آج کا دور خبروں کا دور ہے۔ میڈیا کو عوام کی ذہن سازی کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کا فائدہ اٹھا کر سیاسی سرمایہ دار اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرتے ہیں ان عناصر کی اپنی اپنی کارکردگی تو ہوتی نہیں لیکن یہ اپنے مخالفین کی بری کارکردگی کی تشہیر کو اپنے فائدے کے لیے استعمال کرتے ہیں ان کے استعمال کیے گئے حربے میڈیا انڈسٹری کی آنکھیں چندھیا دینے کے لیے کافی ہوتے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں میڈیا کی سیاسی یلغار میں اچھی خبروں کا قحط ہے لیکن اس کے باوجود اگر کوئی اچھی خبر ہوتی بھی ہے تو وہ منفی پراپیگنڈے کے بوجھ تلے دب جاتی ہے۔
ایک ایسے وقت اور حالات میں جب پاکستان آئی ایم ایف کی امداد کی بوند بوند کو ترس رہا ہے اور دیوالیہ ہونے کے دہانے پر ہے اور محض ایک ارب ڈالر کی امداد کے لیے آئی ایم ایف کے آگے سجدہ ریز ہے پاکستان کے پاس اس آئی ایم ایف پیکیج سے 12 گنا زیادہ زرمبادلہ کا اپنا ایک قومی asset موجود ہے لیکن ہمیں اس کی خبر ہی نہیں آپ ہماری اس بات کو مبالغہ یا مغالطہ سمجھیں گے۔ ہماری حیثیت اس بھکاری کی ہے جو ٹریفک سگنل پر دس روپے کے حصول کے لیے آپ کی گاڑی کے شیشہ کو اپنی زبان سے صاف کرنے پر آمادہ ہے مگر اسے یہ پتہ نہیں کہ اس کی جھونپڑی کے فرش میں اتنا خزانہ دفن ہے جس سے وہ سگنل پر کھڑی گاڑیوں کی ساری قطاریں خرید سکتا ہے۔
اس ہفتے امریکا میں پاکستانی سفیر مسعود خان سے ایک امریکی کمپنی Miracle Sattwarks Collective Inc (MSCI) کے صدر اور ان کے ہمراہ وفد نے ملاقات کی۔ یہ کمپنی پاکستان کے سالٹ رینج کے علاقوں کھیوڑہ ، وارچھا، کالا باغ اور بہادر خیل کے علاقوں میں گلابی نمک یا Pink Salt کے ذخائر پر ریسرچ کا ٹھیکہ لینا چاہتی ہے جس سے پاکستان کو 200 ملین ڈالر مل سکتے ہیں یاد رہے کہ پنک سالٹ دنیا کا مہنگا ترین نمک ہے جو صرف پاکستان میں پایا جاتا ہے۔ اس وقت اس قیمتی سالٹ کی ایکسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے پھر بھی پاکستان سالانہ 71 ملین ڈالر کا زرمبادلہ حاصل کر رہا ہے کمپنی کا دعویٰ ہے کہ اس وقت پاکستان میں Pink Salt کا 22 ہزار بلین ٹن کا وسیع و عریض ذخیرہ موجود ہے اور اگر پاکستان اس سے فائدہ
اٹھائے تو سالانہ 12 بلین ڈالر کازرمبادلہ کئی سو سال تک کمایا جا سکتا ہے۔ یہ تاریخی ذخائر سکندر اعظم کے مذکورہ علاقہ فتح کرنے کے دور سے یہاں پر قدرتی طور پر موجود ہیں اور پاکستان آج تک اس کا 10 فیصد بھی استعمال نہیں کر سکا۔
آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر پاکستان صرف اپنے اس قدرتی ذخیرے کو ہی سنبھال لے تو ہماری بہت سی معاشی مشکلات اس سے حل ہو جاتی ہیں اس وقت پاکستان کے تمام امداد دہندگان کے مجموعی چندے کو جمع کریں جو آئی ایم ایف ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات اور چائنہ نے پاکستان پر رحم کھا کر اسے دیا ہے تو اس کی مجموعی مالیت ایک سال میں 12 ارب ڈالر نہیں بنتی۔ پاکستان میں غربت اور مہنگائی کی بڑی وجہ اپنے وسائل سے فائدہ نہ اٹھانا ہے۔ ایک زرعی ملک ہونے کے باوجود جو کہ ماضی میں گندم ایکسپورٹ کیا کرتا تھا اب اندرونی بدنظمی اور ناقص حکمرانی اور زراعت کش پالیسیوں کی وجہ سے گندم باہر سے منگوانے پر مجبور ہے۔
Pink Salt کے بارے میں ماضی میں ہم نے بڑی داستانیں سنی ہیں۔ انڈیا کے پاس اس کوالٹی کا نمک نہیں ہے وہ دبئی کے فرضی Shell کمپنیوں کے ذریعے پاکستان سے یہ نمک کوڑیوں کے بھاو¿ خرید کر اس کو Indian Product کے طور پر دنیا بھر میں متعارف کراتا ہے اور اس سے منافع حاصل کرتا ہے۔ آج بھی پنک سالٹ پر انڈیا کی خاص نظریں ہیں جبکہ ہمارے ملک میں ہماری حکومتوں کو اس کا پتہ ہی نہیں ہے۔ ہمارے 99 فیصد اراکین پارلیمنٹ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ورنہ وہ اب تک سالٹ رینج کا ٹھیکہ لے چکے ہوتے۔
سالٹ رینج کے اس چھپے ہوئے خزانے سے زرمبادکہ کمانے کے لیے ہمیں عالمی معیار کے پراسیسنگ، پیکنگ Mining اور مارکیٹنگ کی ضرورت ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کی یا تو الگ وزارت بنا دینی چاہیے یا اس کارپوریشن یا نیشنل اتھارٹی جیسی کوئی ایسی باڈی ہو جو اس کا کنٹرول سنبھالے لیکن اس کا انجام PIA اور اسٹیل ملز جیسا نہ ہو۔ اگر پاکستان سالٹ رینج پر پروڈکشن کو مہارت کے ساتھ استعمال کرے تو آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ پروگرام کے ذریعے کوئی سسٹم مرتب کیا جا سکتا ہے کہ جن علاقوں سے یہ معدنیات حاصل ہو رہی ہے وہاں کے مقامی افراد کی ترقی کے لیے وہاں خصوصی کمیونٹی ویلفیئر کے پراجیکٹ کا آغاز کیا جائے۔
لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت اپوزیشن اور بیوروکریسی سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے اور ہر ایک اپنی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اس لیے وہ سوچتے ہیں کہ ان کا اقتدار اور اختیار Pink Salt سے زیادہ اہم ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا کہ
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
اپنے ذاتی خطرات سے چھٹکارے کے لیے اور اپنی راہیں آسان بنانے کے لیے ان سب نے مل جل کر ملکی سلامتی کو شدید خطرات سے دو چار کر رکھا ہے۔
اس سے قبل بلوچستان کا ریکوڈیک کا پر اینڈ گولڈ پراجیکٹ لا تعداد تنازعات کا شکار رہا ہے جو کہ سونے کے ذخائر میں دنیا میں پانچویں نمبر پر آتا ہے۔ ایک بین الاقوامی کمپنی کو ٹھیکہ دینے اور پھر ٹھیکہ کینسل کرنے پر پاکستان کو بین الاقوامی عدالت انصاف میں اربوں ڈالر جرمانے کا سامنا ہے جس کی ابھی تک قانونی جنگ جاری ہے۔ ان حالات میں بہتر حل یہ ہو گا کہ پاکستان Pink Salt کا ٹھیکہ کسی بین الاقوامی کمپنی کو دینے کے بجائے کسی قومی نجی ادارے کو دے دے۔ اس سے ایک تو مقامی تجارت فروغ پائے گی زرمبادلہ یعنی منافع پاکستان میں رہے گا اور بین الاقوامی مداخلت بھی کم ہو گی اور مقامی لوگوں کو روزگار بھی ملے گا۔
یاد رہے کہ یہ دنیا کا واحد Organic Salt ہے جس کی دنیا بھر میں ڈیمانڈ عام نمک سے زیادہ ہے۔ اسے Rock سالٹ یا کرسٹل سالٹ بھی کہا جاتا ہے اور اس کے ساتھ کئی دوسری قیمتی معدنیات بھی پائی جاتی ہیں۔ امریکی کمپنی کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس علاقے پر دسترس حاصل کرے جس کے Strategic اور سکیورٹی پہلو بھی زیر نظر رہنے چاہیے ویسے بھی آنے والے وقت میں پاکستان اپنی سفارتی سمت تبدیل کرنے جا رہا ہے اور چائنا اور روس کی کوشش ہے کہ پاکستان کو امریکی تسلط سے نکال کر مقامی بلاک میں شامل کیا جائے تو ان حالات میں اتنا اہم اور حساس پراجیکٹ کسی امریکی کمپنی کی جھولی میں ڈالنا بہت سی پیچیدگیوں کا حامل ہو سکتا ہے۔ لہٰذا اگر کوئی ہماری بات سن رہا ہے تو اس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے:
ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں
Prev Post
تبصرے بند ہیں.