پاپولسٹ تجزیہ کاروں کے نام

51

عوامیت پسند تجزیہ کار پاپولسٹ پالیٹشن عوامیت پسند سیاست دان سے زیادہ خطرناک ہیں۔ پاپولزم عوام میں مقبولیت کے رجحان کے دھارے کو اگر مراد لیا جائے تو اس میں بے لاگ، عقلی، اصولی اور غیر جانبدار تجزیہ یکدم سیکڑوں بار موت کے گھاٹ اتر جاتا ہے۔ ایک پرانی پنجابی فلم ہے ”روٹی“۔ جس میں اکمل ہیرو تھے اس میں وہ غریب ترین آدمی دکھائے گئے ہیں۔ اب موقع پرست ولن اور دیگر لوگ اس سے پوچھتے ہیں، گاموں روٹی کھانی ہے؟ وہ کہتا ہے، کھانی ہے۔ تو پھر چل فلاں کو پھینٹی لگا دے۔ اس طرح گاموں (اکمل) ساری فلم میں لوگوں کو پھینٹی لگاتا رہتا ہے۔ عوام کی موجودہ حالت فلم روٹی کے کردار گاموں کی کر دی گئی ہے۔ اس کی ضرورت جان کر اور پوری کر دینے کے جھانسے میں لا کر جس کے مرضی گلے پڑھوا دو۔ عوام کی بات اور اشرافیہ کے ڈالروں میں ارب پتی بھی گاموں ہی ہیں جن کی بھوک قبر کی مٹی ہی بھر سکے گی۔ میں اپنے پسندیدہ تجزیہ نگار جناب مظہر عباس کا کالم ”ایک گرفتاری سب پہ بھاری“ پڑھ رہا تھا جس میں انہوں نے جونیجو صاحب کی بات کہ وہ رواداری کی مثال تھے۔ جمہوریت پسند اور انہوں نے حقیقی عوامی فیصلے کیے۔ ایک محب وطن کے طور پر بین الاقوامی معاہدے کیے اور مظہر عباس صاحب توقع کرتے ہیں یا مشورہ دیتے ہیں کہ مکالمہ کیا جائے۔ میں مظہر عباس صاحب سے سوال کرتا ہوں کہ زرداری کا آپ نے وہ بیان پڑھا ہے کہ بات کس سے کریں؟ کیا مظہر عباس صاحب آپ جونیجو اور عمران کی نفسیات، کردار، سوچ، تدبر کا تقابلی جائزہ کر سکتے ہیں؟ جونیجو صاحب کا عمران سے کیا موازنہ؟ حضور پہلے عمران نیازی کی نفسیات سمجھیں وہ نفرت، الزام، دشنام، کذب کی سیاست کرتے ہیں۔ اس کی سیاست، منشور صرف نفرت اور اس کا حصول اقتدار ہے۔ یوٹرن ان کا اصول ہے، تضحیک کرنا، الٹے نام رکھنا ان کا تکیہ کلام ہے جب ان کو گرفتاری کا سامنا ہوتا ہے تو 71 سال کے ہو جاتے ہیں جب انہوں نے مریم نواز، بلاول اور مخالفین کو مخاطب کرنا ہوتا ہے تو 17 سال کے ہو جاتے ہیں۔ تکبر، خود پسندی، ہوس اقتدار، خود غرضی، محسن کشی، ڈھٹائی اور جھوٹ، بد زبانی ان کی فطرت کے طور پر سامنے آئے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے والد جناب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف تحریک چلانے والوں کے ساتھ بی بی نے ایم آر ڈی بنائی۔ جمہوریت بحالی کی تحریک چلائی،
صدر زرداری نے اسحاق خاں، نوازشریف، لغاری، مشرف، عمران نیازی کی جیل کاٹی مگر سب سے مکالمہ کیا۔ بی بی شہید کی قتل کی صورت جن کو ذمہ دار ٹھہرایا نظام کی خاطر ان کو ڈپٹی پرائم منسٹر بھی بنایا۔ بی بی نے میاں صاحب سے میثاق جمہوریت کیا۔ نیازی صاحب نے تو جرنیلوں کی گود سے گود کا سفر کیا اور اقتدار میں آ کر صرف انتقام، انتقام اور انتقام کی پالیسی اپنائی۔ ملک اور معیشت دونوں برباد کر کے رکھ دیئے۔ اداروں میں خلیج، نفاق اور عوام میں تفریق نے خانہ جنگی کی صورت حال پیدا کر دی۔ نفرت کے کے ٹو پر کھڑا عمران اگر نفرت ختم کر کے سیاست اور جمہوریت پر کوئی بات کرے گا تو اپنی سیاست دفن ہونے کے اندیشے میں مبتلا شخص سے یہ توقع عبث ہے۔ یاد رکھیں فرشتے بھی انتخابات کرائیں، نیازی صاحب ناکامی کی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ ان کو اقتدار چاہئے اور وہ بھی ہر صورت اور ہر قیمت پر جبکہ عدلیہ نے قانون سازی شروع کر دی، ریلیف کی نئی مثالیں رقم کیں دوسری طرف نیازی صاحب نے رنگ بازی اور ڈراموں کی نئی تاریخ رقم کر دی۔ میں اس گاڑی میں آیا ہوں جس کا کسی کو علم نہیں، کیا مضحکہ خیز بیان ہے حالانکہ سیف سٹی میں 15 دن کسی بھی گاڑی کی نقل و حرکت محفوظ رہتی ہے۔
رضا رومی جو نیازی صاحب کی مقبولیت کی بات کرتے ہیں کیا پورے پاکستان میں ایک بھی ووٹر ہے جو 2018 کے بعد نوازشریف اور بلاول بھٹو کو چھوڑ کر نیازی کا حامی ہوا ہے۔ میں امیدوار کی بات نہیں کرتا یہ تو ہیں دیگ کو دم تو تیار ہیں ہم۔کچھ عدالتی رویے بھی سن لیں۔ جناب بھٹو صاحب کو 109کے تحت سولی چڑھا دیا گیا۔ جب اکبر بگٹی صاحب کے قتل کے مقدمہ میں پرویز مشرف کی ضمانت لینا تھی تو جج صاحب فرمان کی صورت میں استفسار کرتے ہیں کہ صدر پرویز مشرف وہاں بندوق لے کر کھڑے تھے، فائر کیا تھا؟ زمان پارک میں بلوائیوں کی کارروائیوں سے نیازی صاحب کو کیسے الگ کیا جا سکتا ہے۔ٹیریان ایک معصوم بچی ہے اس کے نام کو استعمال کرنا میرے لیے رنج کا سبب ہے کیونکہ بچے ناجائز نہیں والدین مجرم ہوتے ہیں۔ مگر سوال کیا جاتا ہے کہ دو بچوں کو ڈیکلیئر کرنا ایک کو نہ کرنا کیوں فرق رکھا گیا۔ چلیں بیٹے سے نہ لی ہوئی تنخواہ تو ذہن میں نہیں رہتی، کیا پہلی مبینہ اولاد جو باقی بچوں کے ساتھ رہتی ہے جس کا شہرہ پوری دنیا میں ہو وہ بھی ذہن میں نہیں رہتی؟ رہی بات مقبولیت کی، وہ صرف خبروں میں رہنے کے لیے جھوٹ بولتے ہیں جواب میں سچ آتا ہے اور یوں موضوع بنتا ہے۔ یہ موضوع بننا عمران کی مقبولیت ہے ورنہ زمینی حقائق مختلف ہیں۔ ریحام خان کو مادر ملت کے بعد بازاری قرار دینے والے، پرویز الٰہی کو ڈاکو کے بعد صدر ماننے والے، نیازی صاحب سے ٹی وی شو میں ٹیریان کی ولدیت کا سوال کرنے والے نیازی کے وکیل بن جائیں تو تجزیہ کاروں کو تجزیوں پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔ کسی کو گالی دینا، تہمت لگانا اظہار رائے کی آزادی نہیں بکواس کرنے کی چھوٹ ہے۔ جنرل باجوہ کے مریم کا دروازہ ٹوٹنے پر حالیہ بیان کہ جنرل فیض نے مقدمہ درج کرنے کا کہا تھا، نچلے سٹاف نے زیادہ کام کر دیا۔ اس وقت نیازی صاحب کو قانون کی بالادستی، حقیقی آزادی یاد نہیں آئی تھی۔ جب 17 سالہ لڑکا بن کر امریکہ میں اعلان کرتا پھرتا تھا کہ پاکستان جا کر نوازشریف کا اے سی بند کراؤں گا، یاد ہے۔ توشہ خانہ، توہین عدالت، دیگر مقدمات کا سامنا ہے تو جان کو خطرہ، ٹوٹی ٹانگ، عمر 71 سال یاد آ گئی۔ ریلی، جلاؤ گھیراؤ دہشت گردانہ رویے سے جان کا خطرہ نہیں ہے۔ اللہ تمام لوگوں کو سلامتی عطا فرمائے، کوئی غیر طبعی انجام سے دوچار نہ ہو مگر حقیقی طور پر بلاول بھٹو اور مریم نواز کی زندگیاں خطرے سے دوچار رہی ہیں۔ ایک مخولیہ قسم کا تجزیہ کار چلا عمران کو قائد اعظم سے ملانے، یار خدا کا خوف کرو جس کا ایک بیان دوسرے سے نہیں ملتا۔ اس کا موازنہ کسی فلمی کریکٹر سے کرو حقیقی کردار ایسے نہیں ہوا کرتے۔ یہ پہلا نظریاتی لیڈر ہے جو چار سال اقتدار میں رہا اور پھر نظریہ اقتدار کا نظریاتی ہے۔ مکالمہ ضرور ہونا چاہئے مگر کس سے؟ عمرانیت کو اپنے جعلی ماحول اور خول سے نکل کر وطن پرستی اور قوم پرستی کی طرف آنا ہو گا۔ آئین کی بالادستی کی طرف آنا ہو گا۔ آئین صرف 90 دن میں انتخابات کا نام نہیں، چلتی اسمبلی کو توڑنا اور اس کے پیچھے نیت دیکھنا بھی ضروری ہے۔ آئین عدم اعتماد سے فرار کے لیے آرٹیکل 5 کا سہارا، سائفر کا سہارا، جان کو خطرے کا سہارا نہیں لینے دیتا، اپنی راہ بنا دیتا ہے۔ لہٰذا مکالمہ ضروری مگر عمران سمجھتا ہے جس دن سیاسی مکالمہ کرے گا اپنی نفرت پر کھڑی سیاست کی عمارت کو زمین بوس کر بیٹھے گا۔ خاطر جمع رکھیں آج تو سیاست دانوں میں مکالمے کی بات، اب درجہ حرارت اداروں تک پہنچ چکا ہے۔ ان کے درمیان مکالمہ کون کرائے گا؟

تبصرے بند ہیں.