پاکستانی سیاست میں بات چیت کا کلچر؟

96

ذوالفقار علی بھٹو کے کارناموں میں ایک بڑا کارنامہ ملک کا آئین بنانا ہے۔ 1973 میں اپوزیشن لیڈرز مفتی محمود، پروفیسر عبدالغفور، مولانا شاہ احمد نورانی اور مولانا ظفر احمد انصاری کے تعاون سے بھٹو صاحب نے بالآخر پاکستان کا متفقہ آئین بنوا کر ایک کارنامہ ہی انجام دیا تھا۔ یہ زبردست کام حکومت اور اپوزیشن کے مابین مسلسل مذاکرات ہی کی بدولت ہوا تھا۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ چار برس کے بعد سیاست میں ایک بھونچال سا آیا۔ بھٹو کی حکومت کمزور ہونے لگی۔ انہوں نے سیاسی عمل کے ذریعے حالات کا مقابلہ کیا اور ایک وقت ایسا آیا کہ بھٹو صاحب نے اپنی دانست میں حالات پر قابو بھی پالیا۔ اس وقت انہوں نے محسوس کیا کہ اپوزیشن کے تیار ہونے سے پہلے اور مدت پوری ہونے سے قبل ہی اسمبلی کو تحلیل کر کے عام انتخابات کا اعلان کر دیا جائے۔ اس اچانک فیصلے نے ہلچل مچادی۔ بھٹو صاحب کے چند سیاسی دوستوں نے اور پارٹی ممبرز نے بعض نشستوں پر بلا مقابلہ منتخب ہونے کا منصوبہ بنا لیا تھا۔ اس کی تکمیل کے لیے کچھ غیر آئینی اقدامات کیے گئے۔ عام انتخابات کے نتائج اپوزیشن کے لیے قابل قبول نہیں تھے اور نو
جماعتی اتحاد میں شامل سیاسی جماعتوں نے الیکشن کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔پیپلز پارٹی نے سختی کی مگر احتجاج بڑھتا گیا۔ حالات بگڑتے گئے۔ اگر غور کیا جائے کہ تین چار برس میں کیا ہو گیا کہ بھٹو حکومت کمزور ہوتی گئی تو پتہ یہ چلتا ہے کہ آئین بننے کے کچھ عرصے بعد ہی انہوں نے اس میں اتنی ترامیم کرادیں کہ اصل آئین کا حلیہ ان ہی کے دور حکومت میں بگڑ چکا تھا۔ پھر بعد میں بھی ہر حکمران اپنی ضرورت اور اکثریت کی بدولت آئین میں ترامیم لاتا رہا۔ اب جو آئین ہے وہ 1973 والا تو بالکل نہیں رہا۔ اتنی بات ضرور ہے کہ عوام کے نمائندوں نے اپنے اختیارات کے تحت ہی تبدیلیاں کیں۔ دوسری غلطی بھٹو صاحب نے یہ کی تھی کہ عوامی اور کرشماتی شخصیت ہونے کے باوجود نوکر شاہی اور پولیس اور دیگر اداروں پر انحصار کرنے لگے تھے۔ عوام سے رابطہ کم ہونے لگا تھا۔ سیاسی مخالفین پر ریاستی جبر بڑھنے لگا تھا۔ صحافت پر قدغن لگنے لگی تھی۔
خیر 1977 کے انتخابات میں جو بے ضابطگیاں ہوئیں ان کی وجہ سے اپوزیشن کا اتحاد ہوا اور پاکستان قومی اتحاد وجود میں آیا۔ احتجاج اتنا شدید ہو گیا کہ فوج
کی موجودگی بھی عوام کو روک نہیں سکی۔ ایک بات قابل ذکر ہے کہ جلسے جلوس توڑ پھوڑ سب ہو رہے تھے مگر بھٹو کی یہ خوبی تھی کہ وہ ان ہی سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات بھی کرتے جا رہے تھے۔ اپوزیشن کی طرف سے مولانا مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، نوابزادہ نصراللہ جبکہ حکومت کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو، عبدالحفیظ پیرزادہ اور مولانا کوثر نیازی مذاکرات کرتے تھے۔ کبھی بات بنتی نظر آتی اور کبھی بگڑتی۔ آخر میں سمجھوتہ ہو گیا تھا اور بھٹو انتخابات دوبارہ کرانے پر راضی بھی ہو گئے تھے۔ لیکن اچانک فوج نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ بھٹو سمیت پیپلز پارٹی کے چند رہنما اور اپوزیشن کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ مارشل لا بھی سیاستدانوں کی وجہ سے ہی لگا۔ پی این اے کی تحریک کے زمانے میں جب بھٹو نے اپوزیشن رہنماؤں کو نظر بند کر دیا تھا تو نظر بندی کے دوران ہی ائیر مارشل اصغر خان نے خط لکھ کر فوج کے سربراہ کو مداخلت کی دعوت دے دی حالانکہ سمجھوتہ ہو چکا تھا۔ اور اعلان ہونے ہی والا تھا مگر اصغر خان اور دو ایک اور اپوزیشن رہنما اس سمجھوتے کے حق میں نہیں تھے۔ اس طرح فوج کو موقع مل گیا۔
ماضی کے ان واقعات کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ سیاست میں مذاکرات ضروری ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ حکومت یا اپوزیشن مذاکرات میں سنجیدہ نہیں ہوتے ہیں مگر دوسرے فریق کو الجھانے کے لیے مذاکرات میں مصروف کر دیتے ہیں اور دوسری جانب اپنی چالیں چل کر مخالف کو مات دے دیتے ہیں۔ بھٹو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ ایسی شاطرانہ چال کے لیے مشہور تھے۔
اب جو سیاست پاکستان میں ہو رہی ہے وہ سیاست نہیں بلکہ دشمنی ہے۔ مذاکرات تو کیا ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کے روادار نہیں ہوتے یہ لوگ۔ شروع شروع میں تو عمران خان بالکل غیر لچکدار رویہ اپنائے ہوئے تھے۔ کسی اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانے تک کے لیے تیار نہیں تھے۔ اب زرداری، مریم نواز اور رانا ثنا اللہ محاذ آرائی میں اتنے آگے چلے گئے ہیں کہ واپسی ممکن نظر نہیں آتی۔
سیاسی جھگڑے اپنی جگہ اب تو سپریم کورٹ کے ججز آپس میں دست و گریباں ہیں۔ عام انتخابات کو رکوانے کے لیے تیرہ جماعتی اتحاد متحد ہے۔ اور ایسا اس لیے ہے کہ عمران خان کی تحریک انصاف عوامی مقبولیت کی معراج پر پہنچی ہوئی ہے۔ اس ڈر سے تیرہ جماعتیں حیلے بہانوں سے انتخابات کا التوا چاہتی ہیں۔ ان کی اس کوشش میں مدد کے لیے ججز بھی کود چکے ہیں۔ کہا یہ جا تا ہے کہ جج قاضی فائز عیسیٰ کے چیف جسٹس کے عہدے پر اکتوبر میں فائز ہونے کے بعد اور صدر پاکستان کی نشست خالی ہونے کے بعد شائد مسلم لیگ ن الیکشن کے لئیے تیار ہو جائے اور وہ بھی اس شرط پر کہ نواز شریف کی سزا کو ختم کیا جائے اور عمران خان کو نا اہل کرا کے قید کرا دیا جائے۔ حالات جس طرف جا رہے ہیں اس سے اندازہ یہی ہوتا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ کے کچھ ججز ن لیگ کو اپنے مقصد میں کامیاب دیکھنا چاہتے ہیں۔ چند مہینوں میں افتخار چودھری کی جگہ قاضی فائز عیسیٰ لینے والے ہیں۔ افتخار چودھری نے وکلا تحریک کے بل بوتے پر ایک طرح سے عدالتی مارشل لا نافذ کر دیا تھا۔ پارلیمان کی توقیر اسی زمانے میں پامال ہوئی۔ ہر سیاسی معاملہ عدالتوں میں جانے لگا جو آج بھی ہو رہا ہے۔
ملک جن حالات سے گزر رہا ہے پی ڈی ایم کے
لیے سب سے اچھا یہ ہوتا کہ فوری الیکشن کرا کے اقتدار عمران خان کے حوالے کر دیتی۔ معیشت کا جو حال ہے عمران خان بھی بر سر اقتدار آکر درست نہیں کر سکتے۔ اس کے بعد تو ن لیگ کی راہیں خود بخود کھل جاتیں۔ مگر نواز شریف کو جلدی کلین چٹ لے کر اقتدار میں آنا ہے اسی لیے مریم نواز کو پلانٹ کیا گیا ہے۔ نیب ترامیم کر کے نواز، شہباز، زرداری وغیرہ پہلے ہی مقدمات سے نکل گئے ہیں۔ عمران خان کے جذباتی اور غیر لچکدار رویوں نے ملکی معاملات کو اور بگاڑ دیا ہے۔ جلدی الیکشن کرانے کی عجلت میں انہوں نے قومی اسمبلی سے نشستیں چھوڑیں پھر بغیر کسی مناسب حکمت عملی کے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر دیں تاکہ انتخابات پر حکومت مجبور ہو جائے۔ ہر قدم ناکام ہوتا گیا۔ جب کبھی عمران مذاکرات کی بات کرتے ہیں تو مریم نواز، رانا ثنا اللہ اور زرداری نفرتوں کی بات کرتے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ دور بیٹھی تماشا دیکھ رہی ہے۔ اس سے کم بُرے حالات کا بہانہ بنا کر فوج کئی بار جمہوری حکومتوں کو الٹ چکی ہے۔ کیا اس بات کا امکان ہے کہ ملک کو بچانے کے نام پر ایک بار پھر فوج مداخلت کر سکتی ہے یا عمران خان کا راستہ روکنے کے لیے سب ایک ہو جائیں گے اور شائد ہو بھی چکے ہوں۔

 

تبصرے بند ہیں.