کھیل تو کھیل ہے، اس میں ہار بھی ہو گی اور جیت بھی۔ اور یقینا جب پاکستان کھیلے گا تو جیتے گا بھی اور ہارے گا بھی۔۔۔! کھیل میں جس ٹیم کی فٹنس، مہارت، تکنیک، کھیل اور صلاحیت بہتر ہو گی وہی جیتے گی۔ گو جذباتی طور پر دل چاہتا تو ہے کہ جیت پاکستان کی ہو۔ پاکستان جس جس کھیل میں حصہ لے اس میں وہی جیتے، حتیٰ کہ دل ناداں بے اختیار یہ خواہش رکھتا ہے کہ ہرکھیل کے عالمی چمپئن بھی ہم ہی ہوں۔ ہر وہ مقابلہ جس میں پاکستان حصہ لے اس میں جیت پاکستان کا مقدر ہو۔ ہم سدا طلائی تمغے ہی حاصل کرتے رہیں۔ مگر عملاً یہ ممکن نہیں ہے…..!
یہ زندگی اور اس کا سفر ایک تجربہ گاہ ہے جس میں ہر پل ایک خاص توجہ اور مہارت چاہتا ہے۔ اس میں یقینا جیت اسی کی ہو گی جو زیادہ بہتر انداز میں اپنے آپ کو پیش کرے گا۔یہ وہ امتحان گاہ ہے جس میں محض خواہشوں کے سراب میں زندگی بسر کرنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ یہاں پر خون جگر سے داستان رقم کرنا ہوگی۔ جیسا کہ ڈاکٹرعلامہ اقبال ؒ نے فرمایا ہے:
نقش ہیں سب ناتمام خون ِجگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگرکے بغیر
پاکستان میں کھیلوں کی دنیا پر ایک نگاہ کریں تو دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان میں مقامی سطح سے ہٹ کر بالعموم ہاکی، کرکٹ، ٹینس بال، گالف، سکوائش، کبڈی، والی بال، پولو، تیراکی، ڈیزرٹ ریس، ویٹ لفٹنگ، کراٹے اور باکسنگ وغیرہ کے کھیل کھیلے جاتے ہیں اور یہ کھیل عوامی سطح پر بھی کسی نہ کسی حد تک مقبول ہیں۔ ان میں سے ہاکی، کرکٹ اور اسکوائش وغیرہ میں ہم متعدد بار طلائی تمغے جیت چکے ہیں۔۔۔ تاہم آج کل ملک کے طول و عرض میں کرکٹ کے بارے میں اضافی جوش وجذبہ اور لگاؤ پایا جاتاہے۔ کیا بوڑھا، بچہ، جوان، ادھیڑ عمر، کیا لڑکی، عورت، ماں اور دادی غرض ہر کوئی کرکٹ کے رنگ میں رنگا دکھائی دیتا ہے۔کرکٹ کے موسم میں ہر طرف کیا سکور ہوا ہے،کتنے آوٹ ہوئے ہیں، کون سا پلیئر کھیل رہا ہے جیسی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔۔۔!
بلکہ اس ضمن میں ایک کئی لطائف بھی مشہور ہیں، جیسا کہ ایک نئے فوت شدہ کو قبرستان میں دفن کیا گیا تو پہلے سے دفن مردوں نے اس سے پہلا سوال یہ کیا کہ بتاؤ آخری سکور کیا تھا۔۔۔ دوسری طرف ہاکی کا میچ ہو رہا تھا کہ ایک بوڑھے میا ں نے راہ چلتے ایک کمنٹری سنتے نوجوان سے دریافت کیا کہ ”بر خور دار بتاؤ توبھلا پاکستان کا کیا سکور ہوا ہے……!“ اور تو اور اس کھیل کی مقبولیت عوام کے علاوہ ایک خاص طبقے یعنی کہ جواریوں میں بہت زیادہ پائی جاتی ہے۔ وہ ایک ایک پلیئر،گیند،موقع اور سکور پر جو ا لگاتے ہیں اور ان کا کام سارا وقت اسی طرح چلتا رہتا ہے۔۔۔!
دوسری طرف طالب علم ہیں کہ اپنی پڑھائی چھوڑ کر سارا سارا دن اس کھیل میں مصروف رہتے ہیں۔کبھی گیند اور بیٹ پکڑکر اور کبھی T.V. کے سامنے بیٹھ کر……!
خاص میچزمیں تو صورت حال اوربھی عجب ہو جاتی ہے۔ ایک ہیجانی کیفیت میں دعائیں مانگی جا رہی ہیں،دیگیں پکائی جا رہی ہیں اور شیرینی بانٹی جا رہی ہے۔ پوری قوم ایک عجب سے بخار میں مبتلا ہے اور کوئی بھی رک کر سوچنے کو تیار نہیں۔ راقم الحروف بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلا جانے والاٹی 20 میچ دیکھنے سے ابھی فارغ ہوا ہے جس میں دو ایک سے سیریز کی شکست پاکستان کے کھاتے میں لکھی گئی ہے اور بہت سے دل ٹوٹ کر کرچی کرچی اور بہت سی بے تاب نگاہیں جیت کا جشن دیکھنے سے محروم ٹھہری ہیں۔۔۔!
لیکن حیرت انگیز طور پر جس کھیل کے لیے پورا پاکستان اپنا وقت ضائع کر رہا ہے اس کو دنیا کے تقریباً دو سو ممالک میں سے صرف 18/20 ممالک ہی کھیلتے ہیں، دوسرے ملکوں کو اس کھیل سے کوئی سروکار ہی نہیں، Media کی یلغار ذہنوں کو مسحور کر رہی ہے اور ہم بحیثیت قوم کھیلوں کے اعتبار سے ایک منفی سوچ کا شکار ہو رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ کہ نہیں نہیں جیت ہر حال میں پاکستان کی ہو….؟ حالانکہ یہ عملاً ممکن نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ بھی ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔۔۔!
اس لیے یہ ہر گز نہیں کہا جا سکتا کہ جب پاکستان کھیلے تو جیت صرف پاکستان کی ہو، ہاں البتہ یہ ضرور یقینی بنایاجا سکتا ہے کہ پاکستان اچھا کھیلے اور اپنی مہارت کے ساتھ فتح حاصل کرے۔ اگر کبھی پاکستان اچھا نہ کھیل سکے اور ہار جائے تو ہم کو اس ہار پر مایوس نہیں ہونا چاہئے بلکہ دوسری ٹیم یا کھلاڑیوں کو داد دینی چاہئے۔اس سے ہمارے اندر ایک مثبت جذبہ اور سپرٹ جنم لے گی کہ ہم نے اپنے اندر صلاحیت پیدا کرنا ہے اور آئندہ خود کو جیت کا اہل ثابت کر کے جیتنا ہے ……!
ہماری یہ خواہش نہیں ہونی چاہئے کہ ہمیشہ ہم ہی جیتیں، چاہے ہمیں اس کھیل کی الف،ب بھی نہ آتی ہو۔ یہ ایک منفی جذبہ ہے جوبیمار ذہن کی عکاسی کرتا ہے۔آج یہ عالم ہے کہ اگر کوئی دولت مند ہے تو اپنی دولت سے انصاف، قانون، عہدہ، نوکری اور اقتدار وغیرہ سب حاصل کر نا چاہتا ہے۔ اہل اقتدار یہ چاہتے ہیں کہ وہ ہر قانون سے بالاتر ہوں۔ کوئی ہمیں پوچھنے والا نہ ہو۔ سیاستدان یہ چاہتا ہے کہ اس کی ایک فون کال پر ہرمیرٹ بالائے طاق رکھ دیاجائے۔ اگر ہر طرف جنگل کا قانون رائج ہو جائے تو پھر کسی غریب ماں باپ کے بیٹے یا بیٹی کو نوکری نہ ملے، اس کو کہیں سے انصاف ملے اور نہ کہیں سے اس کی داد رسی ممکن ہو۔ مگر اصول فطرت ہے کہ جو محنت کرتا ہے وہ اپنی منزل کو پالیتا ہے۔اسی وجہ سے آج کتنے غریب ہیں جو بھرپور انداز میں،مختلف شعبہ ہائے زندگی میں،اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں اور اہل ثروت ان سے حسد بھی کر رہے ہیں مگر ان کی عزت کرنے پربھی مجبور ہیں۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو کھیل صرف ایک تفریح ہے اور تفریح کو تفریح ہی رہنا چاہئے، روگ جان نہیں بننا چاہئے۔ جو اچھا کھیلے اسے داد اور جو بُرا کھیلے اس کی کارکردگی پر تنقید ہونا چاہیے بلکہ اگرضروری ہو تو محاسبہ بھی ہونا چاہیے۔ اسی رویہ سے ہم میرٹ اور انصاف کی طرف بڑھیں گے اوربحیثیت قوم، اپنے اند ر رواداری، صلاحیت اور کوالٹی کو فروغ دے کر اقوام عالم میں اپنا اور اپنے ملک کا نام روشن کرسکیں گے۔۔۔!
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.