اداروں کا احترام

32

عمران خان کو اگر یو ٹرن کا بادشاہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔چند روز تک جو صورتحال لاہور کی سڑکوں پہ دکھائی دی اور جس طرح عام لوگوں کو بھی پریشانی کا سامنا رہا وہ ناقابل بیاں ہے۔ اداروں کا احترام ہر پاکستانی پہ فرض ہے کیونکہ ریاست اداروں کا مجموعہ ہوتی ہے،ریاستی اداروں کی بالا دستی ہر پاکستانی پر فرض ہے۔اس وقت جمہوریت کی آڑ میں جو افراتفری پھلائی جا رہی ہے اس سارے ماحول سے ملک میں بد امنی اور بین الاقوامی سطح پہ ایک منفی تاثر جا رہا ہے۔ خصوصاً پچھلے کچھ دنوں سے عمران خان نے ایک پیشی کے لیے عدالت جانے سے جس طرح مزاحمت کی اور زمان پارک کو میدان جنگ بنا دیاتھا۔عوام کو عمران خان سے کم از کم اس چیز کی بالکل توقع نہ تھی اگر جمہوریت کی آڑ میں تمام سیاسی جماعتیں اس قسم کا ہی عمل دہراتی رہیں گی تو ریاست میں بد امنی اور سیاسی عدم استحکام سے ملک ترقی کی جانب نہیں جا سکے گا۔
عمران خان ہمیشہ سے ایک کے بعد ایک پلان اور بیان بدلتے رہے ہیں۔اس وقت عمران خان نے اپنی اشتعال انگیز تقاریر سے عام عوام کو ریاستی اداروں کے آگے لا کھڑا کیا۔ایڈولف ہٹلر کا کہنا تھا کہ کسی ملک کی اگر فوج کو تباہ کرنا ہو تو ملک کے عوام کے دل میں فوج کے خلاف نفرت پیدا کر دو فوج خودبخود ختم ہو جائے گی اور آجکل یہ کردار عمران خان بخوبی نبھا رہے ہیں۔
آگ بھڑکانے کے بعد عمران خان کا جو بیان سامنے آیا کہ ملک بھی میرا ہے اور ملک کی آرمی بھی میری ہے۔اگر ایسی سوچ تھی تو پہلے اپنے ورکرز کو یوں پولیس کو Hitکرنے اور تصادم کے لیے نہ اکساتے۔ اداروں کی عزت اور بالادستی کا خیال ہوتا تو یوں جنرل باجوہ کے لیے اور جنرل عاصم منیر کے خلاف بیان بازی نہ کرتے۔
اس جلاؤ گھیراؤ میں کتنا نقصان ہوا کہ پولیس کی 14گاڑیاں جل گئیں 9گاڑیاں توڑی گئیں 25موٹر سائیکل جلائے گئے۔کیا اداروں کا احترام عمران خان پہ لاگو نہیں ہوتا؟کیا یہی قانون کی بالا دستی تھی؟بجائے اس کے وہ ان غلطیوں کو مانتے بلکہ ایک نئی دھونس دے رہے ہیں کہ میں یہ تمام واقعات مغربی میڈیا اور مغربی ہیومن رائٹس تنظیموں کے آگے اُٹھاؤں گا۔ افسوس ہوا کہ ایک سابق وزیراعظم یوں بین الاقوامی سطح پہ ہمدردی لینے کے لیے ملک کو بھی اب بدنام کریں گے۔ اس حرکت سے ہمارے ملک اور ہمارے ملکی اداروں کی ساکھ کتنی تباہ ہوگی شاید اس بات کا احساس عمران خان کو ایک فیصد بھی نہیں ہے۔کیا جمہوریت ایسی ہوتی ہے؟اس بات کا عمران خان قوم کو جواب دے۔کیونکہ وہ ایک سابق وزیراعظم بھی رہ چُکے ہیں۔
پی ٹی آئی کے ایک کارکن کا اعترافی بیان بھی سامنے آیا جس میں اُس نے بتایا کہ جب عمران خان کی عدالت میں پیشی تھی تو ہم بھی اُدھر ہی تھے اور ہمیں سینئر قیادت کی جانب سے اور اسد عمر نے بھی کہا کہ پولیس والوں کو آگے نہ آنے دیا جائے اُن پہ پتھراؤ کیا،گاڑیوں کو توڑا اور جلایا یوں عمران خان نے کارکنان کو اشتعال دلا کر اپنے مفاد کے لیے نہ صرف استعمال کیا بلکہ ملک میں بد امنی اور افراتفری پھیلائی۔اس افراتفری کے پھیلانے سے جو نتائج سامنے آنے تھے وہ یہ تھے۔
ایک ٹارگٹ تھا کہ بد امنی اور انتشار پھیلا کر انتخابات میں تاخیر کی جا سکے۔ دوسرا ملک میں ایسی صورتحال پیدا کر دی جائے کہ مجبوراً آرمی کو ایمر جنسی یا ماشل لاء لگانا پڑے۔اس صورتحال کے بعد ایک بار پھر سے عمران خان نے یہ ٹارگٹ کرنا تھا کہ آرمی ہی نہیں چاہتی کہ جمہوریت قائم رہے ایک بار پھر سے ہمارے مدر انسٹی ٹیوٹ کی ساکھ خراب ہوتی۔
عدالت میں پیشی بھی ایک ڈرامہ ہی تھا جو بھر پور کیا گیا۔پیشی کے بعد پھر سے زمان پارک میں کارکنان مورچہ زن ہوگئے اور عمران خان نے دوبارہ سے سوشل میڈیا پہ اپنے خطابات سے ہمدردی بٹورنا شروع کر دی کہ پولیس ہمارے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہی ہے۔
پولیس کی ڈیوٹی میں شامل ہے کہ ملک کے امن کو قائم رکھنے اورRules of lawکو فالو کرانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور وہ انہوں نے بخوبی کیا مگر جو سلوک پی ٹی آئی کے کارکنان نے پولیس کے ساتھ کیا پولیس پہ پیٹرول بم اور اُن کو Hitکرنے کے لیے غلیل اور پتھراؤ کیا گیا،جس سے بہت سے پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ ذرائع کے مطابق 54پولیس اہلکار اور10شہری بھی شامل ہیں جن کو سروسز اور میو ہسپتال لایا گیا۔
جب صورتحال اتنی سنگین ہوئی تب مجبورا پولیس نے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے شیلنگ کی اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔تھوڑا ماضی کی طرف جائیے جب عمران خان وزیر اعظم تھے کس طرح حکومتی مشنری کا استعمال کرکے TLPکے کارکنان جو پر امن احتجاج کے لیے نکلے تھے جسے خونی ریلی میں تبدیل، کارکنوں کو شہید کیا گیا۔ اس وقت عمران خان نے اپنی طاقت کا بے جا استعمال کیا۔
TLPایک سیاسی جماعت ہے اور اُس کے کارکنان پر امن رہتے ہیں اور کبھی اداروں کے خلاف کوئی بات نہیں کی۔پھر بھی اس جماعت کو کالعدم قرار دیا گیا جبکہ PTIنے تو اداروں کو نہ صرف بدنام کیا بلکہ پولیس اہلکاروں پہ حملہ آور بھی ہوئے اب اس جماعت کو بھی کالعدم قرار دینے میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔
یہ بات میں اس لیے کہہ رہی ہوں کہ عمران خان نے ایک ویڈیو ٹویٹ کی جس میں یہ ظاہر کرکے بیان دیا کہ یہ ایک شخص ہے جس کا تعلق انٹیلی جنس سے ہے اور وہ لوگوں کو اُکسا رہا ہے کہ بد امنی پھیلائی جائے اور اس ٹویٹ کو سیکڑوں PTIکارکنان نے ری ٹویٹ بھی کر دیا مگر تحقیق کے بعد معلوم ہوا یہ تو PTIجماعت کا ہی ایک کونسلر ہے تو عمران خان نے فوری طور پہ وہ ٹویٹ ڈیلیٹ کیا۔
کیا یہ حرکتیں کوئی محب وطن پاکستانی کر سکتا ہے اور ایسی حرکتیں ایک سابق وزیراعظم کرے تو تشویش تو ہو گی اور اگر ایسا شخص پھر سے پاور میں اگر آجائے تو خود ہی سوچئے یہ تو ہمارے ملک اور ریاستی اداروں کی دھجیاں تک اُڑا دے گا۔

تبصرے بند ہیں.