ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ

32

ام المومنین حضرت خدیجہؓ نکاح کے بعد ربع صدی آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اکلوتی شریک حیات رہیں۔ شادی کے بعد 25 برس تک زندہ رہیں اور 11 رمضان 10 نبوی (ہجرت سے تین سال قبل) انتقال فرمایا۔ اس وقت ان کی عمر 64 سال 6 ماہ کی تھی، چنانچہ نماز جنازہ اس وقت تک مشروع نہیں ہوئی تھی۔ اس لیے ان کا جسد مبارک اسی طرح دفن کر دیا گیا۔
مکہ کی ایک معزز، مالدار، عالی نسب خاتون خدیجہؓ بنت خویلد کا تعلق عرب کے قبیلے قریش سے تھا۔ وہ حسن صورت و سیرت کے لحاظ سے "طاہرہ” کے لقب سے مشہور تھیں۔ انہوں نے حضرت محمد ؐ کو اپنے تجارتی کاروبار میں شریک کیا اور متعددبار اپنا سامان تجارت دے کر بیرون ملک بھیجا۔ محمدؐ کی تاجرانہ حکمت، دیانت، صداقت، محنت اور اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوکر آپ نے حضور نبی کریمؐ کو شادی کا پیغام بھجوایا جو قبول فرمالیا گیا۔ اس وقت ان کی عمر چالیس سال تھی جبکہ حضور ؐ صرف پچیس سال کے تھے۔
حضرت خدیجہؓؓ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور پہلی ام المومنینؓ ہونے کی سعادت حاصل کی۔ 25 سال نبی اکرمؐ کی اکلوتی زوجہ اور غمگسار شدید ترین مشکلات میں ساتھی تھیں بقیہ تمام ازواج النبی ان کی وفات کے بعد زوجہ بنیں۔ نبیؐ کی ساری کی ساری اولاد خدیجہؓ سے پیدا ہوئی اور صرف ابراہیم ماریہ قبطیہؓ سے تھے۔
جب آپ ؐ پر پہلی وحی نازل ہوئی تو آپؐ بہت گھبرا گئے۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم گھر تشریف لائے تو جلال الٰہی سے لبریز تھے، آپؐ نے حضرت خدیجہؓ سے کہا مجھ کو کپڑا اوڑھاؤ، مجھ کو کپڑا اوڑھاؤ۔ انہوں نے کپڑا اوڑھایا تو ہیبت کم ہوئی پھرحضرت خدیجہؓ سے تمام واقعہ بیان کیا اور کہا "مجھ کو ڈر ہے” حضرت خدیجہؓ نے کہا آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم متردد نہ ہوں، خدا آپ کا ساتھ نہ چھوڑے گا، کیونکہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں اور فقیروں کے معاون رہتے ہیں، مہمان نوازی اور مصائب میں حق کی حمایت کرتے ہیں پھر وہ آپ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو مذہباً نصرانی تھے عبرانی زبان جانتے تھے اور عبرانی زبان میں انجیل لکھا کرتے تھے، اب وہ بوڑھے اور نابینا ہو گئے تھے۔ حضرت خدیجہؓ نے کہا اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی باتیں سنو، بولے ابن الاخ تو نے کیا دیکھا؟ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے واقعہ کی کیفیت بیان کی تو کہا یہ وہی ناموس ہے جو موسیٰؑ پر اترا تھا۔ کاش مجھ میں اس وقت قوت ہوتی اور زندہ رہتا جب آپؐ کی قوم آپؐ کو شہر بدر کرے گی، محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پوچھا کیا یہ لوگ مجھے نکال دیں گے؟ ورقہ نے جواب دیا ہاں جو کچھ آپؐ پر نازل ہوا جب کسی پر نازل ہوتا ہے تو دنیا اس کی دشمن ہو جاتی ہے اور اگر اس وقت تک میں زندہ رہا تو تمھاری وزنی مدد کروں گا۔ اس کے بعد ورقہ کا بہت جلد انتقال ہو گیا اور وحی کچھ دنوں کے لیے رک گئی۔
اس وقت تک نماز پنجگانہ فرض نہ تھی محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نوافل پڑھا کرتے تھے حضرت خدیجہؓ بھی آپؐ کے ساتھ نوافل میں شرکت کرتی تھیں۔ ابن سعد کہتے ہیں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور خدیجہؓ ایک عرصہ تک خفیہ طور پر نماز پڑھا کرتے۔
خدیجہؓ نے صرف نبوت کی تصدیق ہی نہیں کی بلکہ آغاز اسلام میں محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی سب سے بڑی معین و مددگار ثابت ہوئیں۔ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جو چند سال تک کفار مکہ اذیت دیتے ہوئے ہچکچاتے تھے۔ اس میں بڑی حد تک خدیجہؓ کا اثر کام کر رہا تھا۔ دعوت اسلام کے سلسلے میں جب مشرکین نے آپؐ کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں تو حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی اور تشفی دی۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مشرکین کی تردید یا تکذیب سے جو کچھ صدمہ پہنچتا، حضرت خدیجہؓ کے پاس آکر ختم ہو جاتا تھا کیونکہ وہ آپؐ کی باتوں کی تصدیق کرتی تھیں اور مشرکین کے معاملہ کو آپؐ کے سامنے ہلکا کر کے پیش کرتی تھیں۔
ام المومنین طاہرہؓ کی عظمت و فضیلت کا اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب فرض نبوت ادا کرنا چاہا تو فضائے عالم سے ایک آواز بھی آپؐ کی تائید میں نہ اٹھی۔ کوہ حرا، وادی عرفات، جبل فاران غرض تمام جزیرۃ العرب آپؐ کی آواز پر پیکر تصویر بنا ہوا تھا، لیکن اس عالمگیر خاموشی میں صرف ایک آواز تھی جو فضائے مکہ میں تموج پیدا کر رہی تھی۔ یہ آواز حضرت خدیجہؓ طاہرہ کے قلب سے بلند ہوئی تھی، جو اس ظلمت کدہ کفر و ضلالت میں نور الٰہی کا دوسرا تجلی گاہ تھا۔
محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی خدیجہؓ سے بے پناہ محبت تھی آپؐ نے ان کی زندگی تک دوسری شادی نہیں کی۔ پچیس سال مشترکہ زندگی گزاری، ان کی وفات کے بعد آپؐ کا معمول تھا کہ جب گھر میں کوئی جانور ذبح ہوتا تو آپؐ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کی سہیلیوں کے پاس گوشت بھجواتے تھے۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ گو میں نے حضرت خدیجہؓؓ کو نہیں دیکھا، لیکن مجھ کو جس قدر ان پہ رشک آتا تھا کسی اور پر نہیں آتا تھا، جس کی وجہ یہ تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہمیشہ ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔
حضرت ابو طالبؓ کی وفات کے چند ہی روز تقریباً 35 دن بعد 10 رمضان المبارک کو حضرت سیّدہ خدیجہؓؓ وصال فرما گئیں۔محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم خود ان کی قبر میں اترے اور اپنی سب سے بڑی غمگسار کو داعی اجل کے سپرد کیا۔ آپؐ کے دونوں مددگار اور غمگسار اْٹھ گئے۔ یہ وہ وقت تھا جو اِسلام کے لئے سخت ترین تھا۔ خود نبی کریمؐ اِس سال کو عام الحزن یعنی غم کا سال فرمایا کرتے تھے۔

تبصرے بند ہیں.