرح کے نا مساعد حالات میں عوام کے شانہ بشانہ کھڑی نظر آتی ہیں، عساکر اور عوام کے مابین اس طرح کی ہم آہنگی شاید ہی کسی اور ملک میں نظر آئے۔
جب فوج کسی جارح کے خلاف میدانِ کار زار میں اترتی ہے تو دونوں طرف کا مالی کے ساتھ ساتھ جانی نقصان بھی ہوتا ہے، جنگ کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے مسلمان سپاہی شہید کہلاتے ہیں،یہ سعادت ہماری افواج کے سینکڑوں افسران اور ہزاروں سپاہیوں نے حاصل کی۔ آخری آسمانی کتاب اور احادیثِ مبارکہ میں شہدا کے لا ثانی ہونے کے متعدد حوالے موجود ہیں، سورہ آلِ عمران کی آیت 169 میں لکھا ہے: (مفہوم ترجمہ) اور جو اللہ کی راہ میں مارے گئے ہرگز انہیں مردہ نہ خیال کرنا بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں روزی پاتے ہیں۔ اکثر مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیت شہدائے احد کے حق میں نازل ہوئی، حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے کہ سرکارِ دو عالم نے ارشاد فرمایا جب تمہارے بھائی احد میں شہید ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کی اَرواح کو سبز پرندوں کے جسم عطا فرمائے، وہ جنتی نہروں پر سیر کرتے پھرتے ہیں، جنتی میوے کھاتے ہیں، سونے کی ان قندیلوں میں رہتے ہیں جو عرش کے نیچے لٹک رہی ہیں۔ جب ان شہدائے کرام نے کھانے، پینے اور رہنے کے پاکیزہ حالات پائے تو کہا کہ پیچھے دنیا میں رہ جانے والے ہمارے ساتھیوں کو کون خبر دے کہ ہم جنت میں زندہ ہیں تاکہ وہ جہاد سے بے رغبتی نہ کریں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں انہیں تمہاری خبر پہنچاﺅں گا، پس یہ آیت نازل فرمائی۔ (بحوالہ ابو داﺅد، کتاب الجہاد، باب فی فضل الشہادة، 22/3، الحدیث:2520)
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا، جو شخص بھی جنت میں داخل ہوتا ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ دوبارہ دنیا کی طرف لوٹ جائے چاہے اسے دنیا کی ہر چیز دے دی جائے، مگر شہید کا معاملہ یہ ہے کہ وہ تمنا کرتا ہے دنیا میں دوبارہ واپس لوٹ جائے اور دس مرتبہ قتل کیا جائے۔ (صحیح بخاری، صحیح مسلم)
قرآن اور حدیث کے بعد شہید کی عظمت کے بارے میں کسی ثبوت کسی بیان کسی حوالے کی ضرورت باقی نہیں رہتی لیکن اگر دنیاوی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو بھی ملکی سرحدوں کے محافظین کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اس فرض کی ادائیگی میں جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والوں کے احسان کا تو کبھی کوئی بدلہ دیا ہی نہیں جا سکتا، عبدالمجید سالک نے کہا تھا:
تمہی سے اے مجاہدو جہاں کا ثبات ہے
تمہاری مشعل وفا فروغ شش جہات ہے
تمہاری ضو سے دل نشین جبین کائنات ہے
بقا کی روشنی ہو تم پناہ اندھیری رات ہے
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے
لہو جو ہے شہید کا وہ قوم کی زکوٰة ہے
اور حکیم الامت علامہ اقبال نے کہا تھا:
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحر ا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
دو عالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
کیا کبھی کسی نے سوچا کہ جب ہم لوگ میٹھی نیند کے مزے لیتے ہیں تو وہ کون ہیں جو راتوں کو جاگ کے سرحدوں کی پہرے داری کرتے ہیں؟ اپنا آرام تیاگ کر قوم کے آرام کا خیال رکھتے ہیں، یہ ہمارے محافظ ہیں ہماری سرحدوں کے محافظ۔ سرحد کی نگرانی کرنے والوں کی شان کس قدر بلند ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ نبی کریم نے فرمایا: ایک دن اور ایک رات سرحد پر پہرہ دینا ایک ماہ کے روزے اور قیام سے بہتر ہے اور اگر پہرہ دینے والا فوت ہو گیا تو اس کا وہ عمل جو وہ کر رہا تھا آئندہ بھی جاری رہے گا۔
ہم اپنے جوانوں، بہادر سکیورٹی اہلکاروں اور سرحدوں کے مضبوط پہرے داروں، ہتھیاروں سے لیس نگرانی کرنے والوں، سرحدوں پر تعینات فوجیوں اور ٹھکانوں کی حفاظت کرنے والوں پر حد درجہ فخر کرتے ہیں۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ شہدائے پاکستان کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت آج 25 مئی کو یوم تکریم شہدائے پاکستان منایا جا رہا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد شہدا کی لا زوال قربانیوں کی یاد تازہ کرنا اور قوم کو یہ پیغام بھی دینا ہے کہ شہدا، ان کی اہلِ خانہ اور یادگاروں کا احترام ہر پاکستانی پر فرض ہے۔ امید ہے کہ یہ روایت برقرار رہے گی اور یومِ تکریمِ شہدائے پاکستان ہر سال منایا جاتا رہے گا کہ تاریخ انہی قوموں کو یاد رکھتی اور اعلیٰ مرتبے پر فائز کرتی ہے جو اپنے شہدا کو یاد رکھتی ہیں جو ان کی قربانیوں کو سراہتی ہیں اور جو ان کی یادگاروں کے تحفظ کو یقینی بناتی ہیں۔ ہم محوظ ہیں تو اپنے غازیوں کی شجاعت کے صدقے اور ہم مامون ہیں تو اپنے شہدا کی قربانیوں کے طفیل ہم ان کے احسانوں کا بدلہ نہیں چکا سکتے لیکن انہیں یاد رکھ کر ان کی تکریم میں اضافہ تو کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.