الطاف حسین اور عمران خان

85

گذشتہ دنوں عمران خان کو ایک عدالت میں آنکھوں پر کالا چشمہ پہنے دیکھا تو ہمیں اچانک متحدہ کے الطاف بھائی یاد آ گئے ۔ کالا چشمہ عموماََ دھوپ سے بچنے کے لئے لگایا جاتا ہے اور جو لوگ اس مقصد کے لئے کالا چشمہ لگاتے ہیں وہ بھی جب چھاﺅں میں یا کسی کمرے میں داخل ہوتے ہیں تو آنکھوں سے چشمہ اتار دیتے ہیں لیکن الطاف بھائی کے بعد عمران کو دیکھا کہ جو کمرے میں بھی کالا چشمہ لگا کر بیٹھے تھے ۔ الطاف بھائی جب یاد آئے تو ظاہر ہے کہ ان کی بہت سی باتیں بھی یاد آتی چلی گئیں اور ہم پر حیرت کے جہاں کھلتے چلے گئے کہ الطاف حسین اور عمران خان میں صرف کالے چشمہ کے حوالے سے ہی مماثلت نہیں پائی جاتی بلکہ اور بھی بہت سی باتوں میں حیرت انگیز طور پر مماثلت پائی جاتی ہے ۔ عمران خان کو جب بھی گھر پر پولیس کے چھاپہ کا ڈر محسوس ہوتا ہے تو وہ اپنے کارکنوں کو اپنے گھر کے باہر بلا لیتے ہیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ انھوں نے پنجاب پولیس کا 21گھنٹے مقابلہ کیا اور اس کی پٹرول بموں سمیت لاٹھیوں ڈنڈوں اور پتھروں سے خوب تواضع کی اور پنجاب پولیس کی ایسی شاندار حکمت عملی ہوتی ہے کہ مار بھی کھاتی ہے اور بدنامی بھی مول لیتی ہے ۔ اب یہی دیکھ لیں کہ زمان پارک میں ”کٹ“ کھانے کے بعد بھی اسے عقل نہیں آئی اور چوہدری پرویز الٰہی کو پکڑنے گئی تھی لیکن دروازہ چوہدری شجاعت کے گھر کا توڑ کر ایک جائز اور قانونی کام بھی ایسے بے ڈھنگے طریقہ سے کیا کہ ایک مرتبہ پھر ایسی نیک نامی کمائی کہ اپنے پرائے سب ہی نہ چاہتے ہوئے بھی تنقید کرنے پر مجبور ہو گئے ۔بات ہو رہی تھی کارکن جمع کرنے کی تو خان صاحب چونکہ ہر کام تاریخ ساز کرتے ہیں اسی لئے انھوں نے 2014میں 126کا دھرنا دے کر اب تک جو ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ہے وہ ابھی تک قائم ہے تو دنیا کا تو پتا نہیں لیکن پاکستان میں اپنے تحفظ کی خاطر الطاف بھائی کے بعد یہ کام عمران خان نے کیا ہے ۔ 6اپریل کو پاکستان پیپلز پارٹی کی طلبہ تنظیم پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کراچی کے صدر نجیب احمد ایک قاتلانہ حملہ میں شدید زخمی ہو گئے انھیں ہسپتال میں داخل کیا گیا لیکن 11اپریل کو ان کی موت ہو گئی ۔ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم میں شدید کشیدگی کا ماحول تھا اور اس بات کا امکان تھا کہ اس واردات کے رد عمل میں کہیں پی ایس ایف کی جانب سے ان کے گھر پر حملہ نہ ہو جائے کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی ملک کی مقبول ترین جماعت تھی اور اس کے پاس اسٹریٹ پاور کی کمی بھی نہیں تھی تو الطاف حسین نے اپنے تحفظ کے لئے 8اپریل سے لے کر14اپریل تک اپنے گھر میں بھوک ہڑتال کی اور اس وقت الطاف حسین کے گھر جسے نائن زیرو کہا جاتا تھا اس کے اطراف میں اس دوران ہزاروں کارکن دن رات موجود رہے اور عمران خان کو چونکہ ہر وقت ہی پولیس سے یا دیگر اداروں سے خطرہ رہتا ہے تو اس تناظر میں ان کے کہنے پر کئی ماہ سے سینکڑوں کارکنوں نے زمان پارک میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں ۔
بات مماثلت کی ہی چل نکلی ہے تو ایک اور مماثلت
کہ الطاف حسین بھی سیاست میں مذہب کا زبردست ٹچ دیا کرتے تھے ۔ وہ جب عمرہ کرنے گئے تو اس زمانے میں اخبارات کے دفاتر میں ان کی اتنی تصاویر آتی تھی کہ فیکس کے رول ختم ہو جاتے تھے اور کروٹن کے پتے پر الطاف بھائی کی شبیہ کسے یاد نہیں ہے اور کیسی حیرت کی بات ہے کہ الطاف حسین کو ان کے چاہنے والے انھیں پیر صاحب کہتے تھے
اور عمران خان کے چاہنے والے ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کو مرشد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔ الطاف حسین کو کارکنوں سے طویل خطاب کرنے کا بڑا شوق تھا اور سننے میں آیا ہے کہ جس وقت ایم کیو ایم ابھی اتنی مقبول نہیں تھی اور تنظیم سازی کے مراحل سے گذر رہی تھی تو الطاف حسین رات نو بجے اپنا لیکچر شروع کرتے تھے اور یہ لیکچر اکثر فجر کی اذان تک جاری رہتا تھا اور خان صاحب کو تقریر کرنے کا کس قدر شوق ہے اس کا اندازہ ان کے ٹی وی پر طویل خطابات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ایم کیو ایم کے کسی کارکن میں جرات نہیں تھی کہ وہ الطاف بھائی سے کوئی سوال کر سکے اور گذشتہ دنوں ایک کارکن کی جانب سے سوال پوچھنے پر جس طرح کا رد عمل عمران خان کی جانب سے آیا اسے دیکھ کر بھی الطاف بھائی کی یاد تازہ ہو گئی ۔ اس زمانے میں کراچی کی حد تک تو یہ بات کہی جا سکتی تھی کہ کوئی صحافی قائد تحریک کے مزاج کے خلاف ان سے سوال نہیں پوچھ سکتاتھااور آپ کو یاد ہے کہ گذشتہ سال پشاور میں پریس کانفرنس کے دوران کسی صحافی نے عمران خان سے ایک سوال کر دیا تھا جس نے خان صاحب کے مزاج کو اس حد تک برہم کر دیا تھا کہ وہ غصہ کی حالت میں پریس کانفرنس ہی چھوڑ کر چلے گئے تھے ۔ ناپسندیدہ سوالات سے بچنے کے لئے عمران خان ہم خیال اینکرز اور صحافیوں کے علاوہ کم ہی کسی اور کا سامنا کرتے ہیں ۔
الطاف حسین قائد تحریک بننے سے پہلے یقینا جیل گئے تھے لیکن درجنوں مقدمات کے باوجود بھی انھوں نے پھر کبھی جیل جانا پسند نہیں کیا اور ابھی تک عمران خان کا بھی یہی ریکارڈ ہے کہ کسی میں جرات نہیں ہے کہ انھیں گرفتار کر سکے بلکہ ان کا تو عدالتوں سے انصاف لینے کا طریقہ ہی بڑا عجیب ہے ۔ ایسے لگ رہا ہوتا ہے کہ وہ عدالت سے استدعا نہیں کر رے بلکہ حکم دے رہے ہیں یعنی ان کا انداز دیکھیں کہ استدعا کی جا رہی ہے کہ ہماری درخواست کو آج ہی سنا جائے اور صرف آج ہی نہیں بلکہ فوری سنا جائے ۔ فلاں مقدمہ میں نیب کو یا ایف آئی اے کو تفتیش سے روکا جائے ۔ عید کی چھٹیوں میں مجھے گرفتار کرنے کے لئے زمان پارک میں آپریشن کا خدشہ ہے اسے روکنے کا حکم دیا جائے اور عدالتیں اکثر اوقات ان کی ہر استدعا پر من و عن عمل بھی کرتی ہیں ۔ الطاف حسین بھی اسٹبلشمنٹ کے سہاروں کے بغیر سیاست کے عادی نہیں تھے اور یہی حال عمران خان کا ہے ۔ انھیں بھی سیٹیں جتوائی جاتی تھیں اور 2018میں جو کچھ ہوا اور کس طرح نتائج مرتب کئے گئے اس سے کون واقف نہیں ۔ عمرن خان کی 2014کے دھرنوں کی تقاریر اٹھا کر دیکھ لیں یا موجودہ دور کی ۔ انھوں نے سرکاری عہدیداروں سے لے کر خاتون جج تک کو دھمکیاں دیں ۔ اس ضمن میں فرق صرف یہ ہے کہ الطاف حسین دھمکیاں نہیں بلکہ ان پر عمل بھی کرتے تھے ۔ایک اور بہت بڑی حیرت انگیز مماثلت کہ الطاف بھائی کا کاروبار سیاست بھی کلی طور پر چندے (بھتہ) پر چلتا تھا اور خان صاحب کا بھی اب تک ذریعہ آمدن نظر نہیں آیا اور بظاہر ان کا کام بھی چندے پر ہی چلتا ہے اور کچھ آڈیو لیکس سے تو پتا چلتا ہے کہ ان سے ملاقات کے اور الیکشن میں ٹکٹوں کی درخواستوں سے لے کر ٹکٹوں کے حصول تک کے نرخ مقرر ہیں قائد تحریک الطاف حسین اور عمران خان دونوں کی اپنے مخالفین کے متعلق سوچ یہی ہے کہ
سنجیاں ہو جان گلیاں
وچ مرزا یار پھرے
قارئین ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے لیکن دامن کالم میں گنجائش ختم ہو گئی لہٰذا اسے ہی انجوائے کریں باقی پھر سہی ۔

تبصرے بند ہیں.