آزادکشمیرمیں کرتارپور طرزراہداری؟

45

بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ 22مارچ کو ٹیٹوال کپواڑہ کے کرناہ سیکٹر میں لائن آف کنٹرول کے قریب شاردا دیوی کے مندر کاویڈلنک کے ذریعے افتتاح کرتے ہیں اوراس موقع پرفرماتے ہیں کہ یہ ایک نئی صبح کا آغاز ہے جو ماتا شاردا دیوی کے آشیرواد اور لائن آف کنٹرول کے دونوں جانب سول سوسائٹی سمیت لوگوں کی مشترکہ کوششوں سے ممکن ہوا ہے، کرتاپورراہداری کی طرزپرایل اوسی کے پارشارداپیٹھ مندرکھولنے کی بھی کوشش کریں گے۔(واضح رہے کہ شاردا پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے وادی نیلم میں ہندوؤں اور بدھ مت کے ماننے والوں کا ایک قدیم مقدس مذہبی مقام ہے جہاں شاردا مندر اور یونیورسٹی کی صدیوں پرانی باقیات آج بھی موجود ہیں)
اس کے ٹھیک ایک ہفتے بعدیعنی29مارچ کوآزادکشمیرقانون سازی اسمبلی میں حکمران جماعت کے ممبر جاویدیٹ ایک قراردادپیش کرتے ہیں اوریہ قراردادچندمنٹوں میں پاس ہوجاتی ہے اس قراردادمیں پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں سے مطالبہ کیا جاتاہے کہ لائن آف کنٹرول کے آر پار بسنے والے کشمیریوں کے آپس میں ملنے کے لیے کرتار پور طرز کی راہداری بنائی جائے۔بھارتی وزیرداخلہ کے بیان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی کی طرف سے یہ قرارادنہایت معنی خیزہے۔
اس قراردادکی منظوری کے بعد بھارت میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے ایک ٹی وی شو میں سابق بھارتی فوجی اور دفاعی تجزیہ نگار گوروئیو آریا نے کہا کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وزیر داخلہ امت شاہ نے آزاد کشمیر میں ’بی جے پی‘ کا علاقائی دفتر قائم کر لیا ہے، ہم ویسے ہی تو امت شاہ کو چانکیہ جی نہیں کہتے۔ ہندوستانی میڈیا چیخ چیخ کر ڈھنڈورہ پیٹتارہا کہ کشمیر اسمبلی کی یہ قرارداد ان کے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
9نومبر2019 کو ہندوستانی حکومت کی1999کی ایک درخواست پر سکھوں کا ایک مقدس مقام کرتار پور کھولا گیا، جو نارووال کے قریب سرحد کے ساتھ واقع ہے، اس مقام پہ آنے کے لئے دونوں طرف سے اجازت نامے کی شرط عائد کی گئی۔منقسم ریاست جموں وکشمیر کی حیثیت ہندوستانی اور پاکستانی پنجاب سے قطعی مختلف ہے۔ہندوستانی پنجاب اور پاکستانی پنجاب دونوں ملکوں میں مستقل طورپر تقسیم ہو چکا ہے اور دونوں کے درمیان انٹرنیشنل بارڈر قائم ہے جبکہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی صورتحال اس سے قطعی طور پر مختلف ہے، مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر عالمی سطح پہ تسلیم شدہ متنازع خطہ ہے۔آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کے درمیان پائی جانے والی سیز فائر لائن یا حد متارکہ ایک عارضی لائن ہے کوئی مستقل سرحد نہیں۔اس لیے کرتارپورطرز پر کوریڈور کا قیام کسی طور بھی کشمیریوں اور پاکستان کے حق میں نہیں بلکہ اس سے بھارت کے موقف کو تقویت ملے گی کیونکہ بھارت اس عارضی لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔
پاکستان کی سرحدیں چار ممالک سے لگتی ہیں۔ پاکستان کی سرحد کا سب سے چھوٹا حصہ چین سے متصل ہے اور یہ سرحد 599 کلومیٹر لمبی ہے۔اس کے بعد ایران آتا ہے جس کی سرحد پاکستان کے مغرب میں 909 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ پورا علاقہ صوبہ بلوچستان میں آتا ہے۔پاکستان کی 2611 کلومیٹر طویل سرحد افغانستان کے ساتھ ہے۔ صوبہ بلوچستان اور خیبر پختونخوا افغان سرحد سے متصل ہیں۔پاکستان کی سرحد کا سب سے بڑا حصہ انڈیا کے ساتھ ملتا ہے۔ انڈیا کے ساتھ اپنی سرحد کو پاکستان مشترکہ طور پر بین الاقوامی سرحد، ورکنگ باؤنڈری اور لائن آف کنٹرول (ایل او سی)کے طور پر تقسیم کرتا ہے۔ انڈیا کے ساتھ یہ سرحد تین ہزار 163 کلومیٹر لمبی ہے۔
لائن آف کنٹرول جنوبی کشمیر، وادی اور کارگل کو پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر اور بلتستان سے الگ کرنے والی سرحد ہے۔ یہ بھمبر، گجرات سے لے کر گلگت، بلتستان تک پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور بھارت کے زیرانتظام جموں وکشمیر کے درمیان واقع ہے۔740کلومیٹرسے زائداس سرحدی لکیر پر دونوں ممالک کے درمیان 1949 میں اقوام متحدہ کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی تھی۔ تب یہ سیز فائر لائن کہلاتی تھی، بعد میں 1972 میں شملہ معاہدے کے وقت اس کو لائن آف کنٹرول کا نام دے دیا گیا۔اسی طرح سیالکوٹ اور مقبوضہ کشمیر پر 202 کلو میٹر کی سرحد کو ورکنگ باؤنڈری کہا جاتا ہے۔
بھارت اورچین کے درمیان متنازع علاقے کولائن آف ایکچوئل کہاجاتاہے،دونوں ممالک کے درمیان واقع مشترکہ سرحد کی لمبائی 3488کلومیٹر ہے۔ یہ سرحد جموں وکشمیر، ہماچل پردیش، اتراکھنڈ، سکم اوراروناچل پردیش میں انڈیا سے جا ملتی ہے جسے تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مغربی سیکٹرجموں و کشمیر، مڈل سیکٹر ہماچل پردیش اوراتراکھنڈ جبکہ مشرقی سیکٹر سکم اور اروناچل پردیش پر مشتمل ہے۔ اس تنازعے کے باعث دونوں ممالک کے درمیان تاحال سرحد کی مکمل حد بندی نہیں ہو سکی۔ لہٰذا جس ملک کا جس علاقے پر قبضہ ہے وہ اسے لائن آف ایکچوئل کنٹرول(ایل اے سی) کی وساطت سے اپنا علاقہ گردانتا ہے۔
سات سو 40 کلومیٹر لائن آف کنٹرول میں سے ساڑھے پانچ سو کلو میٹر حد بندی کو بھارت نے2004 تک آٹھ تا 12 فٹ اونچی دوہری برقی باڑھ لگا کے قلعہ بند کر دیایہ باڑھ بھارت کے زیرِ انتظام علاقے میں ڈیڑھ سو گز اندر بنائی گئی۔ دونوں باڑھوں کے درمیانی رقبے میں بارودی سرنگیں بھری پڑی ہیں۔کسی بھی انسانی نقل و حرکت کی فوری اطلاع کے لیے الارم، موشن سنسرز اور تھرمل امیجنگ آلات بھی نصب ہیں اور سنتریوں کے پاس رات کو دیکھنے والی دور بینیں بھی ہیں۔یہ کتناعجیب ہے کہ ایک طرف بھارت لائن آف کنٹرول کومستقل سرحدبنانے کی کوشش کررہاہے اوراس عارضی سرحدکوبھی وہ ناقابل تسخیرقلعہ بنارہاہے اوردوسری طرف ہمارے ممبران راہداریاں کھولنے کی قراردادیں پاس کر رہے ہیں؟
پاکستان اور انڈیا کی حکومتوں کے درمیان معاہدے کے بعد 2005میں تین کراسنگ پوائنٹس سے کشمیریوں نے آنا جانا شروع کیا جبکہ 2008 میں تجارتی راستہ کھولا گیا۔ ایل او سی پر کل تین کراسنگ پوائنٹس: تیتری نوٹ، چکوٹھی اور چلہانہ ٹرمینلز قائم کیے گئے۔ اسی طرح منقسم کشمیریوں کو ملانے کے لیے سرینگر مظفر آباد بس سروس اپریل 2005 میں شروع کی گئی اور اس بس سروس سے سفر کرنے والے کشمیریوں کو پاسپورٹ کے بجائے پرمٹ پہ سفر کی اجازت سے بھی کشمیریوں کے اپنی منقسم ریاست میں آنے جانے کی حق کو تسلیم کیا گیا۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد چکاں دا باغ اور ٹیٹوال سے بھی کراسنگ پوائنٹس قائم کیے گئے جہاں سے دونوں طرف کے باشندے آتے جاتے رہے۔ ا س کے علاوہ مظفر آباد اور سرینگر کے درمیان بارٹر سسٹم کے تحت تجارت کے لیے ٹرک سروس بھی شروع کی گئی۔ 2019 میں فروری کے تیسرے ہفتے ہندوستان نے یہ سروس معطل کر دی اور اس وقت سے اب تک یہ بس سروس بند ہے۔
آل پارٹیز حریت کانفرنس سمیت کئی کشمیری جماعتوں اور شخصیات کی طرف سے احتجاج کے بعد اگرچہ یہ مذموم قرارداد واپس ہو گئی مگر اس قرارداد سے یہ تو واضح ہو گیا کہ انڈین پروپیگنڈہ ہمارے اندر کتنا سرایت کر چکا ہے۔ یہ قرارداد جہاں آزاد جموں و کشمیرکے مقبوضہ جموں و کشمیر پر سیاسی موقف کی نفی تھی وہاں اسے ہندوستان کو فوقیت دینے کے ساتھ ساتھ دونوں اطراف کے رہنے والے کشمیریوں کو غلط پیغام بھی دیا گیا جسے کشمیر کاز کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا۔
قرارداد واپس ہونے کے بعد حیران کن طور پر قوم پرست مذہبی راہ داری کے حمایتی بن کر سامنے آئے ہیں اور انہیں پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ ان کی محنت رائیگاں چلی گئی ہے سوال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں حضرت بل، شاہمدان مسجد، خانقاہ معلیٰ اور شیخ نور الدین ولی کی چرار شریف جیسے درجنوں مقدس مقامات موجود ہیں مگر انڈیا نے کبھی ان مقامات کے لیے راہداری کھولنے کی بات نہیں کی۔ اور نہ ہی اپنی اسمبلی میں اس حوالے سے کوئی قرارداد پاس کی ہے۔

تبصرے بند ہیں.