خوف، انتقام اور بے بسی۔ تینوں کیفیات خطرناک ہیں۔ دیکھا جائے تو پاکستان میں ان تینوں کے سائے منڈلا رہے ہیں۔ ہر اطراف سیاسی، معاشی اور اخلاقی بد حالی نظر آ رہی ہے۔ اس ملک کے حالات اتنے بد ترین کبھی نہیں رہے۔ جب کبھی سیاستدانوں نے خطرناک کھیل کھیلے اسٹیبلشمنٹ نے ان سے جان چھڑائی اور درمیانی شکل میں ملک کو بچانے کے نام پر مسیحا بن کربراجمان ہوئے۔ اگر سیاستدانوں اور عسکری گروہ کے درمیان رسہ کشی ہوئی تو عدلیہ کودی اور مسلے کا جیسا بھی حل ہو نکالا۔ اب جو حالات ہیں کسی تین اطراف پناہ نظر نہیں آتی۔ ہر کوئی فریق بنا بیٹھا ہے۔ سیاستداں ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بنے ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے سے انتقام لینے کے درپے ہیں۔ کوئی حکومت گرانے میں لگا ہے تو کوئی حکومت بچانے میں چاہے اس تگ و دو میں آئین لہو لہان ہی کیوں نہ ہو جائے۔ خوف کا یہ عالم کہ عمران خان کو یہ ڈر ہے کہ اگر یہ گرفتار ہو گئے تو نواز شریف گروپ ان پر تشدد کرے گا۔ وہ حرکتیں ہوں گی کہ خدا کی پناہ۔ اعظم سواتی اور شہباز گل اپنی ساری ذلت بھول جائیں گے۔ نواز، زرداری اور فضل الرحمان پر یہ خوف طاری ہے کہ اگر اقتدار ہاتھ سے گیا تو کل کو برسر اقتدار آنے والا عمران خان نیب کے مقدمات پھر سے بحال کر دے گا اور وہ انتقام لے گا کہ ساری چوکڑی بھول جائیں گے۔ رانا ثنا اللہ کی وہ کیفیت ہے کہ جیسے جنرل ضیا کو کہا گیا تھا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو ہیں کسی ایک کو تو جانا ہے۔ تو حکمران جماعتیں، عمران خان کی جماعت، خلائی
مخلوق اور عدلیہ یہ ہیں اکھاڑے کے پہلوان۔ باقی نام نہاد ایم کیو ایم، ق لیگ، اے این پی، بی اے پی یہ سب تو بس چھوٹے چھوٹے پیادے اور تماشے کی پتلیاں ہیں۔ رانا ثنا اللہ، مریم نواز اور بلاول زرداری کے منہ میں زبان کسی اور کی ہے ورنہ یہ زیادہ دیر کے شہسوار نہیں۔ عمران خان اس لیے دوبارہ آتے نظر نہیں آتے کہ ان کی ان سے لڑائی شدید ہو چکی ہے۔ تھوڑا تحمل سے کام لیتے تو ایک اور مدت تو ان کے کھاتے میں لکھی جا چکی تھی۔ اب مصیبت یہ ہے کہ خوف ہر تین گروپ میں نظر آ رہا ہے۔ دوسروں سے نہیں بلکہ اپنے اپنے اندر تقسیم کا خوف بھی۔ عدلیہ تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک نیوٹرل ہو کر انصاف کرنا چاہ رہا ہے تو دوسرا گروپ انتقام کی دھن میں کسی سیاسی جماعت کا ہم نوا نظر آ رہا ہے۔ اس وقت صاف لگ رہا ہے کہ جج قاضی فائز عیسیٰ کا گروپ چیف جسٹس عطا عمر بندیال کے خلاف صف آرا ہے۔ ن لیگ عادتاً کھل کر قاضی گروپ کی پیٹھ پر کھڑی ہو گئی ہے۔ یاد رہے کہ جسٹس سجاد علی شاہ اور جسٹس قیوم ملک کی کہانی تازہ ہی ہے پھر جہانگیر کرامت اور آصف نواز کا کیا بنا تھا۔ پرویز مشرف سے بھی نہیں بنی تھی۔ باجوہ سے بھی کھلی محاذ آرائی تھی۔ عمران باجوہ تنازع کھڑا نہ ہوتا تو ن لیگ کے نام قرعہ فال بھی نہ نکلتا۔ یہ حب علی نہیں بغض معاویہ ہے۔ یہ بات نواز شریف کو نہیں بھولنا چاہئے۔ خوف سب سے زیادہ عمومی طور پر ن لیگ اور خصوصاً نواز شریف کو ہے کہ اگر عمران واپس آئے تو کیا وہ زیادہ دیر لندن میں پناہ گزیں رہ سکیں گے؟ واپس آئے تو وہیں آئیں گے جہاں سے چار ہفتے کی رعایت پر گئے تھے۔ رہی بات زرداری کی تو سب سے زیادہ اطمینان میں اگر ہے تو وہ ہیں زرداری۔ وہ ہلکے سے باغی بنتے ہیں کبھی کبھی اور وہ بھی رعایت لینے کے لیے۔ جواب میں ان کو ٹاسک مل جاتا ہے جیسے لگتا ہے اب پھر مل گیا ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے تین رہنماؤں کی ڈیوٹی لگائی ہے کہ پہلے اتحادی جماعتوں کو قائل کریں پھر عمران خان کو منائیں کہ مذاکرات شروع ہوں۔ شائد مخصوص طاقت بھی اب یہی چاہتی ہے اور اسی کی ایما پر پیپلز پارٹی کو یہ فرض سونپا گیا ہے ورنہ وہ حال ہی میں کہہ گئے تھے کہ عمران خان سیاسی شخص نہیں ہیں اور ان سے سیاسی بات چیت نہیں ہو سکتی۔
یہ سارے حقائق اب کسی سے چھپے نہیں ہیں۔ ہر فورم پر یہ باتیں ہو رہی ہیں۔ جو کچھ بھی ہو ایسا نہ ہو کہ پھر آپریشن سرچ لائٹ ہو جائے خدانخواستہ۔ کرنے والے کسی ایک کو عتاب میں نہیں لا سکیں گے کیونکہ کہا یہ جا رہا ہے کہ تقسیم ادھر بھی لگتی ہے۔ خیر جو بھی ہو خیر ہو۔
بے بسی کا ذکر تو ہوا ہی نہیں۔ ان سارے عوامل سے الگ تھلگ ایک عنصر عوام کا ہے اور یہی عوام بے بسی کی تصویر بنے بیٹھے ہیں۔ مہنگائی عروج پر ہے، بے روزگاری ہر گھر میں ڈیرہ ڈالے ہوئے ہے۔ جرائم نے اپنا پنجہ گاڑا ہوا ہے۔ لاقانونیت عروج پر ہے۔ بے ہنگم ٹریفک اور کرپشن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ان سب برائیوں کا شکار عام لوگ ہیں۔ لوگ تنگ آکر سڑکوں پر آنے سے ڈرتے ہیں کہ کہیں گرفتا ر نہ ہو جائیں بلکہ جان سے ہی نہ چلے جائیں۔ حالات اس قدر مخدوش ہو چکے ہیں کہ کسی کو کوئی راہ نہیں سوجھ رہی۔ جب تک خوف، انتقام اور بے بسی کا خاتمہ نہیں ہو گا آئی ایم ایف کچھ کر سکے گا اور نہ ایٹم بم بچا سکے گا۔ حکومت کا زور ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہو گیا تو بیڑا پار ہے۔ جناب بیڑا پار اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک پاکستان پر سے خوف، انتقام اور بے بسی کی فضا ختم نہیں ہوگی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.