پی ٹی آئی کو بال اُگنے کے بعد دعوت دی جائے گی

41

ایک دفعہ کا ذکر ہے کسی ملک کے پارلیمان میں بہت ہلچل مچ گئی۔ اس کی وجہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں تھا بلکہ ایک وزیر کا سر اچانک استرے سے منڈا ہوا پایا گیا تھا۔ ایک دن پہلے تک اس وزیر کے سرپر خوبصورت گھنگھریالے لمبے بال تھے لیکن اب وہ نہیں تھے۔ پارلیمان کے اراکین اس وزیر کو دیکھ دیکھ کر سرگوشیاں کرنے لگے کہ وزیر کے ساتھ کیا معاملہ ہوا ہوگا؟ سب قیاس آرائیاں کررہے تھے۔ کسی نے کہا کہ سر میں جوؤں کے باعث بال منڈوا دیئے گئے ہوں گے۔ کسی نے کہا کہ ہو سکتا ہے دماغ کو تروتازہ کرنے کے لیے بالوں کے بوجھ کو ختم کردیا گیا ہو۔ کسی نے کہا کہ شاید وزیر کے اہل خانہ میں کوئی موت واقع ہوگئی ہوگی جس کے سوگ میں انہوں نے سرمنڈوا لیا۔ پارلیمنٹ کے ایک رکن نے پوائنٹ آف آرڈر پر سپیکر کو مخاطب کرکے سوال کیا کہ کیا ہم جان سکتے ہیں کہ معزز وزیر کے اہل خانہ میں کوئی فوت ہوا ہے؟ اس پر وزیر موصوف نے جواب دیا نہیں۔ ایوان میں پھر سرگوشیاں شروع ہوئیں کہ کہیں اپوزیشن والوں نے ہی وزیر کا سر منڈوا نہ دیا ہو کیونکہ وہی وزیر اپوزیشن کے خلاف بل منظور کرانے والے تھے۔ ایک ممبر نے کھڑے ہوکر سپیکر سے پوچھا کہ جناب سپیکر کیا وزیر موصوف کو معلوم بھی ہے کہ ان کا سر منڈا ہوا ہے اور کیا وہ بتانا پسند کریں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟ وزیر نے بڑے نرم لہجے میں جواب دیا کہ میں یقین کے ساتھ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا سر منڈا ہوا ہے یا نہیں۔ اس پر بہت سے ممبران یک زبان ہوکر چیخے کہ آپ کا منڈا ہوا سرہر کوئی دیکھ سکتا ہے۔ وزیر نے جواب دیا ہمیں ہرکسی کی بات پر کان نہیں دھرنے چاہئیں۔ یہ صرف حکومت بتا سکتی ہے کہ میرا سر منڈا ہوا ہے یا نہیں۔ ایک رکن پارلیمنٹ نے طنزیہ لہجے میں کہا کہ اس کی تصدیق ابھی ہوسکتی ہے، وزیر موصوف اپنے سرپر ہاتھ پھیر کر دیکھ لیں۔ وزیر نے بڑی بردباری اور تحمل سے جواب دیا کہ میں اپنے سرپر ہاتھ نہیں پھیروں گا۔ حکومت کو کوئی جلدی نہیں ہے۔ البتہ میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ اس بارے میں پوری تحقیقات کی جائیں گی اور رپورٹ ایوان کے سامنے پیش کی جائے گی۔ ممبران نے بنچوں پر کھڑے ہوکر اعتراض کیا کہ اس معاملے میں حکومتی تحقیقات کی کیا ضرورت ہے؟ منڈا ہوا سر وزیر موصوف کا ہے، وہ اپنے ہاتھ سے خود چیک کرلیں کہ ان کے سرپر بال ہیں یا نہیں۔ وزیر نے کہا میں ممبران سے اتفاق کرتا ہوں کہ سر میرا ہے اور ہاتھ بھی میرے ہیں لیکن ہمارے ہاتھ قوانین سے بندھے ہوئے ہیں۔ میں قوانین کو بالائے طاق نہیں رکھ سکتا۔ حکومت قوانین کے تحت چلتی ہے۔ میں اپوزیشن کے دباؤ میں اس نظام کو توڑ نہیں سکتا۔ میں پارلیمنٹ کے شام والے اجلاس میں اس حوالے سے پالیسی بیان دوں گا۔ شام کے اجلاس میں وزیر نے ایک بیان دیا۔ جناب سپیکر ایوان میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ میں نے سرمنڈوایا تھا یا نہیں؟ اگر یہ ہوا ہے تو پھر یہ کس نے کیا؟ یہ سوالات بہت پیچیدہ اور حساس ہیں۔ حکومت اس پر جلدبازی میں فیصلہ نہیں لے سکتی۔ میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ میرا سرمنڈا ہوا ہے یا نہیں۔ جب تک تحقیقات مکمل نہیں ہو جاتیں، حکومت اس سلسلے میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔ ہماری حکومت تین اراکین پارلیمنٹ پرمشتمل ایک انکوائری کمیٹی تشکیل دیتی ہے جو اس معاملے کی باریک بینی سے تحقیقات کرے گی۔ میں انکوائری کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کروں گا۔ ممبروں نے کہا یہ قطب مینار کا معاملہ نہیں ہے جو برسوں تک تفتیش کے لیے کھڑا رہے گا۔ یہ آپ کے بالوں کا معاملہ ہے جو بڑھتے اور کٹتے رہتے ہیں۔ اس معاملے کا فیصلہ فوری ہوسکتا ہے۔ وزیر نے جواب دیا ممبروں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ قطب مینار سے میرے بالوں کا موازنہ کرکے میرا استحقاق مجروح کریں۔ جہاں تک اصل مسئلے کا تعلق ہے، حکومت انکوائری سے پہلے کچھ نہیں کہہ سکتی۔ انکوائری کمیٹی اس معاملے پر ہرپہلو سے ہفتوں تحقیق کرتی رہی۔ اس دوران وزیر موصوف کے بال بڑھتے رہے۔ کچھ مہینوں بعد وزیر نے انکوائری کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کردی۔ انکوائری کمیٹی کا فیصلہ یہ تھا کہ وزیر کا سرمنڈا ہوا نہیں ہے۔ حکمران جماعت کے ممبروں نے خوش دلی سے ڈیسک بجاکر اس رپورٹ کا خیرمقدم کیا۔ اپوزیشن کی طرف سے شیم شیم اور کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ اپوزیشن والے احتجاجاً نعرے لگاتے ہوئے سپیکر کے ڈائس کے سامنے آگئے۔ ان کا کہنا تھا کہ رپورٹ جھوٹ پر مبنی ہے کیونکہ وزیر موصوف کا سرمنڈا ہوا تھا۔ اس موقع پر وزیر موصوف مسکراتے ہوئے کھڑے ہوئے اور سپیکر سے بات کرنے کی اجازت چاہی۔ اجازت ملنے پر وزیر موصوف نے اپوزیشن کو کہا کہ میرا سرمنڈا ہوا ہونا آپ کا خیال ہوسکتا ہے جس کے لیے ثبوت کی ضرورت ہے۔ اگر آپ اِس وقت میرے سرکو دیکھ کر ثبوت پیش کرتے ہیں تو میں آپ سے اتفاق کرلوں گا۔ یہ کہہ کر وزیر موصوف نے بڑے فخریہ انداز سے اپنے نئے اُگے ہوئے گھنگھریالے بالوں پر ہاتھ پھیرا اور ایوان دوسری قانون سازی میں مصروف ہوگیا۔ ہمارے ہاں اِن دنوں پنجاب اور کے پی کے کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے پی ٹی آئی عدلیہ کے ذریعے پارلیمان پر اپنا دباؤ ڈال رہی ہے لیکن پارلیمان پی ٹی آئی کے اس تُرپ کے پتے کے ساتھ آئین کے اندر رہتے ہوئے کھیل کھیل رہی ہے۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ پی ٹی آئی کا یہ دباؤ پارلیمان نے ناکام بنا دیا ہے لیکن بظاہر اس جیت کا اعلان پارلیمان نہیں کررہی، وہ صرف وقت حاصل کررہی ہے اور جب وقت گزر جائے گا تو وہ پی ٹی آئی کو دعوت دے گی کہ آؤ دیکھ لو ہمارے سرپر بال موجود ہیں۔ یوں عوام حسبِ سابق اپنے اپنے وقت کی حساس خبروں کو پیچھے چھوڑکر نئی خبروں کے شور شرابے میں گم ہو جائیں گے۔ یعنی بال اُگ جانے کے باعث منڈے ہوئے سرکا کوئی ثبوت باقی نہیں رہے گا۔

تبصرے بند ہیں.