پنجاب اسمبلی انتخابات کا التوا

20

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پنجاب اسمبلی کے انتخابات 8 اکتوبر 2023 تک ملتوی کرنے کا اعلامیہ جاری کر کے قومی سیاست اور صحافت میں جاری ایک بحث کا خاتمہ کر دیا ہے۔ ایک عرصے سے یعنی جنوری 2023 میں جب پنجاب اسمبلی تحلیل کی گئی تھی، بحث جاری تھی کہ الیکشن ہوں گے یا نہیں۔ عمران خان تکرار کے ساتھ کہتے رہے ہیں کہ حکومت کیونکہ ان کی یعنی عمران خان کی مقبولیت سے پریشان ہے اور وہ انتخابات قطعاً نہیں جیت سکتی ہے اس لئے وہ انتخابات نہیں کرائے گی حالانکہ الیکشن کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے لیکن وہ الزام حکومت پر دھرتے رہے ہیں کیونکہ ان کے بقول الیکشن کمیشن اور حکومت ایک ہی لائن پر ہیں۔ عمران خان کے خلاف یہ سب ملے ہوئے ہیں الیکشن کمیشن نے وزارت خزانہ کی طرف سے الیکشن منعقد کرانے کے لئے درکار مالی وسائل مہیا کرنے سے معذرت، وزارت دفاع کی طرف سے آرمی ٹروپس کی عدم دستیابی، عدلیہ کی طرف سے ججز صاحبان کی عدم دستیابی اور پولیس کی طرف سے مطلوبہ نفری کی فراہمی سے انکار کے بعدصدر مملکت کو تحریری طور پر الیکشن کرانے سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے۔ اس طرح جاری شکوک و شبہات اور بحث و مباحثہ کا خاتمہ ہو گیا ہے لیکن ایک اور زبردست بحث کی شروعات ہو گئی ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ اس معاملے میں سپر یم کورٹ کی حکم عدولی کی گئی ہے اور ممکن ہے کہ اس کیس میں وزیراعظم کی وزارت ہی چلی جائے۔ عدالتی حکم پر اسی طرح یوسف رضا گیلانی کو وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونا پڑا تھا سپریم کورٹ توہین عدالت کا خود بھی نوٹس لے سکتی ہے ویسے عمران خان شاید اس حوالے سے پہلے ہی درخواست دائر کر چکے ہیں لیکن ایک دوسرا نقطہ نظر بھی ہے کہ الیکشن کمیشن نے تو سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں الیکشن منعقد کرانے کا اعلان ہی نہیں کیا تھا بلکہ تاریخ بھی دے ڈالی تھی لیکن سرکاری محکمہ جات کی طرف سے مطلوبہ سپورٹ نہ ملنے کے باعث انتخابات ملتوی کرنا پڑے۔ اس لئے اگر توہین ہوئی ہے تو وہ الیکشن کمیشن نے کی ہے اسے سپریم کورٹ کچھ کہہ نہیں سکتی ہے کیونکہ وہ ایک آئینی ادارہ ہے اور سپریم کورٹ کے ماتحت نہیں ہے۔ بہرحال یہ ایک رائے کے دو پہلو ہیں۔
اس کے برعکس ماہرین اور سیاستدانوں کی ایک دوسری رائے بھی ہے جس کے مطابق موجودہ حالات میں الیکشنوں کا انعقاد پہلے سے جاری سیاسی و معاشی کشاکش کو مزید گمبھیر کر دے گا یہ لوگ یہ نہیں کہتے کہ ”حالات گمبھیر ہو سکتے ہیں“ بلکہ ان کی رائے ہے کہ ”حالات گمبھیر ہو جائیں گے“۔ ویسے بادی النظر میں اگر دیکھا جائے تو عمران خان نے 10 اپریل 2023 میں اقتدار سے محروم ہو جانے کے بعد سے ہنوز ایسے حالات پیدا کر دیئے ہیں جو ملکی داخلی و خارجی سلامتی پر سوالیہ نشان اٹھا رہے ہیں، عمران خان کو اپنی پاپولیرٹی کا کچھ ایسا زعم ہو چکا
ہے کہ وہ کسی دوسری سیاسی جماعت اور شخصیت کو قطعاً خاطر میں نہیں لا رہے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ ساری عوام ان کے ساتھ ہے اس لئے انتخابات میں ان کی جماعت تن تنہا لینڈ سلائیڈ وکٹری لے گی ویسے عمران خان کی شہرت یا مشہوری کا تو کیا کہنا، ہر جگہ ہر محل میں انہی کا ذکر ہو رہا ہوتا ہے، وہ مشہور یا پاپولر تو ضرور ہیں لیکن اس کا یہ مطلب کہاں سے نکل آتا ہے کہ وہ لینڈ سلائیڈ وکٹری لے جائیں گے؟ شیخ رشید ہمہ وقت پاپولر سیاستدان ہیں لیکن ہم نے دیکھا کہ انہیں ایک غیرمعروف سیاسی کارکن نے شکست بھی دی تھی ایسا ہی کچھ مشہور لیڈر چودھری نثار علی خان کے ساتھ بھی ہو چکا ہے وہ 2018 میں گائے کے نشان پر الیکشن لڑ کر ہار بھی چکے ہیں اس لئے پاپولیرٹی ہرگز ہرگز اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اسے عوامی تائید بھی حاصل ہے۔ مشہوری اور شے ہے اور پذیرائی/ قبولیت بالکل دوسری چیز ہے۔ 2008 کے انتخابات سے قبل ق لیگ واحد پاپولر جماعت تھی جنرل مشرف کی سیادت میں ق لیگی حکومت نے عوامی فلاح و بہبود کے خوب کام کئے تھے لیکن جب الیکشن ہوئے تو ن لیگ اور پی پی پی نے میدان مار لیاتھا حالانکہ 2008 سے قبل دونوں جماعتوں کی قیادت ملک بدر تھی انہیں عوامی رابطے کی بھی سہولت میسر نہیں تھی اس کے باوجود عوامی قبولیت کے باعث یہ دونوں جماعتیں انتخابات میں کامیاب رہیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال اب نظر آ رہی ہے عمران خان اپنی شہرت کے گھوڑے پر سوار بھاگتے اڑتے چلے جا رہے ہیں انہیں لینڈ سلائیڈ وکٹری سے کم کوئی بھی نتیجہ قبول نہیں ہوتا ہے ویسے بھی وہ الیکشن کمیشن کو جانبدار اور ن لیگی ایجنٹ قرار دے چکے ہیں جبکہ دوسری طرف پی ڈی ایم حکمران اتحاد کو چوروں کا ٹولا کہتے ہیں انہیں پنجاب کی نگران انتظامیہ بھی زرداری کی فرنٹ مین دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں انتخابات کسی مثبت نتیجے کو ظاہر کرتے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عمران خان نے اپنے فالوورز یا فین کلب ممبران کو اس قدر چارج کر دیا ہے کہ انتخابات/ الیکشن مہم کے دوران خون خرابا بھی ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف حکمران اتحاد بھی کچھ کم چارج نہیں ہے اپنی عدم پاپولیرٹی کے باعث وہ بھی غم و غصے کا شکار نظر آ رہا ہے۔ اپریل 2023 تک عمران خان اپنے 44 ماہی دور حکمرانی کی نااہلیوں اور ناکارکردگیوں کے باعث اپنی شہرت کی پستیوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ معیشت برباد ہو چکی تھی۔ خارجہ پالیسی بھی تباہی کا شکار تھی۔ ان کی اپنی صفوں میں شدید انتشار پایا جاتا تھا۔ حکمران جماعت کے ایم پی ایز اور ایم این ایز اپنے اپنے حلقوں میں جانے سے گھبراتے تھے۔ ہر طرف افراتفری کا عالم تھا عمران خان اور ان کی پارٹی عوامی تائید کھو چکی تھی ایسے میں ان کی حکومت کا خاتمہ ان کے لئے ایک عظیم نعمت ثابت ہوا۔ گزرے 11 ماہ کے دوران حکمران اتحاد نے عوامی اور قومی معیشت کا جو حال کر دیا ے وہ الامان الحفیظ۔ حکمران اتحاد شہباز شریف کی قیادت میں اپنی عوامی تائید مکمل طور پر کھو چکا ہے۔ مسلم لیگ ن کے پاس عوامی فلاح و بہبود اور کارکردگی کا جو اثاثہ و سرمایہ تھا وہ گزرے 11 مہینوں کی ناکارکردگی کے سیلاب میں بہہ گیا ہے۔ شہباز شریف کے ساتھ کارکردگی کے جو سنہرے تمغے تھے وہ زنگ آلود ہو چکے ہیں اسحاق ڈار کی معاشی حکمت کاریوں کے قصے بھی تمام ہو چکے۔ قوم معاشی بدحالی کے مہیب گرداب میں پھنس چکی ہے مستقبل قریب میں بہتری کے آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ لوگ عمران خان کی ناکارکردگی بھول چکے ہیں عمران خان حکومت سے نکلنے یا نکالے جانے کے بعد ایک دن بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ انہوں نے اپنا سیاسی اثاثہ و سرمایہ خوب بڑھا لیا ہے۔ حکومتی نااہلی و ناکارکردگی قابل قبول وجوہات ہوں گی لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ عوام کا رگڑا نکل چکا ہے مکمل بدحالی ہے، معاشی بربادی ہے اور عوام کو یہ سب کچھ اتنے مہیب انداز میں انہی حکمرانوں کے دور حکومت میں دیکھنا پڑا۔ عمومی تاثر ہے کہ عمران خان الیکشن میں چھا جائیں گے جبکہ ن لیگ پنجاب میں انتخابات میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں کر پائے گی۔
ایسے ماحول میں پنجاب اسمبلی کے لئے انتخابات کا منسوخ ہونا سمجھ میں آتا ہے لیکن یہ سپریم کورٹ کی حکم عدولی بھی ہے اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کٹہرے میں کسے کھڑا کیا جائے گا، الیکشن کمیشن یا حکومت یا دونوں۔ پھر عدالت جو بھی فیصلہ کرے گی اس سے ممکن ہے ایک نیا بحران پیدا ہو جائے کیونکہ پہلے بھی ایسا ہی ہوتا رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.