رمضان میں روزوں کی وجہ سے جسمانی بیماریوں کے حوالے سے فوائد کا تو ذکر اکثر کیا جاتا ہے لیکن روزوں سے سب سے زیادہ روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ کئی بار کوششیں کی جاتی رہیں ہیں کہ انسان کے جسم اور روح میں تفریق کر لی جائے۔ یہ جانا جائے کہ روح کی ساخت کیا ہے؟ کیسی دکھتی ہے؟اسکا حجم کتنا ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ تاحال سائنس اس حوالے سے کوئی بھی حتمی رائے دینے سے قاصر ہے۔ اسلام ہمیں قرآن پاک میں نظر آنے والی اور نظروں سے اوجھل مخلوقات کے بارے میں بتاتا ہے۔ قرآن میں جگہ جگہ انسانوں کے علاوہ فرشتوں، اور جنوں کا ذکر موجود ہے۔ یہ دونوں مخلوقات انسان اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتا اور نہ ہی انکی آپس کی بات چیت ہماری سماعت میں آسکتی ہے۔ اگرچہ سائنسی اعتبار سے پہلے تو یہ ماننا ہی مشکل تھا کہ کوئی مخلوق ایسی بھی ہو سکتی ہے جو نہ نظر آئے اور نہ ہی اسکی کوئی بات سنائی دے۔ اب تو کئی ایسی ایجادات انسان کی اپنی مرہون منت ہیں،انسان خود ایسی مشینیں ایجاد کر چکا ہے جن سے جنم لینے والی آوازوں، تصویروں اور شعاعوں کو ہم اپنی آنکھ سے نہیں دیکھ پاتے۔ بہرحال بات چل نکلی تھی انسان کی روح کی۔یہ روح انسان کے ساتھ ساتھ بڑھتی اور نشو و نما پاتی ہے۔ بچے کی روح، جوان کی روح اور بوڑھے کی روح میں فرق محسوس کیا جا سکتا ہے۔ روح کے کچھ تقاضے ہیں جبکہ جسم کے کچھ اور۔کئی مرتبہ ان دونوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی ہے جس کا اکثر یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جسم کے تقاضے جیت جاتے ہیں۔ جسم عمومی طور پر انسانی اور حیوانی صلاحیتوں کا مرقع ہے۔کھانا، پینا، نفسانی خواہشات کا غلام ہونا، اس دنیا میں مادی اشیا کے حصول کیلئے ہر وقت تگ و دوکرنا سب جسمانی خواہشات ہیں اور انہی کی وجہ سے جھگڑا اور نفاق دیکھا جاتا ہے۔ روحانی خواہشات میں یہ اجزا شامل نہیں ہوتے،یہ خواہشات انسان کو صبر، روادری، ایثار، انصاف، دوستی، دلوں کو صاف رکھنا اور دیگر خواص سے لیس کرتی ہیں۔ یہاں سے ہی روزہ کا اصل فائدہ سامنے آتا ہے، روزہ ہمیں جسمانی خواہشات کی غلامی سے نکالنے میں مدد دیتا ہے، انسان کے اندر موجود حیوانی خواص کو کنٹرول کرنے اور فرشتوں کی صفات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ غور کریں تو ہم تین اہم مخلوقات کے بارے میں اکثر بات کرتے ہیں، انسان، فرشتہ اور شیطا ن۔ فرشتہ کوئی بھی برائی کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اللہ نے اسکو ہر برائی سے پاک کیا ہے۔ شیطان ہر برائی کا مرکب ہے، ہر قسم کی برائیوں کا اصل منبعہ ہی شیطان یا اسکا فلسفہ ہے یا ایک ایسی کیفیت ہے جس کو شیطانیت کہا جاتا ہے۔ انسان ان دونوں مخلوقات کے درمیان ہے، جب فرشتہ اور شیطان کے خواص مل جاتے ہیں تو ایک انسان بنتا ہے، جو فرشتوں اور شیطان کے خواص کا مرکب ہے۔ کوئی بھی انسان (ماسوائے انبیا کے) برائی اور شیطانیت سے پاک نہیں ہوتا، گمراہی اسکی روح مین شامل ہے، اسپر کسی بھی وقت شیطانی قوتین غالب آسکتی ہیں اور یہ انکے زیر اثر جا سکتا ہے۔ انسانی خمیر کا دوسرا جزو فرشتوں والی صفات ہیں،جس میں پرہیز گاری، اطاعت، اللہ کے احکامات پر عمل، عبدیت کا اظہار وغیرہ شامل ہیں۔کوئی بھی انسان سو فیصد فرشتہ یا سو فیصد شیطانی صلاحیتوں کا حامل نہیں ہوتا بلکہ ان دونوں کا مرکب ہوتا ہے۔ انسان پر ان دونوں میں سے کوئی صلاحیت بھی غالب آسکتی ہے۔
رمضان کریم کا اصل مقصد انساں میں پائی جانے والی شیطانی صفات کو کنٹرول کرنا اور فرشتوں کی صفات کو نکھارنا ہے۔ روزہ کے دوران ہم اپنی نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں،یہ عمل روزانہ کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ اگرچہ روزہ کے دوران صرف اللہ ہی ہماری نیت کا اصل ادراک رکھتا ہے، اسلئے دل سے توبہ کرنا اور نفسانی خواہشات کو کنٹرول کرنے کی کوشش ہی ہمیں ان لغویات سے روک سکتا ہے۔ سال میں ایک ماہ روزہ رکھنے سے ہماری بری عادت میں کمی آتی ہے اور نیک خواص پیدا ہو جاتے ہیں، اسلئے اگر ہم اپنی نفسانی خواہشات پر کنٹرول کر لیں تو ہمارے اندر موجود فرشتہ صفت انسان ابھر کر سامنے آجاتا ہے۔
ماہ رمضان اپنے اختتام کو ہے، آخری عشرہ چل رہا ہے، ہم نے تین ہفتوں تک اپنی نفسانی خواہشات پر قابو رکھنے کی مشق کی، اور اسکو اچھے طریقے سے نبھایا۔ اس دوران جسمانی فوائد کے ساتھ ساتھ روحانی سکون ملا۔ کسی سے بھی پوچھ لیں اس ماہ نفسانی خواہشات کے غلبہ میں کمی آتی ہے، برائی سے بچنا نسبتاً آسان ہو جاتا ہے، جو انسان برائیوں سے رکنا چاہے اسکو کامیابی حاصل ہوتی ہے، یہ تمام باتیں کھلی نشانیاں ہیں کہ رمضان آتے ہی شیاطین کو بند کر دیا جاتا ہے، صرف انسان کے اندر موجود شیطان کے چیلے رہ جاتے ہیں جن کو اس ماہ ہم نفسانی خواہشات پر قابو پا کر کے کنٹرول کرتے ہیں۔اگر ہم اپنے اندر کے شیطان کو کنٹرول نہ کریں تو انسان کے اند بیٹھا شیطان اس حد تک ہمیں کنٹرول کر لیتا ہے کہ ہمیں برائی کرنے کیلئے کسی شیطان کی ضروت ہی نہیں پڑتی۔ رمضان کے دوران نفسانی خواہشات پر قابو پانا اور اپنے اندر موجود شیاطین کے چیلوں کو قابو کرنا بے حداہم ہوتا ہے۔ جیسے ہی ہم اپنے اندر کے شیاطین کو قابو کرتے ہیں ہمیں جسم کے ساتھ ساتھ روحانی تسکین بھی حاصل ہوتی ہے۔ ہمارا غصہ کم ہو جاتا ہے، بغض اور عناد میں کمی آتی ہے، حسد سے بچ جاتے ہیں، کینہ سے دور ہو جاتے ہیں، ہماری روح کو سکون ملتا ہے، ٹینشن میں واضع کمی دیکھی جاتی ہے، اسلئے کہ جب ہم دل سے ایک دوسرے کا نقصان کرنے کی کوشش نہیں کرتے،ایک دوسرے کو مسائل میں نہیں الجھاتے، ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں، کسی کا نقصان کرنے اور کسی سے ناجائز منافع لینے کی کوشش نہیں کرتے تو ذہنی سکون پیداہوتا ہے، روح کی تسکین ہوتی ہے، بلڈ پریشر میں نمایاں کمی دیکھنے کو ملتی ہے، ٹینشن اور ذہنی امراض مین کمی واقع ہوتی ہے، جن افراد کو نیند کا مسئلہ ہو ان میں بہتری دیکھی جاتی ہے۔اگر روزہ کو اسکی اصل روح کے ساتھ گزارا جائے تو اس ماہ ایک دوسرے کے خلاف پلاننگ کرنے یا ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرناکم ہو جاتا ہے اور یوں انسان اندر سے پر سکون ہو جاتا ہے اور یوں ایک پر سکون معاشرہ کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔
ضروری ہے کہ رمضان کے دوران سیکھے گئے اس سبق اور اپنی روح کو قابورکھنے کی اس کوشش کو رمضان کے بعد بھی جاری رکھیں تاکہ اس مہینے میں حاصل کیا گیا فائدہ جاری رہے۔ ہم اپنی تمام عبادات کا مرکزیہ رکھتے ہیں کہ ہمیں جنت مل جائے۔ جنت کیا ہے؟۔ یہ اللہ کی طرف سے نیک انسانوں کیلئے انعام ہے اور وہ مقام ہے جہاں ایک دوسرے کی تحقیر نہیں کی جاتی، ایک دوسرے کی عزت اور احترام کیا جاتا ہے، ہر طرح کی آسائشیں میسر ہوتی ہیں، ہر قسم کی نعمتیں فراہم کی جاتی ہیں اور کسی قسم کا کوئی روحانی اور جسمانی عیب انسان میں نہیں ہوتا۔ حیرت یہ ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنی نفسانی خواہشات کو بے قابو کرتے ہوئے اس زندگی اور دنیا کو جہنم بنا دیتے ہیں اور پھر آخرت میں جنت کے امیدوار بن جاتے ہیں۔ رمضان میں ہمیں ایک موقع ملا کہ ہم اپنی جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ روحانی تربیت کا بھی اہتمام کریں۔اب رمضان کے بعد اسکو جاری رکھنا ہوگا تاکہ دنیا کو جنت کا نمونہ بنا دیا جائے، ورنہ ہمیں پھر ایک سال کا انتظار رہے گا جب رمضان ہماری تربیت کیلئے دوبارہ آئے، لیکن یہ کسی کو معلوم نہیں کہ آئیندہ سال اس مبارک مہینہ کا دیدار کس کس کو ہوگا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.