جس ملک میں تعلیم و تدریس کا بیڑا غرق ہو چکا ہو، بیروزگاری عروج پر ہو، قابل لوگ دیوار سے لگا دیئے گئے ہوں، خیالات کی نقل مارکیٹ میں عام فروخت ہو رہی ہو، آئین اور قانون اختیار کی بھینٹ چڑھا دیئے جائیں، غربت اور حرص اخلاقی قدروں پر حاوی نظر آئے تو نوجوان نسل سے کسی من مانے ردعمل کی توقع کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ مظلوم پاکستان نے پچھتر سال سے سیاسی بحرانوں کے سوا اگر کچھ دیکھا ہے تو فرقہ واریت، تعصبات اور دہشت گردی۔ علامہ اقبال کا خواب کیا تھا اور تعبیر کیا نکلی، قائد اعظم محمد علی جناح کا ویژن کیا تھا اور ہم ملک کو کس طرف لے کر چل پڑے۔ اس مظلوم ملک پر بوجھ کا ایک ایک تنکا تنکا رکھتے آج ہمیں پون صدی گزر گئی ہے۔ خودکش حملے و بم دھماکے سہتے اور پولیس مقابلے دیکھتے کتنی نسلیں گزر گئیں اور کتنی جوان ہوئیں۔ ہو سکتا ہے کچھ لوگوں کے لیے قائد اعظم کا یہ گھر جس میں قائد اعظم کبھی آ کر ٹھہرے بھی نہیں بے حسی سے جلایا جانا حیرت کا باعث ہو لیکن مجھے تو ان کا زیارت والا گھر بم دھماکے سے اڑا دیا جانا بھی یاد ہے جس کی ہم ٹھیک سے حفاظت نہ کر پائے۔ ہم لاہور والے گھر کی بھی حفاظت نہیں کر پائے۔ بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم تو اپنے ملک کی بھی ٹھیک سے حفاظت نہ کر پائے اور آدھا ملک گنوا بیٹھے اور دوسرے آدھے ملک میں شر پسند اور دہشت گرد اس طرح دندناتے پھرتے ہیں جیسے یہ ہمارا نہیں ان کا ملک ہے۔ سابق کور کمانڈر لاہور جنرل سلمان غنی اور ان کی فیملی نے جس صبر اور حوصلے
کے ساتھ اپنا ہنستا بستا گھر جلا دیے جانے کے لیے چھوڑا کربلا کے مسافروں کی یاد دلا گیا۔ جنرل نے شرپسندوں سے کہا کہ آئیں میرے ساتھ چائے پئیں، کھانا کھائیں۔ مجھے حضرت علیؓ یاد آ گئے جنہوں نے کہا تھا میرے قاتل کو شربت پلاؤ۔ ہم ان کے پیروں کی خاک ہیں لیکن ان کا زندگی گزارنے کا انداز اور مثالی کردار ہی ہمارے لیے باعث تقلید ہے۔ افواج پاکستان کے شہداء نہ ہوتے تو ہم ہوتے نہ ملک ہوتا۔ اگرچہ ہم نے تو ٹھیک سے شہداء کی قربانیوں کی بھی لاج نہیں رکھی۔ ملک کے حوالے سے غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ملک کا ایک ایک ذمہ دار سیاسی بحران پیدا کرنے میں مصروف ہے اور ملک کو معاشی دلدل میں لمحہ بہ لمحہ دھنستے ہوئے دیکھ کے بھی کسی کی پیشانی پر بل تک نظر نہیں آتا۔ رانا ثنا اللہ نے کہا تھا ہم نوے دن میں الیکشن نہیں ہونے دیں گے اور آج پوری دنیا نے دیکھا کہ نوے دن میں الیکشن نہیں ہوئے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے آئین بچانے کے لیے آگے بڑھے نہ قائد اعظم ہاؤس بچانے کے لیے کوئی نکلا۔ آئی جی پولیس سے لے کر ایس ایچ او تک زمان پارک پر آئے دن چڑھائی کرنے والوں میں سے قائد اعظم کا گھر بچانے کے لیے ایک بھی دکھائی نہ دیا۔ البتہ دوپٹہ پھینکنے والی خاتون کو دبوچنے والے سپاہی کو ساری دنیا نے دیکھا۔ جب ایک قوم صرف ہجوم رہ جاتی ہے تو ایسا ہی ہوا کرتا ہے۔ شر پسندوں نے تاک تاک کے فوجی تنصیبات اور دفاتر کو نشانہ بنایا جیسے ان سے کوئی صدیوں پرانی دشمنی ہو۔ شر پسند سارا دن اور ساری رات سڑکوں پر آگ اور خون کا کھیل کھیلتے رہے اور گھر پسند اپنے ڈرائنگ روموں میں بیٹھ کے دیکھتے رہے۔ مجھے یقین ہے میاں نوازشریف اپنے لگژری فلیٹ میں بیٹھ کر یہ سب تماشا دیکھتے رہے ہونگے اور خون کے آنسو روئے ہونگے کیوں کہ فوج سے اور جرنیلوں سے جتنی محبت ان کو ہے کسی کو ہو ہی نہیں سکتی۔ وزیراعظم پاکستان نے بھی سوختہ گھر دیکھا اور بلک بلک کے روئے۔ میاں صاحبان نے ضرور سوچا ہو گا کہ دختر پاکستان مریم اورنگ زیب اور فرزند پاکستان عطا تارڑ کو اس سانحے پر کیسے پُرسہ دیں اور برادر پاکستان رانا ثنا اللہ کا سامنا کیسے کریں۔ پی ڈی ایم کی مظلوم حکومت نے ابھی تو اتنی مشکل سے ملک کو معاشی موت مرنے سے بچایا تھا کہ اس پہ یہ دن بھی دیکھنا پڑ گیا کہ شر پسند جتھوں نے ان کی آنکھ بچا کر دن کے اندھیرے میں قائد کا گھر جلا دیا۔ وہ تو بھلا ہو مولانا فضل الرحمان کا جس نے دفعہ ایک سو چوالیس کی سہولت موجود ہونے کے باوجود دنیا کی عظیم ترین ڈنڈا بردار جانباز فورس کے ساتھ سپریم کورٹ کا محاصرہ نہ کرنے کی درخواست قبول فرمائی۔ کہانی یہی ہے میرے وطن کی کہ اس میں کچھ شر پسند ہیں اور باقی سارے زر پسند ہیں۔ سرمائے کے کھیل نے ہم سب سے ضمیر نامی چڑیا چھین کر امیر نامی گدھ پورے معاشرے پر مسلط کر دیا ہے۔ ابھی شاید ایک آخری موقع ہے اگر سب طاقتوروں نے اپنا اپنا احتساب نہ کیا، اناؤں کے خول نہ توڑے اور اپنی اپنی انفرادی ریڈ لائن ختم کر کے وطن ِ مظلوم پاکستان کو ریڈ لائن قرار نہ دیا تو کھیل ختم ہی سمجھیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.