”دوست“ نے فون کیا کہ مولانا طارق جمیل میری طرف آئے ہوئے ہیں رات قیام کریں گے، آپ ضرور آئیں۔ میں مدینہ سے واپس تو آ چکا تھا مگر مدینہ میری رگ و پے میں بس چکا تھا۔ مولانا طارق جمیل کو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا یہ 2012 کی بات ہے ان کی چند ریکارڈنگز سن رکھی تھیں۔ میں نے ایک کتاب دوست کے لیے اپنے ہاتھ میں پکڑ رکھی تھی مگر مجھے شناخت نہیں تھی کہ مولانا کون ہیں، میں متلاشی تھا۔ بیڈ کے کونے پہ ذرا اہتمام سے بیٹھے ہوئے شخص کی طرف ”دوست“ نے اشارہ کیا کہ مولانا ہیں۔ میں نے سلام کیا تو انہوں نے کتاب پکڑ لی۔ مولانا نے کتاب کھولی اور انتساب میں ایک لائن ”ان ساعتوں کے نام جب کم سن والیئ کائنات آقا کریمؐ اپنی والدہ ماجدہ کے جنازے کے پیچھے دوڑ رہے تھے“۔ (دراصل تدفین کے بعد جناب سیدؐ حضرت آمنہ بنت واہب سلام اللہ علیہا کے پاس رہنے والی ام ایمن کے ساتھ جب وہاں سے دریتیم کم سن والیئ کائنات نکلے تو بار بار روتے ہوئے والدہ ماجدہ کی قبر کی طرف بھاگتے)۔ مولانا نے یہ پڑھا اور میری طرف بڑی عمیق نظروں سے دیکھتے رہے، میرا ہاتھ چند منٹ اپنے ہاتھوں میں رکھا اور گویا ہوئے کہ آپ نے بڑا (کمال) لمحہ چنا ہے، میں نے عرض کی میں خاکِ پا قصویٰ (سرکار کی اونٹنی) تو ابواء کے مقام پہ ہی کھڑا ہوں۔ آقاؐ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ و واقعہ نظروں میں رہتا ہے مگر میں ابواء کے مقام پر جناب حضرت آمنہ سلام اللہ علیہا کی مرقد اقدس کے پہلو میں چشم تصور میں آقا کریمؐ کی بے بسی اور ام ایمن کے حوصلے مگر بے چارگی میں روحانی طور پر موجود رہتا ہوں۔ بہرحال ان کو بھی کتاب دی ان کے خادمین باقی 10/12 کتابیں لے گئے۔ابھی تو آؤ مدینے چلیں، اللہ کے گھر عمرہ سے فارغ ہوا، جناب سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ام المومنین محسنہ امت کی مرقد اقدس پر (جنت المعلیٰ) میں حاضری دی اور ان سے ان کی اولاد پر کربلا میں بیتنے والی خونیں داستان پر شرمندگی اور آنسوؤں کی جھڑی میں پُرسا دینے کے بعد (میں اپنی بات کرتا جناب حضرت ابو طالب کی مرقد پر حاضری اور دل میں کوئی بات کر کے) مدینہ روانہ ہوں گے، ہجرت سے پہلے کے واقعات روح و قلب پر قابض ہوں گے، اب ہجرت کے بعد سرکارؐ کا قبا میں پڑاؤ، ہم آگے بڑھیں گے، سرکارؐ کے در پر حاضری ہو گی۔ ہر ایک کا اپنا طریقہ ہے مگر ایک بات طے ہے کہ
ادب کا ہے اعلیٰ مقام آیا۔ مدینہ قیام پذیر ہستی جن کے لیے مولانا رومیؒ
مصطفیؐ آئینہ روئے خداست
منعکس در وے ہمہ خوئے خداست
………………
یا صاحب الجمال و یا سید البشر
من وجہک المنیر لقد نور القمر
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر
خوابوں میں جو دیکھا اور کتابوں سے جو پڑھا، میرے آقاؐ خوب رو بوٹا سا قد نہ زیادہ طویل القامت نہ اس قدر پست، سر بڑا، اس پر سیاہ گھنگریالے بال، جبیں کشادہ، بھنویں بالوں سے بھری ہوئیں اور خمیدہ سی، آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی جن کی سیاہی کے بعد نہایت کھلی ہوئی سفیدی اور سفیدی کا حلقہ سرخ مدورسا ہالہ جس نے جاذبیت میں اور بھی اضافہ کر دیا۔ بقول مولانا حاجیؒ گلاب نے جن کے چہرے سے نزاکت سیکھی، بلبل نے اپنی زبان کی مٹھاس آقاؐ سے سیکھی۔ پھر میرا تو دھیان لوٹ جائے گا چشم تصور میں 1400 سال پیچھے مسجد نبویؐ سادہ سی، بجلی نہیں ہے، رات کا سماں ہے چودھویں کا چاند اپنی جولانی پر ہے، ستاروں نے آسمان کو سجا رکھا ہے۔ چاند ہے کہ اس کی روشنی چارسُو منور کیے دے رہی ہے۔ مسجد کے صحن میں صحابہ کرام اجمعین آقاؐ کے سامنے حاضر خدمت ہیں۔ حضرت سمیرؓ فرماتے ہیں کہ آقا کریمؐ سرخ جوڑا زیب تن کیے ہوئے تھے اور صحابہ اجمعین آپؐ کے چہرہ انور کی طرف نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ آقاؐ کا کلام کانوں میں رشد و ہدایت کا رس گھول کر سینوں میں اتر رہا تھا اور آوازِ طیبہ فضاؤں کو معطر کیے دے رہی تھی صحابہ رضوان اللہ اجمعین کبھی چاند پر نظر ڈالتے چودھویں کا چاند اپنی جوانی پر تھا مگر سرکارؓ کے چہرہ انور کے سامنے چاند بے بس اور معدوم تھا۔ گویا چاند نے بھی روشنی کے حوالہ سے آقا کریمؐ کے چہرہ انور سے عکس پایا ہو۔ جیسے والیئ کائناتؐ کی محفلیں، والیئ کائناتؐ کی باتیں اور ان فضاؤں میں سانس لینے والوں کی پاکیزگی و بالیدگی، کیا وہ مدینہ کبھی لوٹ پائے گا مگر اب والیئ کائناتؐ کا مسکن قیامت تک مدینہ کی پاکیزگی اور حاجت مندوں، بے کسوں کے سلام کا جواب، عرضیوں کی قبولیت اور التجاؤں پر سفارش کا محور رہے گا۔
آؤ مدینے چلیں، وہاں حضرت امیر حمزہؓ کے مسکن کی خوشبو کو سانسوں میں بسائیں گے ہاں سامنے ہی میدان اُحد کا وہ ٹیلا بھی جس کے پہلو میں آقا کریمؐ جلوہ افروز تھے اور ہاں ابو دجانہ کی شجاعت کو نہیں بھولنا۔ جب آقا کریمؐ نے اپنی تلوار میان سے نکال کر آگے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے فرمایا: ”مسلمانو! تم میں سے کون بہادر اس تلوار کا حق ادا کر سکتا ہے؟“۔ ابو دجانہؓ (سماک بن خزخشہ) عرض گزار ہوئے: ”یا رسول اللہﷺ اس تلوار کا کیا حق ہے؟“۔ فرمایا: ”اس تلوار کا حق یہ ہے کہ دشمن کے ٹکڑے بکھیرتی ہوئی خم کھا جائے،“ مرد شجاع ابودجانہؓ گھر ہی سے سر پر وہ سرخ پٹی باندھ کر نکلا تھا (جسے عرب میں موت کا تسمہ کہا جاتا ہے)۔ اس نے ایک ہاتھ تلوار کے قبضے پر رکھا دوسرے ہاتھ سے سر کی پٹی کو مضبوطی سے کس لیا اور فاخرانہ چال سے قدم دشمن کی طرف بڑھایا۔ سرخ پٹی بندھی ہوئی ہے، کافروں میں سے جو زد میں آ گیا زمین پر لوٹنے لگا۔ ابو دجانہؓ مشرکین کو قتل کرتے ہوئے ان کے قلب میں در آئے۔ اتفاق سے ایک ایسے انسان پر نظر پڑی جو دوسرے انسان کے اعضا قطع کر رہا تھا۔ ابو دجانہؓ نے تلوار اٹھائی ہی تھی کہ بے رحم قاتل نے واویلا شروع کر دیا۔ غور سے دیکھا تو ابو سفیان کی بیوی ہندہ (بنت عتبہ) ہے۔ ابو دجانہؓ اس خیال سے واپس لوٹ آئے کہ رسولؐ کی تلوار عورتوں پر آزمانا زیبا نہیں۔
آؤ مدینے چلیں، جہاں 50 ہزار فرشتے صبح اور 50 ہزار رات کو فرائض انجام دیتے ہیں اور قیامت تک دوبارہ باری نہ آئے گی جہاں اللہ اور فرشتے درود و سلام بھیجتے ہیں اور اللہ مومنین کو بھی یہی حکم دیتا ہے۔ آؤ مدینے چلیں، وہاں پر حضرت سعد بن ابی وقاصؐ مسلمانوں کے پہلے تیر انداز کی روح کو بھی سلام کہیں گے جن کے لیے آقاؐ نے فرمایا کہ اے سعد میرے ماں باپ تم پر قربان۔آؤ مدینے چلیں، وہاں جنت البقیع میں اماں عائشہؓ، آقا کریم کی پھوپھیوں، اہل بیت اطہار کی قیام گاہوں، حضرت عثمان غنیؓ کے مرقد اقدس پر سلام و حاضری ہو گی، باقی اہل بقیع کو بھی سلام کریں گے اور ہاں حضرت معاذ بن جبلؓ جب وہ گورنر یمن بنا کر بھیجے گئے تو سرکارؐ میلوں تک پیدل چلتے آئے اور دس نصیحتیں کیں۔ اور فرمایا کہ جبل کے بیٹے میں تم سے محبت کرتا ہوں تم آج کے بعد شاید مجھ سے مل نہ پاؤ جس پر معاذ بن جبل ؓ جو صحابہ میں بہت بڑے فقیہہ تھے، آبدیدہ اور فکر مند ہو گئے جن کے لیے حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ معاذؓ نہ ہوتا تو عمرؓ ہلاک ہو چکا ہوتا، کو بھی سلام کریں گے۔ آؤ مدینے چلیں اور آقاؐ کے دراقدس کے گداؤں کو سلام کریں۔ پہلے حسرتیں لے کر گیا تھا، گناہوں کا بوجھ بھی تھا اور جب واپس لوٹا، بوجھ بھی بڑھ گیا حسرتیں بھی، مگر اب کی بار تڑپ جان کاٹے جا رہی ہے، آؤ مدینے چلیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.