برصغیر کی وراثتی اور انتخابی سیاست کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو سلام پیش کرتے ہیں مغلوں سے قبل مسلمان حکمرانوں کو جنہوں نے برصغیر میں فتوحات کے جھنڈے گاڑھ کر بھی سلطنتیں ”غلاموں“ کے حوالے کیں اور اپنے بیٹوں کو ولی عہد مقرر نہ کیا ہندوستان کا پہلا باقاعدہ بادشاہ قطب الدین ایبک غلام تھا اور محمد غوری جسے معیز غوری بھی کہاجاتا ہے کبھی بیٹے کے نہ ہونے پر پریشان نہ تھا ہمیشہ کہتا میں نے غلاموں کو بیٹے جانا اور ان کی اعلیٰ پیمانے پر تربیت کی ہے یہی میرا نام روشن کریں گے اور ایسا ہی ہوا ایبک سے خاندان غلاماں کی بنیاد پڑی (جو آج تک کسی اور ہی رنگ میں جاری ہے) اپتگین اورسبگتگین بھی خدام ہی تھے مگر پورے بادشاہ نہ بنے کہ غزنی ہی درالخلافہ رہا قطب الدین ایبک کے چارسال بعد عین خلافت کے انداز میں بیٹوں کی بجائے امراء غلاموں ہی سے التمش کو چن لائے حالانکہ آرام شاہ (قطب الدین ایبک کے بیٹے نے بہت کوشش کی مگر جمہوریت پسند مزاج نے ایسا ہونے نہیں دیا اور مورثیت کے بدلے غلام کا انتخاب کیا جس کا معیار عمدگی تربیت اور فراست ہی تھا……
التمش کا سب سے بڑا کارنامہ منگولوں سے نجات اورسلطنت دہلی کی مضبوطی تھا کہنے کو غلام اور فراست وشجاعت میں خود مختار منگولوں کی تباہی کو ایران وعراق تک روک رکھنا اس بادشاہ کا کارنامہ تھا بعدازاں جب یہ وصال کر گیا تو دس برس بدانتظامی کے گزرے اسی دوران پہلی تاجدار خودمختار حکمران رضیہ سلطانہ التمش کی بیٹی بھی گزری جس کے لیے اس وقت کے آزاد خیال بھی نسوانی حکمرانی پر تڑپ اٹھے تصویرمیں حرکت محبوبیت میں عقل اور باندی میں حکمرانی کسے گوارہ ہوتی ہے، ناصر الدین محمود جیسے درویش صفت بادشاہ کے بعد اسی کے دبنگ سسر غیاث الدین بلبن نے صاحب نظر ہونے کا ثبوت دیا چنگیز خانی حملوں میں بکتا بکاتا بلبن بغداد کے بازار میں بطور غلام بکا جمال الدین بصری نے خرید کر تربیت کی اور دہلی لے آیا خاندان غلاماں کا یہ بادشاہ ایک خاص نکتہ نظر لے کر آیا کہ خلق کی خدمت دبنگ اور مکمل بادشاہت میں ہے آپ اسے مکمل حکمران کہہ سکتے ہیں۔
مغلوں سے پہلے گووراثتی مصائیت نہیں تھی مگر بلبن کے بیٹوں کی عدم دلچسپی اور حادثاتی موت کے بعد یہ امر مجبوری ”کیقباد“ پر اتفاق ہوا…… اور یوں بالآخر کہنے کو خاندان غلاماں کا اختتام ہوا مگر اس کے بعد آنے والا ہرحکمران حقیقی معنوں میں غلام نکلا سب سے بڑی غلامی اولادسے محبت کی اسیری ہے جو سلطنت کے تمام باقی ہنر مند بچوں پر سبقت دلا دیتی ہے۔
دوسری بڑی غلامی ایسی کمزور شخصیت اور اتنا بڑا عہدہ آپس میں اکٹھانہ ہوپائے کبھی سیٹ منتظم سے بڑی تھی تو کبھی منتظم سیٹ سے بڑا دوسری صورت میں انجام غیر طبعی موت ہی رہی ……
تیسری غلامی دولت سے محبت ایسی محبت جو محمود غزنوی کو سومنات کا مندر لوٹ کر بھی تسکین نہ دلاسکی وہ غوری جس نے ”بتوں“ کے بے جان جسموں سے زیور نوچ لیے ان کے باطن میں چھپے ہیرے نکال لیے اور جسے ہم آج فخر کی علامت سمجھتے ہیں، غوری کو تسکین نہ دلاسکی ان چھوٹے موٹے ڈاکوؤں کو کیا سکون دے گی وہ بھی دوسری ملکوں پر چڑھائی کر مخبری پردولت سمیٹنے جاتے جان کو خطرے میں ڈال کراپنے لوگوں کو نہیں لوٹتے تھے۔ ……
چوتھی غلامی اغیار کی مددسے حکمرانی کی بھیک گزشتہ والے تو بہت سے مذاہب مسالک معاشرت اور رہن سہن سے نبرد آزما ہوکر مقامی راجاؤں کو پچھاڑ کر مدد کے مقام پر لے آتے جبکہ بعدازاں تاحال اپنے ہی لوگوں سے ساز باز کرکے جوڑ توڑ سے حکومتیں بنانے والی غلامی کے اسیر ہیں۔
پانچویں غلامی ان کی مدت ملازمت نے پیدا کردی ہے اتنی مختصر مدت ملازمت جسے لوگ پورا نہیں ہونے دیتے نفس کو جلدازجلد خزانہ لوٹنے خالی خزانے پر پروٹوکول سے بھری گاڑیوں میں خراٹے بھرنے پر مجبور کرتی ہے ان لوگوں کو لایا تو چوکوں، چوراہوں، پھٹوں اور ٹرکوں سے ہے مگر ذوق بادشاہت ان کا اپنی پوری زندگی سے طول دیتا ہوا بچوں کے بچوں تلک پورا نہیں ہوتا ……
چھٹی غلامی دنیا بھر سے مانگ کر بھی اللے تللے پورے نہیں ہوتے تو مونیٹری بینکوں سے مانگنا اسلامی ملکوں سے مانگنا اپنے بساط سیاست پر مداخلت اور موافقت کا حق دینا …… یہ کیسے ممکن ہے کوئی آپ کا گھر چلائے اور آنگن میں اپنے نام کا بینر نہ لگائے۔
غلامی کی ساتویں قسم اداروں کا دباؤ اشتراک اور ناپسندیدگی میں شوق حکمرانی پورا کرنا روزپیشیاں روزنوٹس آئے دن گرفتاریاں اورضمانتیں مچلکے خبریں تجزیے اور نفرتیں ایسے میں تخت نشینیاں صورتحال میں جاؤ رسیدکہ ادھر تخت لگا ادھر صاحبان کی گنتی میں الٹ گیا امراء نے اعلان خلوت کردیا روز کی بادشاہت پکی کی روز کی تنزلی سے بچے اور اگلے دن کا خوف لیے کٹہروں میں کھڑے ہوگئے ……
مسلمانوں کی برصغیر میں سولہ صدیاں یہی کہتی ہیں کہ تنزلی کی رفتار ترقی کی رفتار سے بہت زیادہ تیز ہے اور یہ تنزلی حقیقت میں ذہنی غلامی سے جسمانی اسیری کا سفر طے کرچکی ہے۔ ظرف اور کم ظرفی کے سوئے باطن سے ظاہر کی طرف آتے ہیں ناکہ ظاہرسے باطن کی طرف …… سارے ”تھڑے باز“مسند خلافت پر بیٹھتے ہی معزز ہوجائیں کیسے ممکن ہے بادشاہت کی نشانیوں میں ”توشہ خانہ“ گواہ ہے کہ گلی محلوں سے آئے ہوئے اس شاہی نشانی کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔
کہاں یہ کہ اتنی قوموں، مذاہب اور مسالک سے متعلقہ لوگوں یہ حکمران کے لیے اور ہی مٹیریل سے بنے لوگ آئے تھے وہ بغداد کے بازار میں بکنے والا غلام بلبن ہو یا پہلا بادشاہ قطب الدین ایبک ذہنی طورپر غلام نہیں تھے قدرت انہیں بڑے بڑے عہدوں کے لیے منتخب کرنے سے قبل مدارج انسانیت سے ملوا کرلائی تھی ……
انہوں نے محکوموں کے دکھ بھی دیکھے تھے اور غلاموں کا ہاتھ دو ہاتھ بکنا بھی جبکہ تنزلی کے موجود سرے پر صرف ذہنی اسیری سے معاملہ ہے یہ پنجاب کے بزدار ہوں تو معاملات فرح نبھانے کے لیے اپنی تقرری کے نہ صرف جواز پر پورے اترتے ہیں بلکہ خود بھی ”نکی نکی“ چھریاں مارتے ہیں کمال یہ کہ ان کا وجہ انتخاب ان کا ”ڈل“ ہونا ٹھہرا دفاتر میں بھی ہمارے ہاں کمتر ذہنی سطح کا افسراپنے ماتحتوں میں ذہین بندہ دیکھ کر نت نئی سازشیں شروع کردیتا ہے اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ”ذہانت“ کو ہرزمانے میں زہرمختلف رنگ کے پیالوں میں پیش کیا جاتا ہے مگر وہ بھی ذہانت کیاجو سارے ہتھکنڈوں کو عبور کرکے تخت نشین نہ ہو جائے تاریخ پڑھنا اور اسے لٹریچر سے متصل کرکے دیکھنا میراشوق ہے مجھے ابواب کے ابواب کھنگالنے کے بعد کہیں بھی تخت نشین ہونے کے لیے کالے جادو، جنوں کی معاونٹ یا عدت میں نکاح کا قضیہ نہیں ملا۔
مشرق وسطیٰ سپین بغداد سے لے کر بھارت افغان ترک حملہ آوروں اور تاریخ عالم کے بڑے حملہ آور مغلوں کے جدامجد منگولوں نے صدیوں چھیڑ خانیاں جاری رکھ کر بالآخر تخت زروجواہر سے سجالیے تمام قومیں مفتوح سرجھکائے سامنے کھڑی رہیں کٹر علاقوں میں آکر بلکہ مختلف طرز زندگی وہ مذہب کے ساتھ تلوار سونت کر حکمرانی چھینی اور صدیوں تلک تاج سروں پر سجائے آج جو یہاں مسلمانوں کی الگ مملکت عین کٹر بھارتیوں دراوڑی زمینوں پر موجود ہے تو اس کا باعث ٹونے ٹوٹکے نہیں جواں مردی ہے دلیری ہے شجاعت ہے جوکبھی تو بظاہر ظلم کی حدوں کو چھوتی ہے تو کبھی رحمدل بادشاہ کا روپ دھار لیتی ہے بیٹے بھائی گنواکے آنکھ میں آنسونہ آنے دینے والے سخت گیر بادشاہ گھوڑے کی پیٹھ کر تلوار سونت کر کود لڑے۔
ٹونے ٹوٹکے تعویز دھاگے جن پریوں اور جادوگرنیوں کے سہارے نہیں لیے ……
جیسی بھی عورت اور تاریخ وہ مردانگی، ہی کی عاشق ہے اسے ہی سراہتی ہے ……
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.