ملک پر رحم کھائیں؟

38

آخری اطلاعات آنے تک وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے ریڈ زون میں جے یو آئی ف کے اراکین داخل ہو چکے تھے، اس سے پہلے ملک بھر میں تحریک انصاف کے قائد اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی گرفتاری پر پورے ملک میں پُرتشدد مظاہر ے ہوئے جس میں اربوں مالیتی املاک کو نقصان پہنچا اور جو کام دشمن کی فوج نہ کر سکی۔ وہ ہم نے اپنی آرمی کے خلاف کر دیا۔ سب سے پہلے اس بات پر آتے ہیں کہ جس کیس میں عمران خان کو گرفتار کیا گیا تھا، ایسے کیسز میں سیاستدانوں کو ہراساں کرنا اب تو ایک روایت بن چکی ہے۔ اگر مذکورہ کیس کا احوال بتاتی چلوں تو اس کیس کا نام القادر ٹرسٹ کیس ہے یہ کیس اس ساڑھے چار سو کنال سے زیادہ زمین کے عطیے سے متعلق ہے جو بحریہ ٹاؤن کی جانب سے القادر یونیورسٹی کے لیے دی گئی تھی۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ یہ معاملہ عطیے کا نہیں بلکہ بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض اور عمران خان کی حکومت کے درمیان طے پانے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ ہے اور حکومت کا دعویٰ تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی جو 190ملین پاؤنڈ یا 60 ارب روپے کی رقم برطانیہ میں منجمد ہونے کے بعد پاکستانی حکومت کے حوالے کی گئی وہ بحریہ ٹاؤن کراچی کے کیس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ملک ریاض کے ذمے واجب الادا 460 ارب روپے کی رقم میں ایڈجسٹ کر دی گئی تھی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کے عوض بحریہ ٹاؤن نے مارچ 2021 میں القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم کے علاقے سوہاوہ میں 458 کنال اراضی عطیہ کی اور یہ معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا تھا۔ جس ٹرسٹ کو یہ زمین دی گئی تھی اس کے ٹرسٹیز میں عمران خان اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے علاوہ تحریکِ انصاف کے رہنما زلفی بخاری اور بابر اعوان شامل تھے تاہم بعدازاں یہ دونوں رہنما اس ٹرسٹ سے علیحدہ ہو گئے تھے۔ جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔ خیر اس کیس کی تفصیلات خاصی لمبی ہیں اس کا ذکر بعد میں کسی کالم میں کروں گی مگر افسوس کھربوں روپے کے کیس ایک طرف مگر شک و شبہات سے بھرپور کیس ایک طرف رکھ کر ملک کا جو حال کیا جا رہا ہے، کوئی بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہو سکتا۔ ایسی ایسی دل ہلا دینے والی تصاویر و ویڈیوز سامنے آ رہی ہیں کہ ہمیں سوڈان، روانڈا، شام اور افغانستان جیسے ملکوں کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ یہ تصویریں ہماری اصلیت بتاتی ہیں کہ ہمارا معاشرہ کتنا مہذب ہے۔ نہیں یقین تو لاہور کے کور کمانڈر ہاؤس پر حملے کی فوٹیج دیکھ لیں۔ جی ایچ کیو پر حملے کی فوٹیج دیکھ لیں یا پشاور یا دیگرشہروں میں فوجی تنصیبات اور شہداء کی یادگاروں پر حملوں کی فوٹیج دیکھ لیں۔ ایک لمحے کے لیے آپ دشمن ممالک کو بھول جائیں گے۔
اس کے علاوہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ اب بھی سیاستدان ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے سے باز نہیں آ رہے۔ عمران خان دوبارہ گرفتاری پر اسی قسم کا ردعمل آنے کا کہہ رہے ہیں جبکہ حکمران خان صاحب پر نئے مقدمات درج کر رہے ہیں۔ جن میں پولیس کی ستر گاڑیاں جو نذر آتش ہوئی ہیں، ان کا مقدمہ ہے۔ ریڈیو پاکستان پشاور، کور کمانڈر ہاؤس لاہور، ترنول ریلوے سٹیشن وغیرہ کے جلائے جانے کے مقدمات ہیں۔ اسی طرح کے کئی اور مقدمے بھی ہیں۔ شاید مقدمہ درج کرنے والوں کا خیال ہے کہ احتجاج میں شامل ہر شخص کے اندر عمران خان کی روح حلول کر گئی تھی۔
بہرکیف، اس ملک پر تمام فریقین رحم کریں، یہ ملک اس وقت تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، امریکی ادارے بلوم برگ کی رپورٹ کے مطابق بیل آؤٹ قرضوں کے بغیر ڈیفالٹ ہو سکتا ہے، جون کے بعد پاکستان کے قرض ادائیگی کے فنانسنگ آپشن غیر یقینی ہیں۔ ورنہ حالات قابو سے باہر ہو جائیں گے۔ اگر کسی سیاستدان نے اداروں کے افسران کا نام لے کر غلطی کی ہے تو میرے خیال میں پاکستان کی سیاست میں یہ کوئی نئی بات نہیں، اور پھر آرمی چیف یا فوجی افسران کے خلاف باتیں کیا پاکستان کی سیاسی تاریخ میں نئی ہیں؟ اس حوالے سے ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ آپ زیادہ دور نہ جائیں 2017-18 کی سیاست دیکھ لیں، پھر سیاستدانوں کی حالیہ اور سابقہ تقاریر دیکھ لیں جو انہوں نے پارلیمنٹ میں ادارے کے خلاف کی تھیں۔ لہٰذا ہوش کے ناخن لیے جائیں اور پاکستان پر رحم کھایا جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے! کیوں کہ ویسے بھی اس وقت عوام کے لیے مشکلات میں ہر طرف سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اُن کے لیے اس وقت معیشت کا ادارہ تباہ ہو چکا ہے، سیاست کا ادارہ تباہ ہو چکا ہے، عدلیہ 130ویں نمبر سے بھی اوپر جا چکی ہے۔ کرپشن میں ہمارا کوئی ثانی نہیں، امن و امان میں ہم 80ویں نمبر سے اوپر ہیں۔ اور پیچھے بچتا ہے ہمارا فوجی ادارہ تو صرف دنیا کی نظر میں وہی بچا تھا جس کی عزت تھی ہم نے اُسے بھی تار تار کر دیا۔ ایسے میں متاثرین میں اہم حیثیت عوام کی ہے۔ عوام کیلئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ وہ ابھی تک اشرافیہ کے وعدوں پر جی رہے ہیں۔ مگر ملک کی خاصی بڑی آبادی نوجوانوں پرمشتمل ہے۔ ہم ان کے مستقبل کیلئے کچھ نہیں کر رہے اور اس کی وجہ سے ملک میں شدید بے چینی ہے۔ ہماری سرکار کیوں پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنانے پر تُلی دکھائی دیتی ہے کہ حالات ایسے ہیں کے کل کا کوئی اعتبار بھی نہیں کر سکتا۔ بقول شاعر
وعدوں کا ایک شہر تھا جس میں گزر رہے تھے دن
انکھیں کھلیں تو دور تک پھیلے ہوئے سراب تھے
ایک تھا موسمِ وفا جس کی ہمیں تلاش تھی
اپنے نصیب میں مگر، اور ہی کچھ عذاب تھے
قصہ مختصر کہ ہمیں اس وقت ہوش کے ناخن لینا ہوں گے، اُنہیں بھی جو اس وقت ریڈ زون میں موجود ہیں اور اُنہیں بھی جو ”ریڈ لائن“ کراس کر کے سکیورٹی اداروں کے ریڈار پر آ چکے ہیں۔ اللہ اس ملک پر رحم فرمائے (آمین)

تبصرے بند ہیں.