گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے

53

ابھی یاد کریں کچھ زیادہ پہلے کی بات نہیں کر رہی سیاسی لفظوں کی گولہ باری عروج پہ تھی۔یکدم سب کچھ بدل گیا تقاریر تھم گئیں۔آخر اس کے پیچھے کی کہانی کیا ہے بات ہے گہرائی کی مگر سمجھ تو آرہی ہے شعور والوں کو ظاہری بات ہے کہ اقتدار میں اسقدر کشش کہ اس کو پانے کے لیے کوئی بھی حد ان لوگوں کے لیے مقرر نہیں۔اور تو اور اقتدار کی ہوس میں ہر کارڈ کھیلتے ہیں اور ہر جائز اور ناجائز کام کو اپنے مفاد کے لیے جائز کر لیتے ہیں۔ کل تک جو ایک دوسرے پہ گولہ باری کر رہے تھے آج وہی جماعتیں خاموش اس لیے ہیں کہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کا پراسس کر چُکے ہیں اور جمہوریت کے ٹھیکیداروں کو کچھ صبر مل گیا۔ایک بات جو میں کہنا نہیں چاہتی مگر پھر بھی بتا رہی ہوں یہ سیاستدا ن کوئی بھی بڑا کام اپنا پورا ہو جانے کے بعد مکہ چلے جاتے ہیں شاید نوافل شکرانہ وہاں ادا کرنا ہوتے ہیں۔ اس وقت اگر میں بات کروں صرف پاکستا ن میں ہی نہیں مسلمانوں کو پوری دنیا میں ہی مشکل کا سامنا ہے۔مقبوضہ کشمیر،شام،فلسطین،سب جگہ مسلمانوں کی نسل کُشی کی جا رہی ہے۔ایک بات جو نہایت ہی قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ انڈیا نے جو موقف دیا وہ نہایت ہی اہم ہے۔ انڈیا نے مشرقی یروشلم اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے سے متعلق قرارداد کے مسودے سے خود کو الگ کر لیا ہے۔اس تجویز کے حق میں 87اور مخالف میں 26ووٹ اور 53ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔امریکہ اور اسرائیل نے قرارداد کے مسودے کے خلاف ووٹ دیا جبکہ بھارت، برازیل، جاپان، میانمار، اور فرانس نے ووٹ نہیں دیا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ بیت المقدس یا یروشلم اس کا غیر منقسم دارالحکومت ہے جبکہ فلسطینی عوام مشرقی بیت المقدس کو اپنی مستقبل کی ریاست سمجھتے ہیں۔اب اہم بات یہ کہ انڈیا نے اسرائیل کا ساتھ نہیں دیا اور بین الاقوامی سطح پہ یہ ثابت کیا کہ انڈیا انسانی حقوق،اور انسانیت سوز واقعات پیش آنے پہ اسرائیل کا ساتھ نہیں دے گا یعنی انہوں نے خود کو بین الاقوامی سطح پہ اپنے اس عمل سے پر امن ثابت کیا۔اسرائیل کے خلاف کھڑے ہونے کا صرف ایک یہی مقصد پوشیدہ ہے۔ مگر انڈیا نے کس طرح اپنے ہی ملک کے گجرات شہر میں مسلمانوں کی نسل کُشی کی۔
مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو آر ایس ایس کے غنڈے سرعام بیدردی سے کاٹ کے شہید کرتے ہیں۔ابھی تازہ اسد الدین اویسی کا بیان انڈیا ٹوڈے میں آیا ہے کہ انڈیا میں مذہب کے نام پہ انکاؤنٹر کیا جا رہا ہے انڈیا میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک اور انہیں خطرناک قرار دے کے پولیس کے ہاتھوں ہی ختم کرا دیا جاتا ہے جسے بی جے پی بڑی آسانی سے کرا رہی ہے۔ یہ سب جو انڈیا میں کیا جا رہا ہے کیا یہ انسانوں سے اچھا سلوک کیا جا رہا ہے ہمیشہ سے انڈیا خود کو پرامن اور پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کی کوشش میں ہی رہا ہے۔مگر بڑی چالاکی سے خود کو بیان بازیوں سے ہی صاف اور پرامن کر لینے کا فن انڈیا کے پاس پرانا ہے۔خصوصاً جب سے مودی سرکار کی حکومت آئی ہے تب سے پاکستان اور انڈیا کے تعلقات کبھی بہتر ہوسکے،نہ ہی تجارتی تعلقات پہلے جیسے بلکہ جب سے مودی برسر اقتدار ہوا پاکستان کے خلاف انڈیا نے بے شمار موویز بنا کر اپنی قوم کے دل میں پاکستان مخالف زہر بھرا۔اور اگر ایسی کوئی سٹوری پاکستان میں لکھی جائے تو اُس پہ مووی بننا دور کی بات اُس رائٹر پہ ہی پابندی لگا دی جائے گی۔ پہلے پاکستان سے چیمبر آف کامرس سے بزنس کی غرض سے وفد ایگزی بیشن کے لیے جایا کرتے تھے جو اب جاتے ہوئے ڈرتے ہیں اور تو اور اب رائیٹرز کے وفد بھی کم ہی جاتے ہیں۔کیا یہ سب امن کی علامت ہے جبکہ پاکستان ٹورازم کو ہمیشہ پروموٹ کرنے کی ہی بات کرتا ہے۔ انڈیا اقوام متحدہ مخالف بیان دے کر خود کو صاف ظاہر نہ کرے۔اب یہ ڈھیل ساری پاکستان کے حکمرانوں کی جانب سے ہے کہ انہوں نے کبھی جرأت کا مظاہرہ نہیں کیا انڈیا سے جب کوئی بھی وفد پاکستان چاہے وہ بزنس کے پوائنٹ آف ویو سے آئے یا رائیٹرز کی صورت میں پاکستان نہال ہو جاتا ہے اُنہیں نہ صرف گرم جوش خوش آمدید کیا جاتا ہے بلکہ تمام سہولیات بھی دی جاتی ہیں۔ پاکستان کے حکمران آپسی سیاسی چپقلش سے نکلیں تو بات بنے گی اب ایک سائٹ جو ٹویٹر پہ ایکٹو ہے پاکستان یوتھ فار اسرائیل جس کو ہمارے تمام سیاسی حکمرانوں نے بھی فالو کیا ہے اس سے ایک بات ثابت ہو تی ہے کہ اب پاکستان کی یوتھ کو آہستہ آہستہ مولڈ کیا جا رہا ہے۔ جب خود اس قسم کی نرمیاں کی جائیں گی تو ہم قصور وار کس کو ٹھہرائیں۔محاورہ عین ہمارے سیاستدانوں پہ فٹ ہوتا ہے گھر کا بھیدی لنکا ڈھائے۔ابھی چند روز پہلے مجھ سے کسی نے سوال پوچھا کہ اگر انڈیا سے ٹریڈ کر سکتے ہیں تو اسرائیل سے کیوں نہیں تو میں نے اس بات کا جواب قرآن کی رو سے ہی دیا۔ قرآن اور تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہودی گزشتہ چودہ صدیوں سے اسلام کے سب سے بڑے دشمن رہے ہیں۔اور جب تک ان میں حب جاہ اور قوم پرستی موجود رہے گی یہ دُشمنی جاری رہے گی۔ اہل ایمان سے ان کی دشمنی کے اسباب میں سے تکبر،کفر،خواہشات،کی پیروی،اندھی تقلید،تحقیق و جستجو سے دوری،انبیاء علیہم السلام کی تکذیب میں سرکشی اور ان سے دشمنی کرنا قابل ذکر ہیں۔اللہ تبارک تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا(یقینا تم یہود اور مشرکین کو مومنین کی دشمنی میں شدید پاؤ گے)یہ قیامت تک تعداد میں کم ہونگے مگر مسلمانوں پہ حاوی رہیں گے ایسا ہو رہا ہے۔ان کو حاوی ہمارے حکمرانوں نے ہی وقتی اقتدار کی لالچ میں اسقدر کر رکھا ہے کہ اب کوئی آپشن باقی نہ بچا۔ایسی کئی خواتین جو انسانیت، جمہوریت، سوشل ایکٹویسٹ ہیں اُن کو آج تک نہ تو کبھی کسی فارم پہ ڈسکس کیا گیا اور نہ ہی انہیں کبھی نوبل انعام سے نوازا گیا۔جس پاکستانی کو نوبل انعام دیا گیا میں اس کالم میں اُس کا نام بھی نہیں لینا چاہوں گی ایک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ اُنہیں ہی انعام ملے گا جو ان کی جی حضوری کرے گا۔آجکل ایک نئی خاتون پھڑکتی ہوئی منظر عام پہ آرہی ہے اور وہ اسرائیل سے ٹریڈ کے فوائد کی روز تبلیغ کر رہی ہے جس کے پیچھے پوری ایک لابی کام کر رہی ہے جیسا کہ آپ کو میں نے پہلے بھی بتایا ہے۔ہر ترقی یافتہ ملک کے کچھ قواعد و ضوابط ہیں جنھیں کوئی بریک نہیں کر سکتا مگر پاکستان واحد ملک ہے جو فیصلے ہمیشہ دوسروں کی ٹیبل پہ جا کر کرنے میں زیادہ خود کو مطمئن محسوس کرتا ہے۔ سب سے مزے کی بات جو کام اچھا ہو وہ یہ اپنے خاتے میں ڈال لیتے ہیں اور جو کام خراب ہو جائے وہ یہ بات قوم کے آگے رکھ کے بری الزمہ ہو جاتے ہیں کہ اس کام کے پیچھے بیرونی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔اسی وجہ سے ہمارے خارجی معاملات کسی بھی ملک سے آج تک بہتر نہیں ہو پائے۔

تبصرے بند ہیں.