چیف جسٹس کے وسیع اختیارات پر نظرثانی کرنے کا وقت آ گیا، پوری عدالت کو ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا: جسٹس منصور، جسٹس جمال مندوخیل

344

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس منصور اور جسٹس جمال مندوخیل کا پنجاب اور خیبرپختونخواہ الیکشن ازخود نوٹس کیس کے فیصلے کا اختلافی نوٹ سامنے آ گیا ہے جس میں ججز کا کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات کی وجہ سے عدلیہ پر تنقید ہوتی ہے، یہ درست وقت ہے کہ چیف جسٹس کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس عمر عطا بندیال نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں 90 روز میں انتخابات کے معاملے میں ازخود نوٹس لیا تھا، بعد ازاں کئی سماعتوں بعد چیف جسٹس کی سربراہی میں لارجر بنچ نے یکم مارچ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا میں 90 روز میں انتخابات کرانے کا حکم دیا تھا، اس وقت کے لارجر بنچ میں شامل دو ججز نے فیصلے اور ازخود نوٹس پر اختلاف کیا تھا جن کا تحریری فیصلہ آج سامنے آیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے پنجاب اور خیبرپختونخواہ میں الیکشن سے متعلق تحریری فیصلے کے اختلافی نوٹ میں کہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان کے پاس از خود نوٹس لینے اور سپیشل بینچز بنانے کے وسیع اختیارات ہیں جس کی وجہ سے سپریم کورٹ پر تنقید ہوتی ہے اور اس کی عزت و تکریم میں کمی واقع ہوتی ہے یہ صحیح وقت ہے کہ ایک شخص کے وسیع اختیارات پر نظر ثانی کی جائے۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ججز کو ان کی مرضی کے برعکس بنچ سے نکالنے کی قانون میں اجازت نہیں، دو معزز ججز نے اپنا فیصلہ دیتے ہوئے بنچ میں رہنے یا نہ رہنے کا معاملہ چیف جسٹس کی صوابدید پر چھوڑ دیا لیکن ان کا فیصلہ معاملے کے اختتامی حتمی فیصلے میں شامل ہے۔ چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ پوری عدالت کو صرف ایک شخص پر نہیں چھوڑا جا سکتا، عدالت کا دائرہ اختیار آئین طے کرتا ہے نہ کہ ججز کی خواہش اور آسانی کو طے کرے۔
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ عدالتی دائرہ اختیار کیس کی نوعیت طے کرتی نہ کہ اس سے جڑے مفادات، ججز کی خواہش غالب آئے تو سپریم کورٹ سامراجی عدالت بن جاتی ہے، عدالت سیاسی ادارہ بنے تو عوام کی نظر میں اس کی ساکھ ختم ہوجاتی ہے، یقینی بنانا ہو گا کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں سے پارلیمنٹ کا اختیار محدود نہ ہو، ہائیکورٹس میں کیس زیر التواءہونے کے باوجود سوموٹو لیا گیا۔

تبصرے بند ہیں.