بالآخر الیکشن کمیشن نے پنجاب اسمبلی کے عام انتخابات ملتوی کرکے 8 اکتوبر کی تاریخ کا اعلان کر دیا۔ اِسی تاریخ پر مرکز اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں عام انتخابات ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کا انتخابات کے التوا کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اِس التوا پر تحریکِ انصاف چیں بچیں اور سپریم کورٹ میں جانے کی دھمکیاں دے رہی ہے۔
پنجاب اور خیبرپختونخوامیں اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد متعلقہ گورنرز کی طرف سے عام انتخابات کی تاریخ نہ ملنے پر چیف جسٹس سپریم کورٹ عمرعطابندیال صاحب نے اَزخود نوٹس لیتے ہوئے اپنی سربراہی میں 9 رکنی بنچ تشکیل دیاجس پر پہلے ہی روز اعتراضات اُٹھائے جانے لگے۔ 9 رُکنی بنچ کے ایک رُکن جسٹس اطہرمِن اللہ نے اسمبلیاں توڑنے کے جواز پر سوال اُٹھایاتو چیف جسٹس صاحب نے فرمایا کہ اِس سوال کو کیس سُنتے وقت سامنے رکھا جائے گا مگر جب تحریری حکم جاری کیا گیا تو اِس سوال کو غائب کر دیا گیا۔ یہ عین حقیقت ہے کہ کسی بھی اسمبلی کو تحلیل کرنے کا اختیار اُس کے وزیرِاعلیٰ کے پاس ہوتا ہے لیکن اِس کی وجوہات بتانا بھی ضروری ہیں۔ یہی سپریم کورٹ 1989ء میں میر ظفر اللہ جمالی اور 1993ء میں منظور وٹو کی طرف سے صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے وزرائے اعلیٰ کے فیصلوں کو کالعدم قرار دے کر اسمبلیاں بحال کر چکی ہے۔ اگر جسٹس اطہر مِن اللہ کے اسمبلیاں توڑنے کے جواز کو زیرِبحث لایا جاتا تو دونوں اسمبلیوں کی بحالی اظہر مِن الشمس تھی۔ وجہ یہ کہ یہ اسمبلیاں باہر بیٹھے ہوئے ایک شخص کی ڈکٹیشن پر تحلیل کی گئیں جو کہ غیرآئینی اقدام تھا۔ اسمبلیوں کی تحلیل کی ڈکٹیشن اور وزرائے اعلیٰ کے لیت ولعل کی بیشمار مثالیں موجود ہیں۔ 9 رُکنی بنچ کے 2 ارکان جسٹس مظاہر علی نقوی اور جسٹس اعجاز الاحسن پر تو شدید اعتراضات سامنے آئے لیکن چیف جسٹس صاحب نے بنچ تحلیل کرکے 5 رُکنی بنچ تشکیل دے دیا جس میں جسٹس اطہر مِن اللہ اور جسٹس یحییٰ آفریدی کو بھی شامل نہیں کیا گیا۔ اِس 5 رُکنی بنچ کی تشکیل کے ساتھ ہی یہ عیاں ہوگیا کہ فیصلہ 3/2 کی اکثریت سے آئے گااور فیصلہ آیا بھی وہی۔
متنازع فیصلوں کی گونج تو 2017ء سے ہی شروع ہو گئی تھی جب سپریم کورٹ، پاک فوج، آئی ایس آئی اور نیب کے گٹھ جوڑ سے ملک کے 3 بار منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف کو ایک انتہائی متنازع فیصلے پر نااہل قرار دیا گیا۔ یہی نہیں بلکہ اُنہیں جیل کی سزا بھی دی گئی اور نوازلیگ کی سربراہی سے بھی روکا گیا۔ یہ سارا بندوبست اور ساری تگ ودَو عمران خاں کو اقتدار میں لانے کے لیے کی گئی۔ جب 2018ء کے عام انتخابات ہوئے تو اُس وقت میاں نوازشریف اپنی بیٹی مریم نواز کے
ساتھ جیل میں تھے۔ اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور کوشش اور آر ٹی ایس بٹھانے کے باوجود بھی عمران خاں وزارتِ عظمیٰ کے لیے ارکانِ اسمبلی کی مطلوبہ تعداد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ پھر کچھ لوگ حرکت میں آئے اور چھوٹی سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکان کو گھیر کر عمران خاں کی سربراہی میں اتحادی حکومت قائم کی گئی۔
سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک انٹرویو میں کہا کہ عمران خاں کی بُری کارکردگی کو مدِنظر رکھتے ہوئے فروری 2021ء میں نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کر لیا تھا۔ اِسی بنا پر اپوزیشن اتحاد نے مارچ 2022ء میں عمران خاں کی حکومت کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کی اور 9 اپریل 2022ء کو پارلیمنٹ نے اُنہیں مسترد کرکے گھر بھیجا تو پھر بھی اسٹیبلشمنٹ کی ہمدردیاں عمران خاں کے ساتھ ہی رہیں۔ اُدھر عمران خاں نے پنجاب کے وزیرِاعلیٰ عثمان بزدار سے استعفیٰ لے کر چودھری پرویز الٰہی کو اپنا وزارتِ اعلیٰ کا اُمیدوار نامزد کیا۔ چودھری صاحب میاں حمزہ شہباز سے شکست کھا کر سپریم کورٹ پہنچ گئے۔ اِس انتخاب میں تحریکِ انصاف کے 25 منحرف ارکان نے حمزہ شہباز کے حق میں فیصلہ دیا۔ اُس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بنچ کے سامنے صدارتی ریفرنس 63-A کی تشریح کا معاملہ زیرِبحث تھا۔ اِس معزز بنچ کے 3 ارکان چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر نے آرٹیکل 63-A کی تشریح کرتے ہوئے اکثریتی فیصلہ دیا کہ منحرف ارکان نہ صرف ڈی سیٹ ہوں گے بلکہ اُن کا ووٹ بھی شمار نہیں کیا جائے گا جبکہ جسٹس مظہرعالم خاں اور جسٹس جمال خاں مندوخیل نے اپنے اقلیتی فیصلے میں لکھا کہ آرٹیکل 63-A اپنے آپ میں مکمل کوڈ ہے جس کی مزید تشریح آئین کو نئے سرے سے لکھنے کے مترادف ہے۔ اِسی اکثریتی فیصلے کی بنا پر حمزہ شہباز کے 25 منحرف ارکان کے ووٹ مسترد ہوئے اور سپریم کورٹ نے 22 جولائی کو پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے دوبارہ انتخاب کا حکم دیا۔ 22 جولائی 2022ء کو وزارتِ اعلیٰ کے انتخاب کے موقعے پر ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی سردار دوست محمد مزاری نے قاف لیگ کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کا خط پڑھ کر سنایا جس میں ارکانِ صوبائی اسمبلی کو حمزہ شہباز کو ووٹ دینے کا کہا گیا تھا جبکہ یہ 10 ووٹ چودھری پرویز الٰہی کے حق میں گئے تھے جنہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے عین مطابق مسترد کر دیا گیااور یوں حمزہ شہباز ایک دفعہ پھر وزیرِاعلیٰ بن گئے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی بلکہ چودھری پرویز الٰہی ایک دفعہ پھر سپریم کورٹ پہنچے۔ جہاں سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ چونکہ صرف پارلیمانی پارٹی کے سربراہ ہی کے پاس ہی ارکانِ اسمبلی کو ایڈوائس دینے کا اختیار ہے، صدر کے پاس نہیں اِس لیے یہ ووٹ چودھری پرویز الٰہی ہی کے حق میں گِنے جائیں گے۔ یوں چودھری پرویز الٰہی ”عدالتی وزیرِاعلیٰ“ بن گئے۔ طُرفہ تماشا یہ کہ جب 25 ارکانِ اسمبلی ڈی سیٹ ہوئے تو تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خاں کا حق تسلیم کرتے ہوئے اِن ارکان کو ڈی سیٹ کیا گیا جبکہ قاف لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین کا حق تسلیم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔یہ سب لکھنے کا مقصد محض یہ کہ قوم عدالتی فیصلوں سے آگاہ ہو سکے۔
عرض ہے کہ اول تو وزرائے اعلیٰ کا اسمبلیاں توڑنے کا اقدام ہی غیرآئینی تھا کیونکہ کوئی بیرونی شخص یا طاقت وزیرِاعلیٰ کو اسمبلی کی تحلیل پر مجبور نہیں کر سکتی جبکہ دونوں اسمبلیوں کی تحلیل عمران خاں کی ڈکٹیشن اور دباؤ پر ہوئی لیکن سپریم کورٹ نے اِس غیرآئینی اقدام کو تسلیم کیا۔ دوسری بات یہ کہ اگر آئین میں 90 دنوں کے اندر اندر الیکشن کروانا لازم ہے تو پھر سپریم کورٹ کے پاس کیا یہ اختیار ہے کہ وہ اپنے فیصلے میں لکھے ”اگر 90 دن میں الیکشن ممکن نہ ہوئے تو الیکشن کمیشن کوئی ایسی تاریخ دے جو 90 دنوں کے بعد قریب ترین ہو“۔ معروف وکیل عرفان قادر نے کہا ”سپریم کورٹ کے فیصلے میں ایک نہیں تیس غلطیاں ہیں۔ یہ کہاں لکھا ہے کہ الیکشن کمیشن سپریم کورٹ کے ماتحت ادارہ ہے۔ 2 ججز نے بتایا بھی کہ یہ اُن کا دائرہئ اختیار ہی نہیں“۔ اِس کے علاوہ آئین کے آرٹیکل 254 میں یہ تو لکھا ہے کہ 90 دنوں میں انتخابات کروائے جائیں لیکن یہ کہیں نہیں لکھاکہ مقررہ مدت میں انتخابات نہ کروانا آئینی انحراف ہے۔ اب اگر الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کر دیئے ہیں تو اسے کسی بھی صورت میں توہینِ عدالت نہیں کہا جا سکتا۔ یہ بجا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کو ہدایات تو جاری کر سکتی ہے لیکن پابند نہیں کر سکتی۔ اگر چیف الیکشن کمیشن کو ہٹانا مقصود ہو تو اُس کے لیے طریقہئ کار وہی ہے جو کسی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ کے جج کو ہٹانے کے لیے اختیار کیا جاتا ہے۔
یہ بھی مدّ ِ نظر رہے کہ وفاق کی 4 اکائیاں ہیں جن کا نگران حکومتوں کے تحت ایک ہی دن میں انتخاب ہوتا ہے۔ اگر اپریل میں پنجاب اور کے پی کے اسمبلیوں کے انتخابات کروا دیئے جاتے ہیں اور 6 ماہ بعد وفاق، سندھ اور بلوچستان کے انتخابات کروائے جاتے ہیں تو صورتِ حال کچھ یوں بنتی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں کے تحت نگران حکومت انتخابات کروائے گی جبکہ وفاق اور دو اکائیوں میں نئی مردم شماری اور نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات ہوں گے۔ گویا پنجاب اور کے پی کے میں تو منتخب حکومتیں ہوں گی جبکہ وفاق، سندھ اور بلوچستان میں نگران حکومتیں۔ یہی نہیں بلکہ یہ پریکٹس اگلے ہر انتخاب میں بھی جاری رہے گی۔ ایسے انتخابات کو کون تسلیم کرے گا۔ اگر الیکشن کمیشن نے تمام انتخابات ایک ہی دن میں کروانے کا فیصلہ کیا ہے تو یہ اُس کا آئینی حق ہے اور یہی مستحسن فیصلہ بھی۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.