اداروں کی تقسیم اور ٹکڑاؤ نے اس مْلک کو تباہی کے آخری مقام پر لا کر کھڑے کر دیا ہے، نااْمیدی گناہ ہے مگر اْمید کا کوئی دیا دْور دْور تک اب نظر نہیں آتا، اندھیرے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکے ہیں، یہ جو ماحول اس وقت بنا ہوا ہے مجھے اپنے صوفی دانشور اشفاق احمد کی یہ بات رہ رہ کر یاد آتی ہے ”اس مْلک کو اتنا نقصان ان پڑھ لوگوں نے نہیں پہنچایا جتنا پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا ہے“، یہ جو آج ہر قومی ادارہ آپس میں دست و گریبان ہے اْن اداروں میں بیٹھے ہوئے”پڑھے لکھوں“ سے وہ ان پڑھ ہزار درجے بہتر ہیں جو ان”پڑھے لکھوں“ کی گھناؤنی حرکتوں پر تشویش میں مبتلا ہیں، کچھ اداروں کی تقسیم سامنے آگئی ہے، کچھ کی سامنے آنے نہیں دی جارہی، مگر دیوار پر لکھا صاف نظر آ رہا ہے، بددعا یقینانہیں دینی چاہئے مگر آج اس مْلک کا ہر محب وطن یہ بددعا دینے پر مجبور ہے ”جس جس نے اس مْلک کو اس بدترین مقام تک پہنچانے میں کردار ادا کیا اللہ اْسے غارت کرے، عبرت کا نشان بنا دے۔۔ ایک شعر ہے
حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا
کوئی ٹھہرا نہیں ہے حادثہ دیکھ کر
ہمارے ہاں اب حادثے نہیں صرف سانحے ہوتے ہیں، یہ بھی ایک سانحہ ہی ہے مْلک معاشی سیاسی اخلاقی و عدالتی لحاظ سے، بلکہ بغیر کسی لحاظ کے ہر لحاظ سے مکمل طور پر دیوالیہ ہو چکا ہے اور کوئی ایک ایسا”بڑا“ دکھائی نہیں دیتا جو آگے بڑھ کر اس مْلک کی”سیاسی و اصلی بدمعاشیہ“ کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جائے کہ مْلک کا خون آپ پی چکے، بنیادیں آپ چاٹ چْکے، ہڈیاں آپ نوچ چکے، اس”لاش“ کومزید کہاں تک اب آپ گھسیٹیں گے؟۔۔ میری دو بہنیں ہیں، بہت سال پہلے میری والدہ میری بہنوں کے جب رشتے طے کر رہی تھیں، بڑے بڑے اچھے لڑکوں کے رشتے اْنہوں نے صرف اس لئے نظر انداز کر دئیے اْن لڑکوں کے بڑے یا اْن کے والدین زندہ نہیں ہوتے تھے، میں امی سے کہتا تھا ”لوگ تو ایسے گھرانے ڈھونڈتے ہیں جہاں ساس سْسر نہ ہوں، ایک آپ ہیں بڑے بڑے اچھے رشتوں کو صرف اس لئے نظر انداز کر دیتی ہیں کہ لڑکے کے والدین وفات پا چکے ہیں“ وہ فرماتی تھیں ”بیٹا یہ جو بڑے ہوتے ہیں ناں یہ گھروں کو بچا لیتے ہیں، کچھ وہ اپنی بہو کو سمجھاتے ہیں کچھ اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہیں اور معاملات طلاق تک آنے سے بچ جاتے ہیں، جس گھر کے بڑے نہ ہوں وہ گھر مشکل سے ہی بچتے ہیں“۔۔ پاکستان بھی ہمارا ایک ”گھر“ہے ہمارے ساتھ حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا ہمارے”بڑے“ نہیں رہے، چھوٹے چھوٹے دل و دماغ والے سیاستدانوں اور حکمرانوں کو سمجھانے والے اب نہیں رہے، سب تماشا دیکھنے والے ہیں، اپنے اپنے ذاتی و مالی مفادات کے دائروں سے باہر نکلنے کے لئے کوئی تیار نہیں ہے، مْلک کے سیاسی و معاشی حالات کا تقاضا یہ تھا مْلک کے مفاد میں اب سب اکٹھے ہو جاتے، حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہوا سب مزید بکھر گئے، بچے بھی آپس میں اس طرح نہیں لڑتے جس طرح ہمارے ”بڑے“ آپس میں لڑ رہے ہیں، پاکستان کی مکمل بربادی کا سکرپٹ جہاں بیٹھ کر جو بھی لکھ رہا ہے بظاہر تمام ادارے تمام”بڑے“ اْس کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں، ہر بڑی کْرسی پر ایک”بونا“ براجمان ہے، ہر شاخ پہ اْلو بیٹھا ہے، گلستان کی ساری کلیاں گرتی جارہی ہیں سارے پْھول مْرجھاتے جا رہے ہیں، اس مْلک کی سیاسی و اصلی بدمعاشیہ اپنے مخالفین کو سرعام گالیاں دیتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچتی قبر میں کیا منہ لے کر وہ جائے گی؟ کیا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اْمتی کہلوانے کی حقدار ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو نے فرمایا تھا”روز قیامت میرے سب سے قریب وہ ہوگا جس کے اخلاقیات بلند ہوں گے“، اس مْلک کے اخلاقیات کا جنازہ نکل گیا، اس مْلک کا وفاقی وزیر تعلیم ایک اعلیٰ درس گاہ کے کانووکیشن میں تقریر کرتے ہوئے سرعام غلیظ گالی دیتا ہے، شرمندگی کا ہلکا سا احساس اْسے نہیں ہوتا، اور حادثے سے بڑھ کر سانحہ یہ ہے کانووکیشن میں موجود کوئی طالب علم اْس کی اس گالی پر احتجاج نہیں کرتا، کوئی اْستاد بطور احتجاج کانووکیشن چھوڑ کر نہیں جاتا، ہمارا میڈیا اس سانحے کو عام سی اک بات سمجھ کر نظر انداز کر دیتا ہے، ہمارے دانشور اس پر چْپ سادھ لیتے ہیں، کسی مہذب مْلک یا معاشرے کے کسی وزیر نے یہ حرکت کی ہوتی اْسے فوری طور پر برطرف کر دیا جاتا، اور سزا بھی دی جاتی، یہاں ہم اْس کی اس حرکت پر اس یقین میں مبتلا ہوگئے اْسے مزید اعلیٰ عہدے سے اب نواز دیا جائے گا، بلکہ سچ پوچھیں وہ وزیراعظم بننے کا اہل ہے، ہمارے موجودہ وزیراعظم کسی کو گالی نہیں دیتے، مگر اْن کے کچھ اعمال گالی سے زیادہ تکلیف دہ ہیں، جیسے اْن کا یہ عمل گالی سے زیادہ تکلیف دہ ہے کہ اپنے وزیر تعلیم کی گالی کا اْنہوں نے کوئی نوٹس نہیں لیا، پھر اگلے روز اْسی وزیر تعلیم نے قومی اسمبلی میں اپنی جماعت کے ایک سیاسی مخالف اور اْس کے اہل خانہ کے لئے جو بدزبانی کی اْس کا بھی کوئی نوٹس نہیں لیا، ہمارے کچھ سیاستدانوں کے ”منہ کی بواسیر“ اللہ جانے کب ختم ہوگی؟ وزیراعظم شہباز شریف خود کو اخلاقی لحاظ سے خودبخود ہی عمران خان سے بہتر قرار دیتے ہیں مگر اپنے وزیر تعلیم کی بدزبانیوں کا کوئی نوٹس نہ لے کر اْنہوں نے ثابت کر دیا بدزبانیوں و بداخلاقیوں میں خان صاحب کا پورا مقابلہ وہ کرنا چاہتے ہیں۔۔ یوں محسوس ہوتا ہے پاکستان میں ایک ایسی ”قوت“ ضرور ہے جو باقی سب قوتوں کو آپس میں لڑا لڑا کر ختم کرنا چاہتی ہے تاکہ اْس کے بعد صرف اْسی قوت کا راج رہے، راج تو ویسے اب بھی اْسی قوت کا ہے مگر دولت کی لالچ کی طرح طاقت کی لالچ بھی اْس کی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی، یہ لالچ آدھا پاکستان پہلے کھا گئی، آدھا جو بچ گیا ہے وہ ہمارے لئے نہ سہی اپنے لئے ہی وہ بچا رہنے دے۔۔ہم اپنے بچپن میں فلمیں دیکھتے تھے، فلم میں کوئی ولن یا بدمعاش کسی لڑکی یا عورت کی عزت لْوٹنے لگتا وہ عورت بچاؤ بچاؤ کی آوازیں بلند کرتی، دْور کہیں سے گھوڑے پر سوار کوئی آتا اور بدمعاشوں یا ولن کی زبردست ٹْھکائی کر کے عورت کو بچا لیتا تھا، پاکستان کی حالت بھی اْس ”عورت“ جیسی ہے جو کئی بدمعاشوں کی پکڑ میں مسلسل بچاؤ بچاؤ کی آوازیں بلند کر رہی ہے، پر اْسے بچانے والا دْور دْور تک دکھائی نہیں دے رہا، ہمارے سارے ہیرو ہمارے ولن بن چکے ہیں، کبھی سوچا بھی نہیں تھا پاکستان کی عزت کو اس قدر یہ تار تار کر دیں گے، کبھی سوچا بھی نہیں تھا پاکستان کا خون چْوسنے والے اس کی ہڈیاں تک چبا ڈالیں گے، کبھی سوچا بھی نہیں تھا پاکستان کی بنیادوں سے یہ اینٹیں نکال نکال کر اپنے محلات بنا لیں گے، کبھی سوچا بھی نہیں تھا پاکستان کو یہ ایک کھنڈر بنا دیں گے۔۔ اب ایک طرف ایک بلکتا ہوا سسکتا ہوا، بین کرتا ہوا، آہیں بھرتا ہوا پاکستان ہے، دوسری طرف خونخوار جانور ہیں پاکستان کو جو مسلسل گْھور رہے ہیں، ان حالات میں کون بچائے گا پاکستان؟ اللہ ہی جانتا ہے۔۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.