چلیں تسلیم کر لیتے ہیں کہ پاکستان کا آئین ریاست ِ پاکستان کی سب سے مقدس دستاویز ہے۔اس پر عمل کیے بغیر کسی بھی سیاسی یامعاشی دلدل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں۔ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ اسی آئین نے پاکستان کو یکجا رکھا ہوا ہے۔اِس آئین کی کمال خوبی یہ بھی تسلیم ہے کہ یہ ہمیشہ جمہوریت پسندوں اور آمروں، دونوں کیلئے یکساں مفید ہوتا ہے۔ پچاس برس گزرگئے پاکستان کے آئین کو وجود میں آئے۔ سب سے پہلے تو اس کی کنکرنٹ لسٹ پرآئینی وعدے کے مطابق 10سال میں عمل درآمد ہونا تھا جن پر آصف علی زرداری کے صدر بننے کے بعد تقریباً 40 سا ل بعد عملدرآمد ہوا لیکن ابھی تک صوبوں کو مرکز کی طرف صوبائی معاملات کیلئے بھی دیکھنا پڑتا ہے۔اِس آئین نے پاکستان کے عام آدمی کو کیا فائدہ پہنچایا ہے اس کاجواب کسی پاکستانی سیاست دان کے پاس ہرگز نہیں ہو گا۔”ڈنگ ٹپاؤ“ حکمرانوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے ایک دن کی زندگی گزاری ہے اور آنے والی نسلوں کیلئے کچھ بھی نہیں کیا۔ چلیں ایک لمحے کیلئے سوچ لیتے ہیں کہ پاکستان ہر سیاسی دلدل سے نکل گیا ہے۔ہر آئینی مسئلہ بخیر و خوبی حل ہو چکا ہے تو کیا پاکستان میں کسی مزدور، کسان، استاد، کلرک، چھابڑی فروش، دکاندار یا کسی عام آدمی کا بیٹا قومی، صوبائی اسمبلی، سینیٹ یا پھر ناظم یا کونسلر بھی بن سکتا ہے؟ تو اِس کا جواب ہے جی ہرگز نہیں۔ گزشتہ 75 سال سے جو کام انتہائی دیانتداری سے ہو رہا ہے وہ پاکستان کی اشرافیہ کو بدل بدل کر اقتدار میں لانے کا فریضہ ادا کرنا ہے اوراِس معاملے میں کبھی ریاست سے کوئی غلطی ہوئی اورنہ آئندہ ہوگی۔ پاکستان میں اس وقت ایک طرف سابق اسٹیبلشمنٹ کے پیداکیے ہوئے جنات کی سیاسی رجیم ہے تو دوسری طرف مشترکہ خطرے نے بدترین سیاسی مخالفین کو یکجا کیا ہوا ہے لیکن کیا اِن میں کوئی بھی عوام کا حقیقی نمائندہ ہے؟ تو میرا جواب ہے بالکل نہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح کو خطرہ تھا جیسا کہ اگرہندوستان تقسیم نہیں ہوتا تو مسلمانوں کی اقلیت ہندووں کی اکثریت کی غلام بن کر رہ جائے گی لیکن قائد نے اس طرف دھیان نہیں دیا کہ پاکستان بننے کے بعد پاکستانیوں کی اکثریت بھی ایک حکمران اقلیت کی غلام بن کر رہ گئی ہے کیونکہ 23 مارچ 1940ء کو قرارد اد لاہور کے موقع پر بھی قائد اعظم کے ساتھ سٹیج پر بیٹھنے والوں میں عام آدمیوں کا کوئی نمائندہ موجود نہیں تھا۔ اسی لئے اقتدار کی ابتدائی بندر بانٹ قائد کی وفات کے بعد قائد کے سپاہیوں اوراقبال کے شاہینوں کے درمیان ہی ہوتی رہی۔ پہلا چیف مارشل لاء جنرل ایوب خان تو بیک وقت قائد کا سپاہی اوراقبال کا شاہین بھی تھا۔ عام آدمی کی صرف پاکستان بنانے میں جدوجہد شامل تھی لیکن اقتدار میں اُس کا کوئی حصہ نہیں تھا وہی پرانے جاگیردار، نواب، گدی نشین، ملاں، بیوروکریٹس اوراُن کی طفیل سیاست کرنے والوں کے پاس ہی پاکستان کا اقتدار رہا۔
چلیں آج یہ بھی تسلیم کر لیتے ہیں کہ پاکستان کے معاشی حالات بہت اچھے ہوگئے ہیں اورہم قرض مانگنے والوں کے بجائے قرض دینے والوں میں شامل ہو چکے ہیں تو کیا پاکستان کے عام آدمی کو اس میں سے کچھ ملے گا۔تو میرا جواب بالکل سیدھا ہے ہرگز نہیں۔ دولت کی مساویانہ تقسیم کا تو ہم نے ابھی سوچنا بھی شروع نہیں کیا یہا ں دولت کی
منصفانہ تقسیم پر بھی لڑائی موجود ہے جس کی وجہ سے ہر گزرتا دن غریب شہری کو بھکاری اور سفید پوش کوسیاہ پوش بنا رہا ہے۔ جب مارشل لا ء نہیں ہوتا ٗجب آئین اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ریاست میں جاری و ساری ہوتا ہے تو اُس وقت کون سا من و سلویٰ اترنا شروع ہو جاتا ہے کہ ہم آئین ِ پاکستان سے امیدیں باندھ لیں۔ آئینی اورقانونی تشریحات صرف طاقتوروں کیلئے راتوں رات ہوتی ہیں۔ گزشتہ75 سال میں پاکستان کی کوئی عدالت پاکستان کے عام آدمی کیلئے رات کو کھلی ہے نہ کسی پاکستانی شہری کی حاضری عدالت سے باہر لگی ہے۔ جتنی جلدی نیب کے قوانین بدل کر فیصلے کرائے گئے ہیں اتنے جلد ی تو بڑے سے بڑا مجدد کسی چور کو قطب بنانے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ یہ سب اللہ کی برگزیدہ ترین مخلو ق ہے اوراِس کا احترام پاکستان کے قانون ساز اداروں ٗ انصاف فراہم کرنے والے اداروں اورانتظامی امور سنبھالنے والے تمام اداروں پرفرضِ عین ہے۔ سومارشل لاء آتا ہے تو بھی انہیں حکمرانوں میں سے ایک گروپ کی جیت ہے اوراگرجمہوریت آتی ہے تو پھر پارلیمنٹ کی بلے بلے ہے یعنی حکومت اور اپوزیشن دونوں مل کر پاکستا ن کے خزانے کو استعما ل کرتے ہیں اورملکر ضروریاتِ زندگی عام آدمی تک پہنچانے کے رستے میں نت نئے روڑے اٹکائے
جائیں گے۔ یہی کھیل تماشے دیکھتے دیکھتے نسلیں برباد ہو گئیں۔ پاکستان کے تمام دانشور پاکستان کو بہتر بنانے میں مکمل طور پر ناکام ہوئے ہیں البتہ جس انقلاب کا خواب انہوں نے عام آدمی کو دکھایا تھا وہ اُن کے محل نماگھروں تک ضرور پہنچ گیا ہے۔ جس کیلئے ثبوت کے طور پر آج کا پاکستان اور اُن دانشور کی ذاتی زندگیاں اور مفت آٹا کے حصول کیلئے کچلے جانے والے دم توڑتے عام پاکستانی اُن کے سامنے لیٹے ہیں۔ ہر آمر اورجمہورے کو جعلی دانشوروں کی ایک ٹیم میسر آ جاتی ہے اور نالائقی کاکھیل وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جہاں سے اس کا سلسلہ ٹوٹا ہوتا ہے۔ آپ ہر 23 مارچ کو ریاستی خدمات کے میڈلز ضرور بانٹیں مجھے اس پر کوئی اعتراض ہے اور نہ ہی کوئی خوشی ہے لیکن جناب! ایک چھوٹی سے بات ذہن میں رکھ لیں کہ اگر گدھوں کی ریس ہو گی تو پہلے، دوسرے اور تیسرے نمبر پر بھی گدھا ہی آئے گا اس میں تالیاں پیٹنے والی کوئی بات نہیں۔
جب عام آدمی کو آئین ِ پاکستان نے نصف صدی میں کوئی فائدہ ہی نہیں پہنچایا تو وہ اِس کی جنگ صرف چند خاندانوں کے اقتدار کی خاطر کیوں لڑے؟ کیا پاکستان کی کسی سیاسی جماعت کے پاس پاکستان کے مستقبل کا معاشی، سیاسی، داخلی اور خارجی پروگرام ہے؟ کسی ایک کے پاس بھی نہیں، اِن کی دوڑ صرف اقتدار کی غلام گردشوں تک ہے جہاں جا کر یہ اپنے غلاموں کو بھی نہیں دیکھتے جنہوں نے انہیں اشرافیہ بنانے میں کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ عام پاکستانی کے پاس روز گار نہیں، رہنے کیلئے مکان نہیں، کھانے کیلئے روٹی نہیں، بچوں کیلئے تعلیم نہیں، زندگیاں محفوظ نہیں، پولیس گردی ہرچوراہے میں کھڑی ہے، تھانے مجرموں کی پناہ گاہیں بن چکے ہیں، دہشتگردوں نے کہرام مچا رکھا ہے، اقوام عالم میں ہم ذلیل و خوارہو کر رہ گئے ہیں اورآپ کہتے ہیں الیکشن کرائیں تاکہ ملک کی نئی اور پرانی اشرافیہ اپنے اپنے مخالفین کو ہمارے بچوں کی قحط زدہ لاشوں پر کھڑے ہو کر ذلیل کر کے اپنی اناؤں کی تسکین کر سکے؟ عام پاکستانی کو آپ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی اور کسی ریاست کی سب سے بڑی بدقسمتی یہی ہوتی ہے کہ اُ س کے شہری اپنی ریاست پرعدمِ اعتماد کردیں اورسونے پر سہاگہ اُس وقت ہوتا ہے جب ایسا کرانے کیلئے تاریخ کا جبر انہیں کوئی نہ کوئی جھوٹا سچا لیڈر بھی فراہم کردے۔ 1970ء سے لے کر آج تک ہونے والے ہر الیکشن نے پاکستان کے عام آدمی کو دکھ اورذلت کے سوا کچھ نہیں دیا۔ یہی پاکستان کی حقیقی الیکشن تاریخ ہے لیکن اِس کے باوجود انتہائی بے شرمی سے عوام میں آ کر اپنا اپنا شاہنامہ سناتے دکھائی اورسنائی دیتے ہیں۔ غلامی بلاشبہ بہت بڑی لعنت ہے لیکن غلامی سے بڑی لعنت ایک غلامی سے نکل کردوسری غلامی میں چلے جانا ہے۔ جیسے ہم گورے حکمرانوں کی غلامی سے نکل کرکالے حکمرانوں کی غلامی میں آ گئے۔ الیکشن کے نتیجہ میں صرف ریاست چلانیوالی مشینری بدلے گی لیکن پاکستانیوں کی تقدیرنہیں بدلے گی کیونکہ اُس کیلئے کسی کے ذہن میں دور دور تک کوئی پروگرام نہیں۔ الیکشن جب بھی ہوں، اُس کے نتیجہ میں جو بھی حکمران آئے وہ صرف ایک کٹھ پُتلی سے زیادہ نہیں ہوگا۔ داندان ساز عارف علوی کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ آئین کی خلاف ورزی صرف الیکشن وقت پر نہ کرانا نہیں ٗآئینی وعدے کے مطابق پاکستان کے ہرشہری کواُس کے حقوق فراہم نہ کرنا بھی آئین کے ساتھ بدترین غداری ہے بلکہ اصل غداری ہی یہ ہے لیکن جناب صدر! آپ سمیت آج تک کسی سیاستدان کو کبھی اِن وعدوں کووفا کرنے کا وعدہ کرنے کی بھی توفیق نہیں ہوئی۔ وہ ہمیشہ اپنا منشور عوام کے سامنے رکھتے ہیں جس پرکاربند رہنا یا نہ رہنا اُن کا صوابدیدی اختیار ہوتاہے لیکن اُس معاہدے عمرانی (Social Contract) کی بات نہیں کریں گے جو ریاست اورعوام کے درمیان حقیقی معاہدہ ہے اورجس پر یہ ریاست قائم ہے۔جان ایلیا نے سوفیصد ٹھیک کہا تھا
بولتے کیوں نہیں مرے حق میں
آبلے پڑگئے زبان میں کیا
Prev Post
تبصرے بند ہیں.