اتحادی حکومت سیاسی اور معاشی بحرانوں میں گھری ہوئی ہے۔ان بحرانوں میں اب عدالتی بحران کا بھی اضافہ ہو گیا ہے۔ مولانا فضل الرحمن نے تو اس صورتحال کو جیوڈیشل مارشل لاء قرار دیا ہے۔ ان حالات میں کسی بھی حکومت کی توجہ بہت سے اہم نوعیت کے معاملات سے ہٹ سکتی ہے۔ علمی، ادبی اور تعلیمی معاملات تو ویسے بھی ہماری حکومتوں اور حکمرانوں کی ترجیح نہیں ہوتے۔ سیاسی، معاشی اور عدالتی مسائل سے نبردآزما اتحادی حکومت بھی لگتا ہے کچھ علمی معاملات کی جانب توجہ دینے سے قاصر ہے۔ اس ضمن میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ نے ایک نہایت اہم پہلو کی طرف توجہ دلائی ہے۔ قائمہ کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی صاحب نے اس امر پر نہایت تشویش اور ناراضی کا اظہار کیا کہ بیرون ملک قائم 14 "پاکستان چیئرز” 2008 سے خالی پڑی ہیں،لیکن کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ ان علمی مسندوں میں قائد اعظم چیئر، علامہ اقبال چیئر، پاکستان اسٹڈیز اور اردو چیئرز شامل ہیں۔ قائمہ کمیٹی کے سربراہ نے اس صورتحال کو "مجرمانہ غفلت” قرار دیا۔ اندازہ کیجئے کہ ہم قومی زبان اردو کے نفاذ کا رونا روتے رہتے ہیں۔ پاکستان اسٹڈیز کے ذریعے پاکستان کی تاریخ، ثقافت وغیرہ کی ترویج کی بات کرتے ہیں۔ لیکن چین، مصر، جرمنی، امریکہ، انگلینڈ، ترکی، ہانگ کانگ، ایران، اردن، نیپال اور قازکستان جیسے اہم ملکوں میں پاکستان اسٹڈیز اور اردو کی کئی چیئرز خالی پڑی ہیں۔
اگلے دن ایک علمی و ادبی شخصیت نے بتایا کہ بھارت اپنی زبان ہندی کی بیرون ملک ترویج کے لئے بہت زیادہ تحرک کا مظاہرہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ” ہندی چیئرز” کو کسی صورت خالی نہیں رہنے دیا جاتا۔ ان صاحب نے یہ افسوسناک صورتحال بتائی کہ ایسا بھی ہوا کہ کسی ملک کی جامعہ میں ہماری ” اردو چیئر” برسوں خالی دیکھ کر بھارت نے یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ ہندی اور اردو ایک ہی زبان ہیں۔ اور باقاعدہ لابنگ کے ذریعے ” اردو چیئر” پر قبضہ کر لیا۔ اندازہ کیجئے کہ جس یونیورسٹی میں یہ صورتحال ہوگی وہاں ہماری قومی زبان کی تو چھٹی ہو گئی اور ہندی کو پھلنے پھولنے کے لئے ایک کھلا میدان میسر آگیا ہو گا۔ لیکن یہاں کسے فکر ہے کہ سیاسی اور عدالتی معاملات کو چھوڑ کر ان علمی اور تعلیمی معاملات پر توجہ مبذول کرئے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت کے پاس بیرون ملک قائم علمی مسندوں کو پر کرنے کا وقت نہیں ہے، البتہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان پر اس نے نگاہ رکھی ہوئی ہے۔ چند دن پہلے وزیر اعظم شہباز شریف نے ٍ ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کی ہے۔ کمیٹی میں وزیر تعلیم رانا تنویر حسین، وزیر قانون اعظم نذیر تارڈ، وفاقی وزراء ایاز صادق اور شیری رحمان سمیت چند دیگر اراکین شامل ہیں۔گزشتہ چار پانچ برس سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن مالی مشکلات کا شکار ہے۔ خبر پڑھ مجھے گمان گزرا کہ کمیٹی کا مقصد ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے مالی معاملات کی اصلاح احوال ہو گا۔ تاہم پتہ یہ چلا کہ گزشتہ حکومت کی طرح موجودہ حکومت بھی کمیشن کے قانون میں ترمیم کر کے کمیشن چیئرمین کے اختیارات محدود کرنا چاہتی ہے۔ اس اعلیٰ سطحی کمیٹی کے قیام کا مقصد یہ ہے کہ ایچ۔ ای۔ سی ترمیمی بل 2023 کے بارے میں اتفاق رائے پیدا کیا جا ئے۔ اطلاعات ہیں کہ کمیشن کو اس ضمن میں اعتماد میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی فی الحال کسی قسم کی مشاورت کی گئی ہے۔
دسمبر 2022 میں بھی یہ خبریں گرم تھیں کہ وفاقی حکومت قانون سازی کے زریعے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے اختیارات سلب کرنے کا قصد کئے بیٹھی ہے۔ یہ خبریں سرکاری اورنجی جامعات کے لئے باعث تشویش تھیں۔ اس زمانے میں ایسو سی ایشن آف پرائیویٹ سیکٹر یونیورسٹیز (APSUP) کے سربراہ پروفیسر چوہدری عبدالرحمن صاحب نے وزیر اعظم شہباز شریف کو ایک خط لکھ کر اس اضطراب سے آگاہ کیا تھا جو جامعات کے سربراہان اور اساتذہ میں مجوزہ ترامیم کے بارے میں پایا جاتا تھا۔ پروفیسر صاحب تجویز کیا تھا کہ اگر ترامیم کرنا نا گزیر ہے تو متعلقہ شراکت داروں (stakeholders) کے ساتھ مشاورت ہونی چاہیے۔
اس وقت مجوزہ ترامیم کا مسودہ میری نگاہ سے گزرا تھا۔ اس میں کچھ تجاویز قابل عمل اور قابل جواز دکھائی دیتی تھیں۔تاہم کچھ تجاویز ایسی تھیں جو ناقابل جواز لگتی تھیں۔ فی الحال ترامیمی بل 2023 کے بارے میں تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔ گمان ہے کہ پہلے سے تجویز کردہ ترامیم پر ہی غور کیا جائے گا۔قارئین کی معلومات کے لئے ان تجاویز کے چند اہم نکات بیان کرتی ہوں۔ مثال کے طور پر حکومت کمیشن کے مالیاتی معاملات آڈیٹر جنرل آف پاکستان کے طے کردہ قواعد و ضوابط کے تابع کرنا چاہتی تھی۔ اسی طرح حکومت نے تجویز کیا تھا کہ کمیشن میں افسر، ایڈوائزر، کنسلٹنٹ یا ملازمین کی تعیناتی کیلئے قواعد وضع کئے جائیں۔وضع کردہ ضابطے متعلقہ وزارت یا ڈویژن سے منظور شدہ ہوں۔ بادی النظر میں ان نکات کے نفاذ میں کوئی حرج نہیں۔ مجوزہ ترمیم کے زریعے چیئرمین ایچ۔ای۔ سی کے اختیارات محدود کرنے کی تجویز تھی۔ اس پر عمل ہوگا تو چیئرمین کی حیثیت وفاقی وزیر کے بجائے، ایک سرکاری ملازم کے برابر ہو جائے گی۔فی الحال ہائیر ایجوکیشن کمیشن براہ راست وزیر اعظم پاکستان کے ما تحت کام کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے بعد کمیشن کا چیئرمین تمام تر اختیار ات کا حامل ہوتا ہے۔ مجوزہ ترمیم کے بعد وزیر اعظم پاکستان، ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے معاملات دیکھنے کا اختیار وزیر تعلیم کو تفویض کر سکے گا۔ یعنی ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو کمیشن کا چیئرمین جو براہ راست وزیر اعظم کو جوابدہ ہوتا ہے وہ وزیر تعلیم اور وزارت تعلیم کے سامنے جواب دہ ہوگا۔
ترمیم کے بعدہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ملک میں اعلیٰ تعلیم کی واحد ریگولیٹری باڈی کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ اسطرح صوبائی ہائیر ایجوکیشن کمیشنوں، پاکستان میڈیکل کمیشن، پاکستا ن انجینئرنگ کونسل، پاکستان بار کونسل جیسے اہم اداروں کے اختیارات سلب ہوجائیں گے۔ اور کمیشن کا قانون، بہت سے دیگر قوانین سے متصادم ہو گا۔بالکل اسی طرح کمیشن کے اراکین کی تعداد دس سے کم کر کے چھ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی، ساینٹیفک اینڈ ٹیکنالوجیکل ریسرچ ڈویژن کے سیکرٹری بھی کمیشن کے ممبر ہوتے ہیں۔ تجویز ہے کہ یہ سیکرٹری بھی کمیشن کے ممبر نہیں ہوں گے۔کمیشن میں صوبائی حکومتوں کے چار نمائندے بھی موجود ہوتے ہیں۔اب اراکین کی تعداد کم کرنے کی تجویز ہے، جس سے خدشہ ہے کہ چاروں صوبوں کی نمائندگی پر زد پڑے گی۔ یقینا اس قسم کی تجویز کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔فی الحال ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا اختیار کمیشن کے پاس ہوتا ہے۔ تجویز ہے کہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر کی تعیناتی کا اختیار کمیشن کے بجائے حکومت کے پاس ہو۔ یہ معاملہ بھی کمیشن کا اختیار سلب کرنے کے مترادف ہے۔ خدشہ ہے کہ اس ترمیم کے بعد ایگزیکٹو(صفحہ 3پر بقیہ نمبر1)
ڈائریکٹر کے عہدے پر تعیناتی سیاسی بنیادوں پر ہونے لگے گی۔موجودہ قانون میں کمیشن چیئرمین کی مدت ملازمت کو تحفظ حاصل ہے۔ تجویز ہے کہ ناقص کارکردگی اور مس کنڈکٹ کی بنیاد پر چیئرمین کو کسی بھی وقت نوکری سے برخاست کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ بھی کچھ نکات ترمیمی مسودے کا حصہ تھے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے بہت سے معاملات اصلاح احوال کے متقاضی ہیں۔ ماہرین تعلیم، جامعات کے سربراہان اور اساتذہ کمیشن کی بہت سی پالیسوں کے بارے میں بھی عدم اطمنان کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ یقینا وفاقی حکومت کمیشن کے قانون میں تبدیلی کا اختیار رکھتی ہے۔ قوانین میں تبدیلی کوئی ایسی انہونی بات نہیں ہے۔ تاہم کمیشن کے قانون میں کوئی تبدیلی مقصود ہے تو اس کا مقصد محض اختیارات کی کھینچا تانی نہیں ہونا چاہیے۔ بلکہ خلوص نیت کے ساتھ کمیشن کے معاملات کی اصلاح احوال ہونی چاہیے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ کسی نئی قانون سازی سے پہلے متعلقہ اسٹیک ہولڈروں سے مشاورت کویقینی بنایا جائے۔ ملک کے سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں پر نگاہ ڈالیں تو مسائل کاانبوہ کثیر دکھائی دیتا ہے۔ بلوچستان یونیورسٹی کے ملازمین اور اساتذہ مالی بحران بھگت رہے ہیں اور آج کل سڑکوں پر ہیں۔ پشاور یونیورسٹی بھی تقریبا بند پڑی ہے۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں ہنگامہ آرائی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔ جامعہ پنجاب سمیت کئی سرکاری جامعات میں گزشتہ کئی مہینوں سے مستقل وائس چانسلر وں کی تعیناتیاں نہیں ہو سکی ہیں۔لازم ہے کہ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ اس جانب بھی اپنی توجہ مبذول کریں۔
ڈاکٹر لبنیٰ ظہیر
Prev Post
تبصرے بند ہیں.