میں نے قومی خزانے کو ساٹھ ارب کا ٹیکا لگانے اور پھر چھ ارب کی دیہاڑی لگانے والے اس شخص کو کالے رنگ کی بالٹی میں چھپ کر عدالتوں میں پیش ہوئے دیکھا،وہ شخص اپنے کارکنوں کو پولیس پر پٹرول بم پھینکنے کی ترغیب دیتے ہوئے کہہ رہا تھا ’خوف کے بت توڑ دو‘۔ اس شخص کے اپنے بچے بیرون ملک محفوظ و مامون ہیں اور یہ یہاں دوسروں کے بچوں سے، اپنے گھر کی چوکیداری کرواتے ہوئے، اپنے ہی ملک کی پولیس اور رینجرز پر حملے کروا رہا ہے تاکہ گرفتاری سے بچ سکے۔ میں اس شخص کو پولیس کی گاڑی دیکھ کر ہانپتے، کانپتے دوڑ لگاتے اورگرتے اٹھتے دیکھا جو نعرے لگاتا تھا’تمہارا با پ بھی دے گا آزادی‘۔ میں نے ٹکر کے لوگ کا نعرہ دینے والوں کو کئی ائیرپورٹوں سے ملک سے بھاگنے کی کوشش کرتے اور ناکام ہوتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ہرزہ سرائی کی انتہا پر جانے والے انقلابی کو گرفتاری پر عورتوں کی طرح ٹسوے بہاتے ہوئے دیکھا۔ میں ستر، ستر برس کے مردوں کو بے شرمی سے اپنے ساتھ جنسی زیادتی کابے ہودہ الزام لگاتے ہوئے دیکھا اور جب ان سے کہا گیا کہ اس الزام پر قانونی کارروائی کے لئے میڈیکل کروا لو تو آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے دیکھا۔ میں نے ان لوگوں کو دیکھا ہے کہ جب یہ اقتدار میں تھے تو ان کی زبانوں سے شعلے اور آنکھوں سے خون برستا تھا مگر اب ان کے آنسو نہیں رکتے۔
اس عمران خان کے مقابلے میں نواز شریف ہے، کہتے ہیں کہ پاکستان سے بھاگ گیا مگر یہ کہنے والے بے شرمی سے بھول جاتے ہیں کہ یہ وہ شخص ہے جو اپنی بسترمرگ پر پڑی ہوئی محبوب بیوی کو چھوڑ کر اپنے وطن اور عوام کی خاطر اپنی بیٹی کا ہاتھ پکڑے وطن واپس لوٹ آیا تھا اور سیدھا ایک ایسی جیل میں پہنچ گیا تھا جس پرکنٹرول ایک بزدل اور کم ظرف کا ہونے والا تھا۔ وہ کم ظرف جس نے بیرون ملک اپنے جیسے چھوٹے لوگوں کا مجمع اکٹھا کر کے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنے اس بہادر مخالف کی جیل میں نہ ٹی وی رہنے دے گا اور نہ ائیرکنڈیشنر، پھر یوں ہوا کہ قدرت نے اسے خود ہی جیل کے راستے کا مسافر کر دیا۔ ہم سیاسی تجزیہ نگار جانتے ہیں کہ اسے ستمبر تک اعلیٰ عدالتی تحفظ حاصل ہے، ایسا اعلیٰ عدالتی تحفظ،جس کی دنیا بھر کے عدالتی نظاموں میں کسی ملزم کے لئے مثال نہیں ملتی۔ ایسا عدالتی تحفظ، جس میں پہلے سے درج مقدمات ہی نہیں بلکہ ان تمام مقدمات میں بھی ضمانت دے دی جاتی ہے جو ابھی درج بھی نہ ہوئے ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اس عدالتی نظام کی جگہ دنیا کے نظاموں میں ایک سو اڑتیسویں نمبر پر بھی نہیں ہے اور عین ممکن ہے کہ ایسے کسی عدالتی نظام کو دنیا کے عدالتی نظاموں کی فہرست سے ہی نکال دیا جائے جس میں ایک گروہ کے لئے محبت ہی محبت ہے اور دوسروں کے لئے نفرت ہی نفرت۔
اسی عمران خان کے مقابلے میں شہباز شریف ہے جو کینسر کا مریض ہے اور عمر میں کم و بیش عمران خان ہی کے برابر مگر اسے قومی اسمبلی میں لیڈر آف دی اپوزیشن ہونے کے باوجود ایک مرتبہ نہیں بلکہ دو مرتبہ گرفتار کیا گیا اور مہینوں جیل میں رکھا گیا۔ عمران خان کو چند گھنٹے پولیس کی تحویل میں دیکھتے ہیں تو کئیوں کے دلوں میں ہول اٹھنے لگتے ہیں، عمران خان کو مرسیڈیزیں بھیج کے اور ججوں والے گیٹ کھول کے بلایا جاتا ہے۔ اس کے لئے ریسٹ ہاوس ہی نہیں کھلوایا جاتا بلکہ اس کے رشتے داروں کوسرکاری خرچ پر ملاقاتوں اور موج مستی کی اجازت بھی جاتی ہے۔ عمران خان پرمقدمہ ہو تو اس کی درخواست دو گھنٹو ں میں سماعت کے لئے مقرر ہوجاتی ہے مگر ہم نے یہاں اسی شہباز شریف کے بیٹے کودو برس تک جیل میں دیکھا ہے۔ کہتے ہیں کہ عمران خان بہادر ہے اور شہباز شریف بہادر نہیں ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ کیا بڑھکیں مارنا ہی بہادری ہے۔ کیا محض سیاسی مفادات کے لئے دوسروں کے بچوں کو بہکا کے، گمراہ کر کے اپنے ہی ریاستی حملوں پر حملے کروانا ہی بہادری ہے۔ بہادری دوسروں کے بچے مروانا نہیں ہے، بہادری ملک و قوم کے لئے اپنے بچوں کو حوالاتوں اور جیلوں میں بھیجنا ہے۔ بہادری عمران خان کی طرح عدالتی نظام کو اپنے تحفظ کے لئے استعمال کرتے ہوئے ضمانتوں پر ضمانتیں لینا نہیں ہے، بہادری شاہد خاقان عباسی کی طرح جج سے کہنا ہے کہ تم ایک ہی مرتبہ نوے روز کا ریمانڈ دے دو بلکہ ایک سو اسی دن کا دے دو۔ بہادری یہ ہے کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والا شخص جیل میں اپنے سامنے اپنی جان سے پیاری بیٹی کو ایسے مقدمے میں گرفتار ہوتے ہوئے دیکھے جو ابھی درج بھی نہ ہوا ہو اور جو اس کے بعد بھی کبھی درج نہ ہوا مگر وہ اس کے باوجود اپنے اصولی موقف پر ڈٹا رہے کہ فوج کو سیاست میں مداخلت کاحق نہیں ہے۔ بہادری کی عملی تشریح دیکھنی ہے تو فواد چوہدری نہیں پرویز رشید کی طرف دیکھو، بہادری اور وفاداری کی اگر کوئی انسانی صورت ہو گی تو یہی ہو گی،وہ مشاہد حسین سید نہیں مشاہد اللہ خان مرحوم کی صورت ہوگی۔
جرات اوربہادری کے ساتھ سیاسی فراست، خاندانی تہذیب اور حب الوطنی کی کوئی جیتی جاگتی انسانی صورت دیکھنی ہے توخواجہ سعد رفیق کی صورت میں دیکھوجس نے بڑے عہدے پر چھوٹے شخص کی ہرتضحیک برداشت کی مگر اسے جناب چیف جسٹس اور ہمارے چیف جسٹس کہتا رہا۔ جس نے اپنے بھائی کے ساتھ ڈیڑھ سال ایک ایسے مقدمے میں جیل کاٹی جسے عدالتی فیصلوں میں ایسا مقدمہ کہا گیا جو جاوید اقبال کی نیب کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا تھا بلکہ اسے مقدمہ نہیں اس وقت کے چئیرمین نیب جیسی گھٹیا اور گندی ’چول‘ہی قرار دیا جا سکتا تھا۔ نیب کا ذکر آ گیا تو افسوس اس قومی ادارے کی سربراہی ایسے شخص کے پاس رہی جو اپنے پاس شکایت لے کر آنے والی عورتوں کے لئے راسپوٹین تھا اور اس سے زیادہ افسوس کہ ایوان وزیراعظم میں بیٹھے ہوئے اس سے بھی چھوٹے شخص نے گندے مقاصد کے لئے ایوان وزیراعظم کو اغوا برائے عصمت دری کا شرمناک اڈہ بنا دیا۔ میں نے فواد چوہدری کوگرفتاری سے بھاگتے ہوئے دیکھا تو مجھے لاہور ہائی کورٹ کی حدود سے خواجہ سعد رفیق کی گرفتاری کا منظر یاد آ گیا۔ میں نے کبھی نواز شریف، شہباز شریف، رانا ثناء اللہ خان، شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق، سلمان رفیق سمیت کسی کو بھی روتے نہیں دیکھا، یہ تو مرد ہیں میں نے کبھی مریم نواز کو روتے ہوئے نہیں دیکھا۔ میں نے مشرف دور میں پرویز رشید کو روتے نہیں دیکھا حالانکہ اس بزرگ شخص کے ساتھ وہ کچھ ہوا جس کا عشر عشیر بھی جھوٹے انقلابیوں کے ساتھ نہیں ہوا ہو گایہاں ایک پرانی بات یاد آ گئی کہ مشرف دور میں، اس دور کے نیب والے، صدیق الفاروق کو قید کر کے بھول گئے اور وہ جری شخص ڈیڑھ برس بعد بھی نہیں رویا۔ ٹکر کے لوگ وہ نہیں ہوتے جو گالی دیتے ہیں اور جو اپنے مخالف کو کمزور دیکھ کر اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ بہادر لوگ بھارت جیسے دشمن کو خوش ہونے کا موقع نہیں دیتے۔وہ اپنے ملک کے محافظ ہوتے ہیں، وہ اعلیٰ ظرف ہوتے ہیں۔ یاد رکھو،وہ اپنے بچے بیرون ملک رکھ کے دوسروں کے بچے نہیں مرواتے۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.