پچھلی دہائی میں جب دھرنوں اور مارچ کی سیاست عروج پر تھی تو علامہ طاہر القادری نے سیاست نہیں ریاست بچاؤ کا نعرہ لگایا تھا،اس وقت عمران خان اور علامہ قادری بھائی بھائی تھے، اسے ایک سیاسی نعرہ قرار دیا جاتا تھا اور یہ بھی کہا جاتا تھا کہ یہ کسی کے کہنے پر لگایا جا رہا ہے، عمران خان اقتدار میں اور علامہ قادری کینیڈا میں جا بسے تو اس نعرے کی آواز بھی دب گئی،سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے رہے اور نعرے بھی بدلتے رہے مگر محسوس ہو رہا ہے کہ سیاست نہیں ریاست بچائیں کا نعرہ لگانے کا وقت پھر آ گیا ہے،دیکھتے ہیں یہ نعرہ اب کونسی جماعت اور لیڈر لگاتا ہے، حقیقت میں ریاست پر یہ کڑا وقت ہے اور ریاست کو بچانے کے لئے فوج سمیت ہمارے ملک کے تمام اداروں نے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کردار اب پاکستان کے حقیقی وارث عوام کو ادا کرنا ہوگا۔
مجھے یہ سب باتیں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف چودھری کی حالیہ پریس کانفرنس کے بعد یاد آ رہی ہیں، بد قسمتی سے آج سیاسی مقاصد کیلئے پاک فوج جیسے اہم ادارے کے افسروں پر تنقید کے نشتر برسائے جا رہے ہیں،جو ایک اچھی بات نہیں ہے مگر جس حکومت نے اس تنقید کو روکنا ہے اس کی مرکزی قیادت خودسابق و حاضر سروس چیف جسٹس اور جج صاحبان اور دوسرے اداروں کے سربراہوں پر شب و روز تنقید کے نشتر برسا رہی ہے،یہ سلسلہ بھی ختم کرنا بہت ضروری ہے ورنہ ریاستی ادارے کمزور ہوئے تو ریاست بھی مستحکم نہیں رہے گی۔ترجمان مسلح افواج نے اپنی پریس بریفنگ میں افواج پاکستان کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں،ملکی سیاسی معاملات اور حالیہ دہشتگردی کے خلاف کئے جانے والے اِقدامات پر سیر حاصل روشنی ڈالی،انہوں نے بڑی اہم بات کہی کہ فوج کا حکومت سے ایک آئینی رشتہ ہوتا ہے اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے، جبکہ تمام سیاسی جماعتیں فوج کے لئے قابل احترام ہیں فوج کسی جماعت یا نظریے کی طرف راغب نہیں۔ان کی بات درست ہے فوج کے کسی ایک فرد کے ذاتی کردار یا رویے کو بنیاد بنا کر پاک فوج کے باقی افسروں اور جوانوں کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا،ان حالات میں پاک فوج پر تنقید کا مقصد بھارت اور پاکستان دشمنوں کو موقع دینا ہے جس سے اجتناب کرنا ضروری ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ آئی ایس پی آر کو بھی مختلف معاملات پر شفاف پوزیشن دیتے رہنا چاہئے،تاکہ کسی کو انگلی اٹھانے کا موقع نہ مل سکے۔
فوج کسی بھی ملک کی جغرافیائی سرحدوں کی ضامن ہوتی ہے،خارجی امن کے ساتھ داخلی امن کے قیام میں بھی معاون،جغرافیائی کیساتھ نظریاتی سرحدوں کی بھی محافظ ہوتی ہے،ملکی سلامتی،قومی یکجہتی کی پاسبان ہماری مسلح افواج نے ہر دور میں ہر قسم کے حالات میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو مہارت اور جانفشانی سے نبھایا،اس مقصد کیلئے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے لازوال اور بے مثال قربانیاں دے کر تاریخ رقم کی، مسلح افواج کی قربانیوں،شہادتوں،محنت ریاضت ملک وقوم کیلئے خدمات کا احاطہ ممکن نہیں، پاکستان کے سب سے بڑے شہر کی طرف نظر دوڑائیں،پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کا کراچی میں قیام امن اور اسے مافیاز سے نجات دلانے کا کارنامہ ہی سنہرے الفاظ میں لکھے جانے کے قابل ہے،کراچی جو کبھی عروس البلاد کہلاتا تھا ایک مدت اندھیروں میں ڈوبا رہا،اغواء برائے تاوان،بوری بند لاشیں،نجی ٹارچر سیلوں میں مخالفین پر بہیمانہ تشدد،شہر ٹکڑوں میں تقسیم ایک ٹکڑا کسی کیلئے ”نو گو ایریا“تو دوسرا ٹکڑا دوسرے کیلئے”نو گو ایریا“تھا،کاروبار کرنے،مکان تعمیر کرنے کیلئے بھتہ دینا ٹیکس کی ادائیگی سے زیاہ ضروری تھا،مگر پاک فوج کے جوانوں اور افسروں نے دن رات ایک کر کے اس روشنیوں کے شہر کی رونقیں لوٹائیں،شہر قائد جو کاروباری حب تھا،اس میں کاروبار کیلئے ماحول کو سازگار بنایا،فوجی افسروں جوانوں کی ان قربانیوں کے باعث دو کروڑ سے زائد آبادی کے شہر نے سکھ کا سانس لیا ہے۔
بلوچستان میں بھی مٹھی بھر لوگ ریاست کیلئے خطرہ بنے ہوئے تھے،قتل و غارت،خوں ریزی،دھماکے،دیگر صوبوں کے لوگوں کو چن چن کر قتل کرتے تھے،آج بھی یہ لوگ اپنے مزموم ہتھکنڈوں میں مشغول ہیں،نتیجے میں آئے روز سکیورٹی فورسز کے افسر اور جوان وطن پر قربان ہو رہے ہیں مگر بلوچستان کے باسی رات کو سکھ کی نیند سوتے ہیں،کے پی کے خاص طور پر ضم شدہ اضلاع میں آج بھی صورتحال مخدوش ہے مگر چند ماہ قبل یہ علاقہ دہشت گردوں کا گڑھ تھا،لیکن آج بڑی حد تک علاقہ کو دہشت گردوں اور دہشت گردی سے پاک کر دیا گیا ہے اور اس کے لئے مسلح افواج کے افسروں اور جوانوں نے ہی قربانیاں دیں جس کا نتیجہ ہے کہ سابق قبائیلی علاقے دہشت گردوں کے نرغے سے آزاد ہو چکے ہیں۔
ترجمان پاک فوج نے بتایا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کے بعد افغانستان میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں رواں سال میں مجموعی طور پر چھوٹے بڑے دہشتگردی کے436 واقعات رونما ہوئے،رواں سال سیکورٹی فورسز نے دہشتگردوں اور اْن کے سہولت کاروں کے خلاف 8269 چھوٹے بڑے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کئے،عوام اور افواجِ پاکستان کی لازوال قربانیوں کی بدولت آج ملک میں کہیں کوئی نو گو ایریا نہیں ہے،انہوں نے بتایارواں سال آپریشنز کے دوران 137 آفیسرز اور جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ117آفیسرز اور جوان زخمی ہوئے،پْوری قوم اِن بہادر سپوتوں اور اِن کے لواحقین کو خراجِ تحسین پیش کرتی ہے جنہوں نے اپنی قیمتی جانیں ملک کی امن و سلامتی پر قربان کر دی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے درست کہا کہ موجودہ حالات میں قومی اتفاق رائے ہونا چاہئے،مارشل لا اور ایمر جنسی محض قیاس آرائیاں ہیں،میڈیا اور سوشل میڈیا پر افواج پاکستان اور اداروں کے خلاف بات نہ صرف غیر ذمہ دارانہ بلکہ غیر آئینی ہے،اس کے پیچھے کچھ ذاتی اور کچھ سیاسی مقاصد بھی ہیں۔ان کی باتیں درست ہیں مگر اس سلسلے میں ہم سب کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہو گا، حکومت،عدلیہ،فوج،انتظامیہ اور عوام کو مل جل کر پاکستان کو ایک خوشحال، پرامن مْلک بنانے کیلئے اپنا اپنا انفرادی اور اجتماعی کِردار اَدا کرتے رہنا ہو گا،یہ بات ہر پاکستانی کا نظریہ حیات اور عزم ہونا چاہئے،ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کی راہ میں سب سے زیادہ حائل ہماری خود غرضی،ذاتیات،دولت کی ہوس،اقتدار کی حرص ہے۔
مسلح افواج نے اندرونی اور بیرونی خطرات کا جی جان سے مقابلہ کیا،وطن عزیز پر اپنی جانیں نچھاور کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا،اسی جذبہ کی آج ہر شہری اور ادارے کو اپنے اندر زندہ کرنے کی ضرورت ہے،اگر ہم سب اپنا قومی فرض سمجھ کر دہشت گردی،وطن فروشی پر نگاہ رکھتے تو مختصر وقت اور قربانیوں سے کامیابی حاصل کی جا سکتی تھی تمام ادارے خود کو پاکستانی بنائیں اپنی اپنی سیاست بچانے کی بجائے ریاست کو بچانے کے لئے کردار ادا کریں،وطن میں کما کر بیرون ملک دولت کو سمیٹنے کے بجائے مٹی کا قرض اتاریں تو ہم تب ہی ایک طاقتور اورخوشحال ریاست بن سکتے ہیں۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.