آصف زرداری کا انٹرویو

31

آصف زرداری نے اپنے حالیہ انٹرویو میں بہت سے رازوں سے پردہ اٹھایا ہے۔ جو لوگ مقبولیت کے کھمبے پر لٹکے ہوئے ہیں ان کے بارے میں گفتگو کی ہے کہ یہ سب کچھ چند بچوں کی وجہ سے ہے۔ ’عمران خان مقبول نہیں، غربت مقبول ہے، بیچارے بچے ہیں جن کو تنخواہ دیتا ہے، جب بجلی نہیں آتی تو عوام کو تکلیف ہوتی ہے اور مخالف جماعت کو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔‘
آصف زرداری نے خود کو ایک بڑا سیاستدان ثابت کیا ہے اور جمہوریت کو مضبوط کرنے اور ملک کو جمہوری انداز میں آگے بڑھانے کے لیے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔ صدارتی اختیارات کو جس فراخ دلی سے انہوں نے پارلیمنٹ کو منتقل کیا ہے اس کے بعد پارلیمانی جمہوریت کے مضبوط ہونے کی راہ ہموار ہوئی۔ ’مجھ سے استعفیٰ مانگا جاتا تھا کیونکہ میں نے اٹھارویں ترمیم دی، خیبر پختونخوا کو شناخت دی، جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے قرارداد سینیٹ میں پیش کی، مجھے تاریخ میں زندہ رہنا ہے، استعفیٰ مانگنے والوں کو تاریخ کا نہیں پتا تو میں کیا کروں۔‘
آج پاکستان کی سیاست زرداری کے گرد گھوم رہی ہے اور کوئی چاہ کر بھی انہیں اس اہم کردار سے باہر نہیں کر سکتا۔ عمران خان کے ساتھ عدلیہ جو حسن سلوک کر رہی ہے اس پر بھی انہوں نے گفتگو کی ہے کہ ان کے پاس مضبوط ڈومیسائل ہے۔ ’ہم نے جیلیں کاٹیں لیکن عمران خان ایک دن جیل نہیں گئے، یہ ڈومیسائل کا فرق ہے، وہ مجھ سے اچھی پنجابی نہیں جانتے، وہ مجھ سے اچھی بلھے شاہ کی شاعری نہیں جانتے مگر میرا ڈومیسائل کمزور ہے، اس وقت جاری لڑائی پنجاب کی ضرور ہے لیکن وہ پورے پاکستان کو متاثر کرتی ہے۔ ہم قانون کو سمجھتے ہیں لیکن ججز سیاست کو نہیں سمجھتے، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا لوگوں کو پتا نہیں ہوتا، یہ جب نعرے لگائے جاتے تھے کہ ریاست بنے گی ماں کے جیسی، اب بن گئی ریاست ماں کے جیسی، آپ کو یاد ہے میں نے کہا تھا کہ یہ جج (افتخار چودھری) سیاست دان ہے اور یہ سیاسی جماعت بنائے گا، آپ لوگ مجھ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ اس کو بحال کرو، اس دوران چودھری اعتزاز احسن مجھ سے رابطے میں نہیں تھا، وہ کسی اور سے رابطے میں تھا۔‘
اس انٹرویو کا سب سے اہم حصہ جنرل باجوہ، جنرل فیض اور عمران خان کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے ہے۔ زرداری صاحب نے وہ منصوبہ بھی دنیا کے سامنے رکھ دیا جس کے تحت اس ٹرائیکا نے 2035 تک اقتدار میں رہنے کی ترکیب نکال لی تھی۔ عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کے دوران جنرل باجوہ نے عمران خان کے لیے رستہ بنانے کی کوشش کی۔ ’جب گزشہ سال تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے ہمیں بلایا اور کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں عمران خان کو کہتا ہوں وہ ابھی استعفیٰ دے گا اور آپ الیکشن میں چلے جائیں، اس پر میں نے منع کیا، مولانا فضل الرحمن نے منع کیا، آپ کو دیکھنا
چاہیے جو بات بلاول بھٹو نے کی ہے کہ آپ نے صرف ایک عمران خان کو نکالا ہے، اس کے سات حواری ہیں جو نکلے نہیں، وہ اب بھی موجود ہیں، وہ اب بھی گیم کھیل رہے ہیں۔ ہمیں پتا تھا کہ یہ 2035 تک رہنے کا منصوبہ بنا کر آئے ہیں، یہ اپنا چیف لا کر ایسا کرنا چاہتے تھے، اگر نگران حکومت ہوتی تو بھی وہ یہ کر سکتے تھے، نگران حکومت تو کمزور ہوتی، اس کو جیسا کہا جاتا، ویسا وہ کرتی، ہم نے اس نظریے کے تحت، سیاسی سوچ سوچتے ہوئے وہ فیصلہ کیا۔‘ انہوں نے مزید انکشاف کیا ’اس دوران جنرل باجوہ اپنی باڈی لینگوئج سے اس طرح کے کچھ اشارے دے رہے تھے کہ میں 5 منٹ میں مارشل لا لگا سکتا ہوں، آپ کو یاد نہیں ہے آپ کو کہا تھا کہ میں 5 منٹ میں لگا سکتا ہوں، لگانا صحیح ہے، شیر پر چڑھنا آسان ہے، اترنا مشکل ہے، تو ہم نے اس کو کہا بسم اللہ کر بھائی، ہمیں بھی چھوڑ، ہم جا کر کھیتی باڑی کریں، تو جا کر ملک چلا، پھر وہ پیچھے ہٹا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے، میں تو نہیں کر سکتا، نہیں کر سکتا تو پھر چھوڑو۔‘
آصف علی زرداری نے چند رازوں سے پردہ اٹھایا ہے اور یہ کہا ہے کہ کچھ راز وہ ہوتے ہیں جو بندہ قبر میں ساتھ لے جاتا ہے۔ ان کے پاس بھی اس طرح کے بہت سے راز ہیں۔ یہ خوش نما چہرے اور مختلف ایوانوں میں بیٹھی ہوئی سرکردہ شخصیات اقتدار اور ہوس میں اتنی آگے نکل جاتی ہیں کہ تمام قائدے اور قانون بھول جاتی ہیں۔ انہوں نے یہ بتایا کہ کسی نے پوچھا کہ ثاقب نثار کے بیٹے کی شادی میں کیا ہوا۔ مرسڈیز گاڑی کے تحفے ملے، ثاقب نثار نے تو مرسڈیز اس وقت دیکھی جب وہ چیف جسٹس بنے تھے اور افتخار چودھری کے بیٹے ارسلان کیا کرتے رہے۔
زرداری صاحب نے کچھ اشارے کیے ہیں تاہم آج بھی کچھ ججوں کے خاندانوں کے حوالے سے سوالات اٹھ رہے ہیں۔ سیاستدانوں کا محاسبہ ہو رہا ہے تو ان افراد کا بھی محاسبہ ہونا ضروری ہے جو خود کو مقدس گائے سمجھتے ہیں۔ توشہ خانہ سے گاڑیاں حاصل کرنے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ بلٹ پروف گاڑیاں تھیں ایک کرنل قذافی نے دی دوسری متحدہ عرب امارات نے۔ میرے پاس چونکہ بلٹ پروف گاڑی نہیں تھی اس لیے میں نے ان گاڑیوں کی پوری قیمت دے کر اسے خرید لیا اور بعد میں مجھ پر اس کا مقدمہ بھی بن گیا لیکن یہ تحفے میرے پاس آج بھی موجود ہیں اور میں نے مارکیٹ میں جا کر انہیں نہیں بیچا۔
ملک کی تقدیر کے ساتھ جس برے طریقے سے کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے وہ سب تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ سب مستقبل کا مورخ لکھے گا لیکن کیا آج سب چپ سادھ لیں۔ ان کرداروں کو محض اس لیے معاف کر دیا جائے کہ ان کا تعلق طاقتور حلقوں سے ہے۔ زرداری صاحب خود کہتے ہیں کہ صرف عمران باہر نکلا ہے باقی سب موجود ہیں اور وہ اس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ویسے عمران پروجیکٹ بہت بعد میں فوج نے اپنے ہاتھ میں لیا تھا اس سے پہلے یہ پروجیکٹ باہر سے آپریٹ ہو رہا تھا۔ ایسے وقت میں جب سیاستدان ایک دوسرے کو چور قرار دے رہے تھے ایک منصوبے کے تحت عمران خان کی امیج سازی کی جا رہی تھی تاہم کچھ زیرک لوگوں نے اس کو بھانپ لیا تھا۔ حکیم سعید اور ڈاکٹر اسرار احمد نے اس وقت کہہ دیا تھا کہ عمران خان کو کس مقصد کے لیے اور کس نے لانچ کیا ہے۔ آج فوج کا سابق سربراہ خود تسلیم کر چکا ہے کہ فوج کے جرنیل عمران خان کی محبت کے اسیر ہو چکے تھے اور وہی اس کو اقتدار میں لائے۔ لاحول پڑھ لیجئے۔ اپنا کام کرنا آیا نہیں اور دوسروں کے کام میں ٹانگ اڑانے چلے تھے۔ ایکس سروس مین سوسائٹی کے کچھ جنرلز نے فوج اور خاص طور پر جنرل عاصم باجوہ کو نشانہ بنایا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ یہ پہلے والی فوج نہیں ہے۔ کاش جنرل صاحب اپنے قول پر پکے رہیں اور اس فوج کو نئے کردار کے مطابق ڈھال کر اس کے اصل کردار کو بحال کریں۔ آصف زرداری نے صدارتی اختیارات کو پارلیمنٹ کو منتقل کر کے جس طرح تاریخ میں اپنا نام رقم کیا ہے جنرل عاصم منیر بھی فوج کو صرف پیشہ ورانہ کردار تک محدود کر کے اپنا نام رقم کر سکتے ہیں۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے اور سول انتظامیہ کو جب ضرورت ہو تو اس کی مدد کرنا ہے۔ یہ کردار جس دن بحال ہو گیا اور کیڈٹ کو اپنے حلف کی پاسداری کا احساس ہو گیا اس دن ہم ترقی کی منازل طے کرنا شروع ہو جائیں گے۔ جہاں تک عمران خان کا تعلق ہے تاریخ نے ان کا مقام متعین کر دیا ہے اور اس سے زیادہ کی انہیں تمنا بھی نہیں ہے۔

تبصرے بند ہیں.