عنوان: "میرا آئین، میری آزادی کا ضامن”
آئین دراصل دستور، ضابطے، قانون اور اصول کا نام ہے۔ آسمانی صحیفوں کےبعد آئین کی صورت میں زمینی دستور جیسی مقدس دستاویز کی ضرورت معاشروں میں توازن قائم رکھنےکےلئے وجود میں آئی ہے۔ آئین پاکستان ہمارے سیاسی اکابرین کی دن رات محنت کےبعد انیس سو تہتر میں پایہ تکمیل کو پہنچا جو قوم کی اجتماعی دانش کا عکاس ہے۔ اس کی بنیاد اس نکتے پر ہے کہ پورے عالم پر اختیار اللّہ کا ہے۔ یہاں اقلیتوں کو مرضی کی زندگی جینے کا مکمل حق ہے۔ مجرموں، ناخوادہ افرد کا بھی محافظ ہے۔ آئین دور دراز کسی گاؤں گوٹھ میں بیٹھی خاتون کا بھی اتنا ہی محافظ ہے جتنا عالم فاضل کا۔ آئین کی محض دو سو اسی دفعات نہیں، ہم سب کے حقوق کی ضمانت ہے۔ آئین عدالتوں میں گونجتا کوئی افسانوی فقرہ ہے نہ محض کاغذ کا ٹکڑا بلکہ زندہ جاوید حقیقت ہے۔
1973 میں ہمارا جو آئین بنا وہ ایک جمہوری دستاویز، قومی لائحہ عمل اور وفاق کی زنجیرہے۔ یہ آئین ہی پاکستان کا حقیقی معنوں میں آئینہ دار بھی ہے۔ متفقہ آئین کا منظور کرنا قومی تاریخ کا وہ لازوال لمحہ تھا جب بالاخر مملکت پاکستان کو وہ دستاویز میسر آئی جس پر وفاق پاکستان کی تمام اکائیوں کا مکمل اعتماد اور اتفاق ہے۔ یہ آئین ہی ایک اسلامی، پارلیمانی اور جمہوری پاکستان کی وہ شناخت تھی جس کا خاکہ اگرچہ قائداعظم محمد علی جناح نے گیارہ اگست انیس سو سینتالس کو پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی میں اپنے خطاب میں دے دیا تھا، لیکن اس کی تکمیل کو پچیس سال کا عرصہ لگ گیا۔ ہمارا یہ آئین بلاشبہ قائد عوام شہید ذوالفقار علی بھٹو کی مدبرانہ صلاحیتوں کا تاریخی اعتراف ہے کہ اُن کی سربراہی میں ملک کی سیاسی قیادت تمام اختلافات اور انفرادی مفادات سے بالا تر ہو کر صرف ایک سال کے عرصے میں قوم کو ایسے دستور دینے میں کامیاب ہو گئی جس نے پچاس سال کےبعد بھی ملک کی یگانگت اور سیاسی اتفاق رائے کی یکتا مثال قائم کی ہے۔ سچ پوچھیں تو یوم آزادی کے بعد ہماری ملکی تاریخ کا سب سے بڑا اور اہم دن دس اپریل ہی ہے۔ ہمارا آئین ہی مملکت کے مضبوط وفاق، بامعنی جمہوریت، اسلامی تشخص، شخصی آزادیوں اور قانون کی حکمرانی کی ضمانت ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انہی قوموں کا مستقبل تابناک ہوا ہے جو اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں اور ان کے کارناموں کو اپنے نصاب کا حصہ بنا کر اس ورثے کو نسل در نسل منتقل کرتی ہیں۔
یہ آئین ہی ہے جو میری، آپ کی اور پوری قوم کی آزادیوں کا ضامن ہے۔ آئین ہی میرے یقین کی دلیل ہے کہ آئین پاکستان کا پہلا باب ہی انسانی حقوق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ آئین کا آرٹیکل پندرہ نقل و حمل کی آزادی کی ضمانت دیتا ہے۔ شق سولہ اجتماع کی آزادی اور شق سترہ انجمن سازی کی ضمانت ہے۔ شق اٹھارہ ہمارے کاروبار، تجارت اور پیشے کی آزادی کو تحفظ دیتا ہے۔ شق انیس آزادی دیتی ہے کہ ہر شہری کو اظہار رائے کی آزادی ہے۔ شق انیس الف میرے حق معلومات یا رائٹ ٹو انفارمیشن کی ضمانت ہے۔ میرا آئین اسلام کی عظمت اور پاکستان کی سالمیت کی ضمانت ہے۔ آئین ضامن ہے کہ تمام شہری برابر ہیں۔ ان کے قانونی تحفظ کے مساوی طور پر حقدار ہیں۔ یہاں کے لوگوں میں محض نسل، مذہب، ذات، جنس، سکونت یا مقام پیدائش کی بناء پر کوئی امتیاز نہیں ہے۔ آئین پاکستان ہی مجرم کے انسانی وقار کا بھی محافظ اور ہر قسم کے استحصال کی نفی کرتا ہے۔ آئین گھر کےاندر خلوت بھی قابل حرمت قرار دیتا ہے۔
اسی آئین نے اداروں، ریاست کےستونوں اور شہریوں کو جوڑ کر رکھا ہے۔ آئین میں ہر قسم کی مذہبی آزادی اور بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عارمحسوس نہیں ہوتی کہ پچاس سال میں جب بھی وطن عزیز میں آئین کے پاسدار، ملک و ملت کے وفادار اور عوام کے تابعدار نمائندے حکومتی ایوانوں میں آئے میرا یہی آئین میری آزادی کی ضمانت بن گیا۔ لیکن جب جب بھی طالعہ آزما آئے، اُن کےساتھ دولت اور طاقت بھی آئی تو بلٹ اور بوٹ کے سہارے مُکے لہرانے والوں نے ایوانوں پر قبضہ کیا۔ پھرمیری آئینی آزادی غلامی بن گئی۔ اُس دورہ سیاہ میں آئین کے ساتھ جو ہوا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے۔
آج پھر حالات بہت نازک ہیں۔ اگر ہم چاہتے ہیں جمہوریت چلتی رہے او آئین تاقیامت ہماری آزادیوں کی ضمانت رہے۔ ریاست اور شہریوں کے درمیان عمرانی معاہدہ قائم و دائم رہے ۔ آئین کا وجود ریاست پاکستان کے استحکام اور قوم کے یقین کا ضامن رہے۔ اس کے لئے سب کو دل و جان سے تسلیم کرنا ہو گا کہ آئین محض چند الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ ملکی سالمیت اور بقا کا ضامن ہے۔ چاروں اکائیوں کومتحد رکھنے کی ضمانت ہے۔ ہم سب کی عزت اور جان و مال کا محافظ ہے۔ ہمیں عہد کرنا ہو گا کہ آئین شکنوں کو غداری کی سزا دیں گے۔ ذاتی انا اور ہٹ دھرمی کے لئے آئین کو پامال کرنے والوں کو یہاں قدم نہیں رکھنے دیں گے۔ پارلیمانی رسم و رواج کو روند ڈالنے والوں کو لگام ڈالیں گے۔ آئین شکنی کو نظریہ ضرورت کی چھتری بننے سے روکیں گے۔ ہمیں آج پھر تحفظ آئین کی قسم نبھانا ہوگی ۔ محافظین آئین کو حلف کی قسم پوری کرنا ہوگی ۔ آئین کو دبانے والی آوازکے سامنے ڈٹ کر کھڑا ہونا ہوگا ۔ آئین کے پاسداروں کو تحفظ دینا ہوگا۔ آج کی سیاسی پولائزیشن میں آئین کو غلاف میں لپیٹ کر کسی طاق پر رکھنے کا وقت نہیں۔ آئین کی پاسداری سے ہی سیاسی بحران سے نکلا جاسکتا ہے ۔ مگر یاد رکھیے۔ اگر ایسا نہ ہوا۔ آئین سے روگردانی ملک کی بنیادیں ہلا دے گی۔ معاشرے میں انارکی پھیلےگی۔ عوام میں اضطراب بڑھے گا۔ صرف دستور پاکستان پر اُس کی روح کے مطابق عمل سے ملک موجودہ مشکل حالات کی دلدل سے نکال سکتا ہے۔ آئین کی بالادستی کا عزم ہی ترقی کی راہ پر چلا سکتا ہے۔ سنگ ِ مر مر کی یہ سفید دیواریں آئین شکنی کے سیاہ دھبوں سے بچانی ہوں گی۔ آئین کو سمجھوتے اور نظریہ ضرورت سے داغدار ہونے سے بچانا ہو گا۔ کیونکہ آئین ہی اٹل حقیقت ہے۔ آئین محض دو سو اسی دفعات کی کتاب نہیں میرے حقوق کی ضمانت ہے۔ میری امید بھی ہے کہ کوئی طالع آزما متفقہ آئین پامال نہ کرے ۔ کوئی آئین پر حملہ آور نہ ہو۔ کوئی آئین سے کھلواڑ نہ کرے۔ بند مٹھی کی طرح آئین کا بول بالا کرنا ہوگا۔ آئین پاکستان زندہ باد۔ پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر۔ زینب وحید
تبصرے بند ہیں.