یہ چھاپہ تھا یا حملہ……؟

72

کسی پرمقدمہ درج ہو چکاہو تو قانون نافذ کرنے والے اِداروں کی طرف سے گرفتار کرنے کی کوشش حیران کُن نہیں ہوتی اِس کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِدارے چھاپوں سے بھی گریز نہیں کرتے مگر چھاپے کی طرف جانے سے قبل عدالت سے سرچ ورانٹ لیا جاتا ہے جوکسی معقول جواز کی بنا پرہی عدالت جاری کرتی ہے سرچ وارنٹ کے باجود انسانی حقوق اور چادرو چاردیواری کا تقدس ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے مگرجمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اینٹی کرپشن اور پولیس نے مشترکہ چھاپے میں جو کچھ لاہور چوہدری پرویز الٰہی کے گھر کیا اُسے کسی صورت چھاپہ نہیں کہہ سکتے بلکہ ایسا حملہ تھا جس کا مقصدصرف اپوزیشن رہنما کو سبق سکھاناتھا اگر یہ چھاپہ ہوتا تو پولیس اور اینٹی کرپشن والے پہلے عدالت سے سرچ وارنٹ حاصل کرتے حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جس مقدمے کی آڑمیں چھاپہ مارا گیا اُس میں چوہدری پرویز الٰہی کی چھ مئی تک عبوری ضمانت ہے جس کا مطلب ہے کہ وہ موجودہ نظامِ انصاف پر اعتمادکرتے اور اسی سے انصاف حاصل کرنا چاہتے ہیں اِسی بناپرچھاپے کا جوازہی نہیں رہتاکیو نکہ مطلوب نہ تو اشتہاری تھے بلکہ عدالت سے عبوری ضمانت ملنے کے بعداپنی معمول کی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے اُن کا ملک سے فرار کابھی کوئی خدشہ نہیں اسی لیے کہہ سکتے ہیں کہ یہ چھاپہ نہیں بلکہ حملہ تھا حملے سے اپوزیشن کے صفِ اول کے رہنما کودھمکایااور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
چھاپے کے لیے قانون نافذ کرنے والے اِدارے جب کہیں جاتے ہیں توسب سے پہلے اہلِ خانہ کو سرچ ورانٹ دکھاتے ہیں پھر گھرداخل ہوتے ہیں اگر کوئی رخنہ ڈالے یا رکاوٹ بنے تو ایسے شخص کے خلاف قانونی کاروائی کا جواز بنتا ہے جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب اینٹی کرپشن اور پولیس کی کاروائی کسی حوالے سے بھی قانون کے مطابق نہیں تھی جس کسی قانونی ماہر سے اِس بابت گفتگو ہوئی سب کا یہی کہناہے کہ یہ کاروائی اختیارات سے بالاتر اور غیرقانونی ہے کیونکہ قانون میں ایسی کوئی دفعہ نہیں جو کسی بھی اِدارے کو بلاجواز چڑھائی کی اجازت دیتی ہو یہ کھلم کھلا حملہ ہے ایک ایسا مقدمہ جس میں ضمانت قبل ازگرفتاری ہوچکی ہوکوجوازبناکر کسی کے گھر چڑھ دوڑناواضح طورپر توہینِ عدالت ہے اِس کے خلاف متاثرہ فریق اگر عدالت جائے تو
ذمہ داران کو لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں قانونی اختیارات سے تجاوز کی بنا پر ذمہ داران کو سزا مل سکتی ہے۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ذرائع ابلاغ کی وساطت سے حملے کے مناظر پاکستانیوں نے دیکھے تو ششدر رہ گئے ایسے لگ رہا تھا کہ یہ کسی سیاستدان کا گھر نہیں بلکہ کسی غیر ملکی جاسوس کا ہیڈ کوارٹر ہے۔
موجودہ حکومت میں شامل اکثر چہروں پر بدعنوانی کے الزامات ہیں جن میں وزیرِ اعظم سے لیکر وزرا تک اور مریم نواز سے لیکر میاں شہبازشریف کے صاحبزادوں نے ضمانتیں کرارکھی ہیں اِن کو آتے جاتے پولیس نہ صرف تحفظ دیتی ہے بلکہ پروٹوکول پر بھی مامورہے چوہدری پرویز الٰہی دوبار ملک کے سب سے بڑے صوبے کے منتخب وزیرِ اعلٰی،دوبار اسپیکر پنجاب اسمبلی، ایک بار اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی،ملک کے نائب وزیر اعظم سمیت کئی بار صوبائی وزیر کے طورپرکام کر چکے ہیں وہ اِس وقت اپوزیشن جماعت کے مرکزی صدر ہیں اُن کا واحد جرم جو اِس وقت نظر آتا ہے وہ حاکمانِ وقت کی پالیسیوں پردلیری سے تنقید کرنا ہے یہ کوئی جرم نہیں حالانکہ ہر جمہوری ملک میں حکومت کی ایسی پالیسیاں جو عوامی مفاد کے منافی ہوں اپوزیشن کی طرف سے ہدفِ تنقید بنائی جاتی ہیں جس کا مقصدحکومت کی اصلاح ہوتاہے حکومت بھی اپوزیشن کی تجاویز کی روشنی میں اپنی پالیسیوں پرنظرثانی کرتی اور بہتر بناتی ہے لیکن موجودہ حکومت نے تنقید کو جرم بنادیا ہے اختلافِ رائے تو جمہوریت کا حسن ہے مگرحکمران اختلافِ رائے کو برداشت کرنے سے انکاری ہیں یہ طرزِ عمل جمہوری اصولوں کے منافی ہے یہ جمہوریت کی خدمت نہیں بلکہ کمزور کرنے کے مترادف ہے۔
حیران کُن پہلو یہ ہے کہ اینٹی کرپشن اور پولیس نے ایسے وقت کاروائی کی جب نگران وزیرِ اعلٰی محسن نقوی ملک میں موجود نہیں بلکہ عمرے کے لیے سعودی عرب ہیں اسی طرح آئی جی پنجاب اور سی سی پی او لاہور بھی ملک سے باہر ہیں وزیرِ داخلہ راناثنااللہ اور محسن نقوی دونوں نے پولیس گردی سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ طلب کرلی ہے شہبازشریف نے بھی کہا ہے اِس کاروائی کا وفاقی حکومت سے کوئی تعلق نہیں جس کی بناپر پولیس کا دیدہ دلیری سے معروف سیاسی رہنما کے گھر چڑھائی اور حملہ ناقابلِ فہم ہے وفاقی حکومت کی لاعلمی اور اعلیٰ پولیس افسروں کی عدم موجودگی میں یہ حیران کُن ہے جس کی گہرائی تک انکوائری ہونی چاہیے اسی طرح کا واقعہ زمان پارک میں بھی پیش آیا جب عمران خان کی غیر موجودگی میں چھاپہ مارا ویسا ہی چوہدری پرویز الٰہی کے گھر ہواجہاں چادر اور چار دیواری کی دھجیاں تو اُڑائی ہی گئیں مگر ایسی خواتین جن پرآج تک کبھی کسی غیر محرم کی نظر تک نہیں پڑ ی سے بھی مجرموں والا سلوک کیا گیا گھریلو اور بے گناہ خواتین سے ایسے سلوک کی قانون میں کوئی گنجائش نہیں، پولیس گردی کے تمام مناظرایک طرف ذرائع ابلاغ نے پورے ملک کو دکھادیے ہیں پھر بھی دھونس کا مظاہرہ کرتے ہوئے دہشت گردی سمیت کئی دفعات لگا کر متاثرین کے خلاف ہی مقدمہ درج کر لیا گیا ایک جرم کو چھپانے کے لیے دوسرا جرم۔ اب وقت آگیا ہے کہ پولیس کو قانون و قاعدے کا سختی سے پابند بنایا جائے وگرنہ یاد رکھیں ابھی تو یہ حملہ عمران خان اور پرویز الٰہی کے گھروں پر ہوا ہے کل کو اور بھی سیاستدان زیرِ عتاب آسکتے ہیں اگر پولیس گردی کا خاتمہ کرنا ہے تو غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ساتھ ذمہ داران کے خلاف بلا امتیاز سخت ترین کارروائی کرناہوگی تاکہ مستقبل میں مزید کوئی سیاستدان ایسے کسی حملے کا نشانہ نہ بن سکے۔

تبصرے بند ہیں.