رمضان المبارک کا برکت مہینہ ہے۔اس مہینے میں ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے کہ سحری اور افطاری میں کھانے پینے کا کچھ خاص اہتمام کیا جائے۔ خیال آتا ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں جب بہت سوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو گیا ہے، غریب آدمی سحری اور افطاری کا کیا اہتمام کرتا ہو گا؟ غریب شہریوں کو یہ صورتحال اس وقت بھی درپیش ہو گی جب وہ اپنے بال بچوں کے لئے عید کے لئے خرید و فروخت کا ارادہ کرئے گا۔ ہر سال ہمیں یہ خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ عید کی شاپنگ کے لئے پیسے نہ ہونے کی وجہ سے کسی بے بس باپ نے خود کشی کر لی۔ اللہ پاک ہم سب پر رحم فرمائے۔ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے غریب رشتہ داروں، ہمسایوں، ملازمین وغیرہ کے لئے آسانیاں پیدا کر سکیں۔ آمین۔ مہنگائی کے عفریت نے زیریں طبقے کو ہی متاثر نہیں کیا، بلکہ اچھے بھلے متوسط طبقے کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ اس طبقے کی قوت خرید بھی سکڑ گئی ہے۔ اگلے رو زایک موقر انگریزی روزنامے کی رپورٹ میری نگاہ سے گزری۔ رپورٹ کے مطابق کمر توڑ مہنگائی کی وجہ سے رمضان میں شہریوں کی طرف سے کی جانے والی مفت راشن کی تقسیم بھی متاثر ہوئی ہے۔ برسوں سے ہمارے ہاں یہ روایت موجود رہی ہے کہ رمضان المبارک میں صاحب حیثیت لوگ اپنی اپنی استطاعت کے مطابق غریب اور مستحق لوگوں میں راشن کے بیگ تقسیم کیا کرتے تھے۔ راشن بیگ آٹا، چاول، گھی، چینی اور دیگر اشیائے خوردو نوش پر مشتمل ہوتا تھا۔مذکورہ اخباری رپورٹ کے مطابق اب ان اشیاء کی قیمتیں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ راشن کا تھیلا جو چند سو روپے میں تیار ہوتا تھا۔ اب اس کی قیمت کئی ہزار روپے تک جا پہنچی ہے۔ نتیجہ یہ کہ بیشتر خاندانوں نے راشن کی تقسیم چھوڑ دی ہے یا پھر بے حد محدود کر دی ہے۔
یہ صورتحال صرف عام شہریوں تک محدود نہیں ہے۔ ملک کی کمزور معاشی صورتحال کے پیش نظر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی استعداد کار بھی انتہائی محدود ہو چلی ہے۔ان حالات میں غنیمت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں شہریوں کو ریلیف فراہم کرنے کی مقدور بھر کوشش کر تی دکھائی دیتی ہیں۔ اس مرتبہ بھی وفاقی حکومت نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومتوں کے تعاون سے غریب شہریوں کے لئے مفت آٹے کی سکیم متعارف کروائی ہے۔ پنجاب میں مفت آٹے کی تقسیم کا عمل نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اپنی نگرانی میں یقینی بنا رہے ہیں۔ اخباری اطلاعات کے مطابق اب تک ستر لاکھ آٹے کے تھیلے مستحقین میں تقسیم کئے جا چکے ہیں۔ آٹے کے حصول کے لئے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام میں رجسٹریشن لازمی ہے۔ مقصد اس کا یہ ہے کہ مستحقین کا تعین کیا جا سکے۔عوام کی سہولت کے پیش نظر شناختی کارڈ نمبر 8070 پر ایس۔ ایم۔ایس کرکے بھی عوام اپنی اہلیت سے متعلق معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتوں کا یہ عمل قابل تحسین ہے۔اس سے پہلے حکومتوں کی طرف سے سستا آٹا تقسیم کیا جاتا تھا۔ تاہم تاریخ میں پہلی مرتبہ مفت آٹا تقسیم کیا جا رہا ہے۔ اس ضمن میں 59 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔ اس رقم سے عوام میں چار کروڑ آٹے کے تھیلے تقسیم کئے جائیں گے۔ پنجاب کے نوے فیصد اور خیبر پختونخواہ کے پچاس فیصد عوام کو مفت آٹا مل سکے گا۔آٹے کی تقسیم کے لئے 20 ہزار آٹا پوائنٹس قائم کئے گئے ہیں۔
مفت آٹے کی تقسیم کا عمل خوش آئند ہے۔ لیکن دیکھا گیا ہے کہ یہ عمل بد نظمی کا شکار ہے۔ایک تو عوام کو گھنٹوں لمبی لمبی لائنوں میں لگ کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح رمضان المبارک میں ان کا قیمتی وقت ضائع ہوتا ہے۔ گھنٹوں قطاروں میں کھڑے رہنے سے ان کی عزت نفس بھی مجروح ہوتی ہے۔تقسیم کے اس عمل میں تصویر اور تشہیر کا بھی اہتمام ہوتا ہے، یہ صورتحال بھی سفید پوش شہریوں پر گراں گزرتی ہے۔ کاش آٹے یا راشن کی تقسیم کا ایسا طریقہ کار وضع کیا جاتا کہ عوام الناس کو گھنٹوں کے حساب سے لمبی لمبی قطاریوں میں کھڑا نہ ہونا پڑتا۔ تاکہ ان کا وقت بچ جاتا اور عزت نفس بھی مجروح نہ ہوتی۔آٹے کی تقسیم کے دوران لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔ چھینا جھپٹی اور بھگڈر کے واقعات ہوئے۔ اس صورتحال میں ایک خاتون سمیت تین افراد کی ہلاکت بھی ہو چکی ہے۔ کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔اس عمل میں بد عنوانی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ بعض واقعات میں وہ لوگ بھی آٹے کے تھیلے حاصل کر نے میں کامیاب رہے، جو آٹا لینے کے مستحق یا اہل نہیں تھے۔ لیتے ہیں۔نارنگ منڈی میں ایسا بھی ہوا کہ تقسیم کار عملے کی ملی بھگت سے تندور اور ہوٹل مالکان بھی اچھی خاصی مقدار میں آٹا وصول کرتے رہے۔
یقینا اس سارے عمل میں کچھ کمزوریاں موجود ہیں۔اس نظام کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ عوام کو ریلیف دینے کا ایک اچھا منصوبہ ہے۔ہمارے ہاں مسئلہ یہ ہے کہ ہر شے کو اپنی ذاتی پسند اور نا پسند کی عینک سے دیکھنے کی روایت موجود ہے۔سیاسی اور صحافتی سطح پر تنقید برائے تنقید کا رواج ہے۔ اس تناظر میں کچھ سیاست دان اور صحافی مفت آٹا سکیم کو ہدف تنقید بنا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ انہیں وزیر اعظم شہباز شریف یا وزیر اعلیٰ محسن نقوی نا پسند ہوں۔ اگر ایسا ہے تو ان شخصیات کی غلط پالیسیوں کی نشاندہی کریں۔ غریب کا حق سلب کرنے والا کوئی کام ہو رہا ہے تو ضرور اس کے خلاف لکھیں بولیں۔ لیکن یہ بات درست نہیں کہ عوام کی فلاح کے لئے شروع کئے گئے ایک منصوبے کو صرف اپنی ذاتی پسند ناپسند کی وجہ سے غیر ضروری اور بے کار قرار دے دیا جائے۔ یقین جانئے وہ غریب جو دو وقت کی روٹی خریدنے سے بھی قاصر ہیں، ان کے لئے یہ سکیم ایک نعمت ہے۔ میرے گھر اور دفتر کے ملازمین اس سکیم سے مستفید ہو رہے ہیں۔ وہ آٹے کے مفت تھیلے حاصل کر کے بہت خوش ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ لاکھوں خاندانوں کو اس سکیم کی بدولت رمضان کے مہینے میں سہولت میسر آ رہی ہو گی۔ خدارا ان کی خوشی اور سہولت کے منصوبے کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ مت بنائیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.