سعی لا حاصل

29

جو قوتیں خیبر پختون خوا اور پنجاب دونوں صوبوں میں 30اپریل کو انتخاب کرانا چاہتی ہیں ہمارے خیال میں اب انھیں سمجھ آ جانی چاہئے کہ اس کے لئے کوشش کرنا ایک سعی لا حاصل کے مترادف ہے۔ ایک بات تو طے ہے اور یہ قانون فطرت بھی ہے کوئی بات اگر حد سے بڑھ جائے تو پھر حالات از خود ایسے بنتے چلے جاتے ہیں کہ یک طرفہ معاملات اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔ آئین میں آرٹیکل 184کی شق تین کوئی نئی نہیں ہے بلکہ جب سے آئین بنا ہے یہ موجود ہے لیکن افتخار چوہدری نے عدالتی فعالیت کی جو رسم بد شروع کی اس نے عدالت کو سیاست کا اکھاڑا بنا دیا اور انھوں نے از خود نوٹس کی لوٹ سیل لگا کر اپنے دور میں 79از خود نوٹس لئے جبکہ 2000سے لے کر آج تک کل 204از خود نوٹس لئے گئے۔ نوبت شاید اس حد تک نہ پہنچتی کہ سپریم کورٹ کے قوائد(Rules)کو قانون کے ذریعے تبدیل کرنا پڑتالیکن جب تمام فریقین کا سب کچھ کسی ایک فیصلے کی وجہ سے داؤ پر لگا ہو تو اسکے لئے ہر فریق کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ دونوں صوبوں میں انتخابات کی کیا اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ عمران خان نے انتہائی مضبوط دلائل کے باوجود اور پارٹی کے رہنماؤں کی اکثریت کی آرا کے بر خلاف اگر دونوں صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل کرائی تھیں تو اس کی کوئی وجہ تو رہی ہو گی اور پھر یہ بھی اہم ہے کہ یہ سوچ اکیلے عمران خان کی نہیں بلکہ اس میں ان کے سہولت کاروں کی اجتماعی سوچ بھی کارفرما ہو گی کیونکہ بے شک دونوں مرتبہ عوام کی عدم دلچسپی کی وجہ سے لانگ مارچ ناکام ہو جائیں، جیل بھرو تحریک پہلے دن ہی بری طرح ڈھیر ہو جائے لیکن سہولت کاروں کی موجودگی میں مقبولیت کا تاثر پیدا کر کے الیکشن ضرور جیتا جا سکتا ہے اور ماضی میں ایسا متعدد بار ہوا بھی ہے۔ ان حقائق کی موجودگی اور اکثریت ہونے کے باوجود بھی حکومت نے سپریم کورٹ قوائد میں تبدیلی نہیں کی لیکن جب خود سپریم کورٹ کے اندر سے محترم و معزز ججز کے ریمارکس اور فیصلے آنا شروع ہو گئے تو پھر ان قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہو گئی تھی۔
حکومت نے آئین کے آرٹیکل191کے تحت ان قوانین میں تبدیلی کی جسے قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد سینٹ نے بھی 19کے مقابلہ میں 60کی اکثریت سے منظور کر لیا۔کچھ حلقوں کی جانب سے اس بات کا پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے قوانین میں تبدیلی نہیں کر سکتی توآگے بڑھنے سے پہلے ضروری ہے کہ قارئین کے سامنے آرٹیکل191کی عبارت رکھ دی جائے تاکہ کوئی ابہام نہ رہے۔ آرٹیکل 191میں لکھا ہے کہ ”دستور اور قانون کے تابع، عدالت عظمیٰ، عدالت کے معمول اور طریقہ کارکو منضبط کرنے کے لئے قوائد وضع کر سکے گی“۔
ایک طرف یہ بل پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور ہو رہا تھا لیکن اس بل کی منظوری سے بھی کہیں زیادہ اہم پیش رفت سپریم کورٹ میں ہونا شروع ہو گئی۔ جمعرات 29مارچ کو سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس جمال خان مندو خیل نے جس طرح اور جن واشگاف الفاظ میں اپنے موقف کو بیان کیا اور کہا کہ اکثریتی فیصلے نے تو از خود نوٹس کو مسترد کر دیا تھا تو پھر الیکشن کمیشن اور صدر مملکت نے کس بنیاد پر انتخابات کی تاریخ دی۔ ابھی یہ الفاظ جو بلا شبہ کسی ہتھوڑے کی مانند تھے ان کی گونج ختم نہیں ہوئی تھی کہ قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ایک دو کی اکثریت سے یہ فیصلہ صادر کر دیا کہ رولز بنائے جانے تک از خود نوٹس کے تمام کیسز کی سماعت ملتوی کی جائے۔ اس بینچ میں معزز جج جسٹس امین
الدین خان بھی شامل تھے جنھوں نے فیصلہ کے حق میں رائے دی تھی اور یہی معزز جج پنجاب الیکشن کیس کے بینچ میں بھی شامل تھے لہٰذا انہوں نے اپنے آپ کو اس بینچ سے علیحدہ کر لیا جس کے فوری بعد بینچ ٹوٹ گیا اور اب نیا بینچ بننے تک کیس کی سماعت تو کسی صورت نہیں ہو سکتی لیکن بات اگر یہیں تک محدود ہوتی تو بھی کوئی بات نہیں تھی نیا بینچ بنتا اور کیس کی سماعت دوبارہ شروع ہو جاتی لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ محترم چیف جسٹس جو سیاسی جماعتوں کو تو مل بیٹھ کر متحد ہونے کا درس دے رہے ہیں لیکن اسی دوران ان کے اپنے گھر میں اتحاد کے بجائے تقسیم نظر آ رہی ہے اور جس طرح معزز جج جسٹس جمال خان مندو خیل نے کہا کہ فیصلہ تو چار تین کا تھا اور قاضی فائز عیسیٰ نے قانون بننے تک از خود نوٹس کے کیسز کو ملتوی کرنے کا فیصلہ دیا ہے تو اگر نیا بینچ بھی بن جاتا ہے تو اس بینچ کا کوئی رکن اگر بینچ سے علیحدہ ہو گیا تو پھر کیا ہو گا اور ا س سے بھی زیادہ اہم بات کہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے قانون کی منظوری کے بعد اب کیا چیف جسٹس اکیلے کسی از خود نوٹس کیس کی سماعت کے لئے بینچ بنا بھی سکتے ہیں یا انھیں ترمیم شدہ قانون کے تحت تین سینئر ترین ججز کے ساتھ مل کر اکثریتی رائے کی بنیاد پر بینچ بنانا پڑے گا۔
انہی حقائق کی بنا پر ہم نے کالم کے آغاز میں عرض کیا ہے کہ ”جو قوتیں خیبر پختون خوا اور پنجاب دونوں صوبوں میں 30اپریل کو انتخاب کرانا چاہتی ہیں ہمارے خیال میں اب انھیں سمجھ آ جانی چاہئے کہ اس کے لئے کوشش کرنا ایک سعی لا حاصل کے مترادف ہے۔“ اس کی وجہ یہ ہے کہ حکومت نے تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق پارلیمنٹ سے یہ قوانین منظور کئے ہیں اب ان قوانین کی موجودگی میں جو بھی بینچ بنیں گے ان کی نوعیت پہلے جیسی تو نہیں ہو سکتی۔ان قوانین کے حوالے سے ایک اہم بات کہ تحریک انصاف کی قیادت کو پورا یقین ہے کہ سپریم کورٹ ان قوانین کو اڑا کر رکھ دے گی لیکن اس میں انتہائی دلچسپ بات یہ ہے کہ جس کی طرف کم ہی لوگ توجہ کریں گے کہ اس قانون کو اڑانے کے لئے بھی تو بینچ بنانا پڑے گا اور جب بینچ بنے گا تو اس وقت یہ قانون موجود ہو گا کہ بینچ تنہا چیف جسٹس صاحب اپنی مرضی سے نہیں بنا سکتے تو جب بینچ مرضی کا نہیں بن پائے گا تو پھر ان قوانین کو اڑانا اتنا بھی آسان نہیں ہو گا کہ جتنا کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں۔ ایک اور نقطہ بھی بیان کرنا ضروری ہے تاکہ موضوع کے حوالے سے تشنگی نہ رہے کہ اگر اس بل کے لئے صدر کی منظوری لینا ضروری ہے تو صدر مملکت اسے پندرہ اور پھر دس یعنی پچیس روز تک روک سکتے ہیں تو یہ حربہ بھی اس وقت تک کارگر ہو سکتا تھا کہ اگر معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے بینچ کا فیصلہ نہ آیا ہوتا۔ اس حوالے سے ایک آخری بات کہ 1997میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف بھی سپریم کورٹ کے ججز کا ایک فیصلہ آیا تھا اور انھوں نے اس کے مقابلہ میں پانچ رکنی بینچ بنا کر اسے کالعدم قرار دینے کی کوشش کی تھی اور قاضی فائز عیسیٰ والے بینچ کے فیصلے کو بھی لارجر بینچ بنا کر کالعدم قرار دیا جا سکتا ہے لیکن ملین ڈالر سوال یہی ہے کہ نئے قوانین کی موجودگی میں وہ بینچ بنے گا کیسے؟۔

تبصرے بند ہیں.