کاپ 28: متحدہ عرب امارات کے ماحول دوست اقدامات کا عالمی سطح پر اعتراف

96

کوپ 28۔ پوری دنیا کی نظریں متحدہ عرب امارات پر جم گئیں جہاں اس سال 30 نومبر سے 12 دسمبر 2024 تک اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کی کانفرنس آف پارٹیز کا 28واں اجلاس ہو رہا ہے۔ کاپ 28 کی پر وقار تقریب متحدہ عرب امارات کے قومی دن کے موقع پر منعقد ہو گی جس میں 80 ہزار سے زائد مندوبین شرکت کریں گے۔ 140 سربراہان مملکت اور حکومتی نمائندوں اورپانچ ہزار سے زیادہ میڈیا پروفیشنلز کی شرکت بھی متوقع ہے۔  دبئی ایکسپو سٹی کاپ 28 کے ہیڈ کوارٹر کے طور پر کام کرے گا۔ متحدہ عرب امارات مصر کے بعد ماحولیاتی تبدیلی کے عالمی کانفرنس کی میزبانی کرنے والا مشرق وسطیٰ کا دوسرا ملک ہوگا۔

 

دنیا کو اس وقت جو سب سے  بڑا چیلنج درپیش ہے، وہ ماحولیاتی تبدیلی  ہے۔ تقریباً ہر ملک اس سنگین صورتحال سے دو چار ہے۔ اس وقت کرہ ارض کو شدید ماحولیاتی خطرات لاحق ہیں۔ اسی لئے کاپ 28 سے دنیا کو بہت توقعات وابستہ ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بڑی پیش رفت بھی ہو سکتی ہے۔

یہاں چند وہ نکات زیر پیش کرتی ہوں جن جو کاپ 28 میں زیر بحث آئیں گے۔

سب سے پہلا تو یہ کہ کاپ 28 کے دوران کاپ 27 کے وقت

Loss and Damage Agreement  کے تحت جو فنڈ قائم کرنے کے لئے عبوری کمیٹی قائم ہوئی تھی، اُس کے آپریشنل ہونے کے امور کا جائزہ لے کر سفارشات پیش کی جائیں گی۔ ماہرین پہلے ہی واضح کر چکے ہیں کہ فنڈ کے درست استعمال اور تقسیم کا جامع طریقہ وضح کرنے کی ضرورت ہے۔ اس معاہدے کا مقصد موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کا سامنا کرنے والے کم آمدنی والے ممالک کی مدد کرنا تھا۔ 2009 میں  کاپ 15 کے دوران امیر مالک نے  100 بلین ڈالر کی فنڈنگ کا جو ہدف اور وعدہ کیا تھا، وہ ابھی تک وفا نہیں ہو سکا جبکہ انہی ممالک کی وجہ سے ماحول جو متاثر ہوا ہے، اس کے  باعث 200 ملین ڈالر یومیہ نقصان ہو رہا ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کاپ 27 کے دوران بھی اس معاملے پر واضح اور جامع حکمت عملی سامنے نہیں آسکی تھی۔ یقین ظاہر کیا گیا ہے کہ کاپ 28 اس عالمی ہدف کے لیے ایک فریم ورک تشکیل دینے کا عزم ظاہر کرے گی جس سے براہ راست ماحولیاتی تبدیلی سے متاثر ممالک کی مدد ہو سکے گی۔

یو اے ای کی وزارت تعلیم نے کاپ 28 کی تیاری کے لئے گرین ایجوکیشن پارٹنرشپ روڈ میپ کا اعلان کیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت موسمیاتی ایجنڈے کو تعلیم میں ضم کرنے اور اس ضمن میں کوششوں کو مربوط کرنے کے لیے عالمی تعاون کی اہمیت پر  کام کیا جائے گا۔ ماحول دوست نصاب کی تیاری اور اسکولوں کی تعمیر اساتذہ کو تربیت دینے کے لیے بھی پیش رفت ہو گی۔

اس کا مقصد بچوں اور نوجوانوں کو محفوظ مستقبل دینے اور  دنیا کو رہنے کی بہترین جگہ بنانے کے لیے ماحولیاتی تعلیم کی بنیاد رکھی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے پہلا تعلیمی پویلین ڈیزائن کیا گیا ہے۔  اسٹریٹجک پارٹنرشپ کے کا مقصد بچوں اور نوجوانوں کو موسمیاتی تعلیم اور اس شعبے میں تربیت و مہارت فراہم کرنا ہے تاکہ وہ خود کو بدلتے حالات کے مطابق ڈھال سکیں۔ متحدہ عرب امارات کے لئے کاپ 28 کی میزبانی خطے اور دنیابھر  کے تعلیمی نظام کو ماحولیاتی تبدیلی  سے متعلق تعلیم کو متحرک کرنے کا بہترین موقع فراہم کرے گی۔

کاپ 28 کے میزبان کی حیثیت سے متحدہ عرب امارات نے دنیا کو پیغام دیا ہے کہ وہ اپنی معیشت کو اُن ذرائع اور عوامل پر شفٹ کر دے گا جن کا انحصار صاف اور قابل تجدید توانائی ذرائع پر ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی سرگرمیوں کو بھی تکنیکی ترقی اور کلائمٹ اسمارٹ سولوشن کی طرف لے کر جائے گا۔  کانفرنس میں بنیادی طور پر معشیت کو ماحول دوست ذرائع سے چلانے پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا جائے گا۔

کاپ 28 کے لئے منتخب ہونا یقینی طور پر  متحدہ عرب امارات کے لئے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے سے ماحول دوست اقدامات کا اعتراف بھی ہے۔ یو اے ای 1989 سے ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے اقدامات کے لئے پرعزم ہے جب اُس نے اوزون کی تہہ کے تحفظ کے لیے ویانا کنونشن کی توثیق کی۔

یو اے ای 1995 میں یون این ایف ٹرپل سی کا رکن بنا اور 2005 میں کیوٹو پروٹوکول کی توثیق بھی کی۔

یہاں یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ کس طرح یو اے ای نے اپنی معیشت کے مختلف شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا ہے۔اس کا آغاز  کاپ 26 سے ہوتا ہے جب متحدہ عرب امارات اور امریکا نے مشترکہ طور پر ایک ایک تجویز پیش کی تھی جس کا نام

Agriculture Innovation Mission for Climate or AIM

تھا۔  اس پلان کا مقصد آئندہ 5 سال کے دوران کلائمٹ اسمارٹ ایگریکلچر اور فوڈ سسٹم کے اندر وسیع سرمایہ کاری کرنا تھا۔ متحدہ عرب امارات نے اس منصوبے کے لیے ایک ارب ڈالر اضافی دینے کا وعدہ کیاتھا ۔.

یو اے ای اُن ممالک میں سے ایک ہے جہاں میتھین گیس کا سب سے کم اخراج ہوتا ہے۔ حکومت پُر عزم ہے کہ 2023 کے اختتام تک میتھین کا اخراج 30 فیصد تک کم کر دیا جائے گا۔ مملکت امارات نے قابل تجدید توانائی کے ذرائع کو زیادہ سے زیادہ استعمال کرنے کے لیے جامع اقدامات کا اعلان بھی کر رکھا ہے۔  ترقی پذیر ممالک کو توانائی کی پیداوار کے پرانے طریقوں سے قابل تجدید ذرائع کی طرف لانے میں مدد کے لیے 400 ملین ڈالر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ وزارت توانائی اور انفرااسٹرکچر نے ایک بلیو پرنٹ ہائیڈروجن لیڈرشپ روڈ تیار کیا ہے۔  اس کا مقصد نہایت کم کاربن استعمال کرنے والی صنعتوں کے ذریعے ہائیڈروجن کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بنانا ہے۔
متحدہ عرب امارات کے پاس اپنی نوعیت کی پہلی
large scale carbon capture facility (CCUS)
بھی ہے۔ یہ یونٹ شمسی توانائی کی لاگت کم کرنے میں معاون ثابت ہے۔
متحدہ عرب امارات پیرس ایگریمنٹ پر عملدرآمد کےلئے بھی آگے بڑھ رہا ہے۔ اس نے موجودہ دہائی کے اختتام تک دس  ملین مینگروو کے درخت لگانے کی بھی منصوبہ بندی
کی ہے۔ حکومت نے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات کا سامنا کرنے والے جزائر پر مشتمل 27 ممالک کی مدد کے لئے 17 ارب ڈالر خرچ کئے ہیں۔

کوپ28 کے نامزد صدر ڈاکٹر سلطان بن احمد الجابر نے اس بڑی کانفرنس سے پہلے ہی عالمی برادری پر واضح کر دیا ہے کہ دنیا نے اپنی جو منزل متعین کی ہے، وہاں تک جانے کے لئے تمام ممالک کو شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔ دنیا کو گلوبل ساؤتھ کے لیے مزید اقدامات کرنا ہوں گے۔ ترقی یافتہ ممالک پہلے 100 ارب ڈالر کا وعدہ پورا کریں جو انہوں نے پیریس ایگریمنٹ کے تحت کیا تھا۔ اسی طرح دنیا کو 2030 تک وہ  رقم  تین گنا کرنے کی ضرورت ہے جو کلین ٹیکنالوجی کی سرمایہ کاری، فنانس اور ابھرتے ہوئے اور ترقی پذیر ممالک میں توانائی کی منصفانہ منتقلی کے لیے دستیاب ہونی  ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ فی الوقت کلائمٹ فنانس کہیں دستیاب ہی نہیں یا مستحق ملکوں کے لئے قابل رسائی نہیں۔ آب و ہوا اور ترقی کے دونوں اہداف حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی اداروں میں بنیادی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
دنیا کو پیرس معاہدے کے فوائد سے محروم ہونے اور آب و ہوا کے اہداف کو ختم کرنے کا خطرہ ہے۔ توانائی کی تیز رفتار، منصفانہ اور عملی منتقلی کی ضرورت ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ 2030 تک قابل تجدید صلاحیت کو تین گنا کرنے اور 2040 تک اسے 6 گنا بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہائیڈروجن اور کاربن کیپچر ٹیکنالوجیز جیسے زیادہ اخراج کرنے والے شعبوں کے لیے قابل عمل متبادل کی ترغیب دینے اور تجارتی بنانے کے لیے اسمارٹ حکومتی ضابطے کی ضرورت ہے۔ توانائی کے اُن ذرائع کو جاری رکھنے کی ضرورت ہے جن پر آج دنیا بھروسہ کرتی ہے۔

ڈاکٹر الجابر سمجھتے ہیں کہ یہ کاپ 28 ایسی ہونی چاہیئے جو شمال اور جنوب، حکومتوں اور صنعتوں، سائنس اور سول سوسائٹی کو متحد کرے۔  آئیے عالمی درجہ حرارت کو  1.5 ڈگری تک محدود رکھنے کے آئیڈیا کو زندہ رکھیں۔ تمام معاشروں اور تمام افراد کے لئے پائیدار معاشی اور سماجی ترقی یقینی بنائیں۔

کیوٹو پروٹوکول ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف بین الاقوامی جنگ میں تاریخی سنگ میل کی نمائندگی کرتا ہے۔ تمام ترقی یافتہ ممالک یہ مسلمہ حقیقت تسلیم کر چکے ہیں کہ کوئی ملک تنہا ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اس لئے پوری دنیا کو مل کر مشترکہ جامع اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ پوری دنیا اور خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک کو بہت امید ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ہونے والی کاپ 28 میں امیر ممالک اپنے وعدوں پر عمل کرنے کا عزم ظاہر کریں گے۔

تحریر: زینب وحید

تبصرے بند ہیں.