2023لاہور چیمبر آف کامرس میں تبدیلی کا سال

12

پاکستان کی روایتی سیاست کی طرح لاہور چیمبر کا الیکشن لڑنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ گزشتہ برس ہم نے موروثی سیاست کو چیلنج کرنے کے لئے ایک دوست اور معروف ایکسپورٹر چودھری ذوالفقار کو بطور ڈائریکٹر الیکشن لڑانے کا فیصلہ کیا توہمیں اندازہ تھا کہ کیا مشکلات کھڑی کی جا سکتی ہیں۔ لیکن اس حد تک مزاحمت ہو گی یہ نہیں سوچا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 3 ستمبر بروز ہفتہ (2022) کا دن چیمبر الیکشن کے کاغذات جمع کرانے کا دن رکھا گیا۔ ایک ہی دن میں کاغذات نامزدگی حاصل کر کے، اسے مکمل کر کے جمع کرانا پڑتا ہے۔ اب یہ بڑا ہی زبردست طریقہ واردات ہے۔ جس میں نہایت آسانی سے کئی نووارد امیدواروں کو الیکشن سے پہلے ہی ناک آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لئے خصوصی طور پر ہفتہ کا دن چنا گیا۔ کیونکہ اس دن بہت سے دیگر دفاتر بند ہوتے ہیں۔ لہٰذا امیدوار پر اگر کوئی اعتراض لگ جائے تو کسی تصدیقی عمل کے لئے اسے سپورٹ نہ مل سکے۔ کاغذات جمع کرانے کا وقت بھی 2 بجے تک رکھا جاتا ہے۔ کاغذات نامزدگی مکمل کرا کر جمع کرانا اور اگر کوئی اعتراض لگ جائے تو پھر اس دوبارہ جمع کرانے میں تاخیر ہو جائے تو پھرآپ خود کو الیکشن کے عمل سے باہر سمجھیں۔ ہمیں اس سارے عمل کا بخوبی اندازہ تھا۔ اب مجھے لاہور چیمبر کے ساتھ 32 برس ہو چکے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے یہاں کی سیاست کے اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں۔ چیمبرالیکشن لڑنے کی فیس 50 ہزار روپے ہے۔ کئی بارممبران حضرات غلطی کرتے ہیں کہ وہ کاغذات نامزدگی کے ہمراہ فیس کی رقم چیک کی صورت میں لگا دیتے ہیں۔ تو کسی حیلے بہانے سے چیک پر اعتراض لگا دیا جاتا ہے۔ میں نے اس سلسلے میں دوستوں کو باخبر کر دیا تھا کہ ہم فیس چیک کے بجائے کیش میں جمع کرائیں گے۔ تاکہ فیس کا اعتراض بھی نہ لگایا جا سکے۔ لاہور چیمبرآف کامرس میں کاغذات نامزدگی جمع کرانے والے دن ایک میلے کا سماں ہوتا ہے۔ تمام امیدوار اپنے حمایتیوں کے ساتھ آتے ہیں۔ چیمبر کے بڑے سے لے کر چھوٹے تک سب موجود ہوتے ہیں۔ ہم بھی پوری تیاری اور ٹیم کے ساتھ پہنچے ہوئے تھے۔ ہم نے سیکرٹری چیمبر آف کامرس کے دفتر میں ہی ڈیرا ڈال لیا۔ کہیں یہ نہ ہو کہ کوئی اعتراض ہو اور سیکرٹری صاحب 2 بجے اپنے دفتر کے دروازے بند کر دیں۔ اس لئے ان کا دفتر ہی ہمارا کیمپ آفس بن گیا۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ کئی امیدواروں کو وہاں موجود بڑوں نے الیکشن لڑنے سے پہلے ہی بٹھا لیا۔ ہمیں بہت سے لوگ خشمگیں نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ جیسے ہم بزنس کمیونٹی کا حصہ نہ ہوں بلکہ کسی اور سیارے سے آئے ہیں۔ ہمیں بہت سے دوست ملنے آئے اور باتوں باتوں میں الیکشن سے دستبردار ہونے کا کہا۔ لیکن ہم ڈٹے رہے۔ کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا مرحلہ تو طے پا گیا۔ اب اگلا مرحلہ جس میں کاغذات کی مزید جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور اس کے بعد متعلقہ امیدوار کو آگاہ کیا جا تا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں بتایا گیا کہ 5 ستمبر بروز سوموار بذریعہ کوریئر ایک لیٹر کے ذریعے آپ کو آگاہ کیا جائے گا کہ آپ اہل ہیں یا نااہل۔ ہم اس کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے کہ کسی بھی اعتراض کی صورت میں اگلے مراحل کیا ہیں۔ یار لوگوں کے پاس ممبران کو الیکشن سے روکنے اور انھیں دلبرداشتہ کرنے کو ایسے ایسے طریقے ہیں کہ جو بھی ایک مرتبہ اس مرحلے سے گزرتاہے تو اگلی بار کے لئے توبہ کر لیتا ہے۔ سکروٹنی کمیٹی کا فیصلہ جو کہ 5 ستمبر کو ملنا تھا وہ 6 ستمبر کو ملا۔ جبکہ 6 ستمبر اعتراض پر اپیل کی تاریخ تھی۔ خیر ہمیں اپنے ذرائع سے معلوم ہو چکا تھا کہ ہمارے کاغذات پر بڑا باریک اعتراض لگا یا گیا ہے۔ الیکشن لڑنے والے امیدوار کے فارم پر ایک ممبر بطور تجویز کنندہ اور ایک بطور تائید کنندہ فارم پر دستخط کرتے ہیں۔ یہاں یہ اعتراض اٹھایا گیا کہ تائید کنندہ کے دستخط ٹھیک نہیں۔ پہلے تو یہ اعتراض بنتا نہیں تھا۔ لیکن چونکہ یہ کاغذات کسی نہ کسی طرح رد کرنے تھے تو یہ کارروائی ڈالی گئی۔ ہم چونکہ ذہنی طور پر تیار تھے اس لئے ہم پہلے ہی اپنی اپیل تیار کر چکے تھے۔ اور جس شخص کے دستخط کا اعتراض اٹھایا گیا اس سے ہم نے ایک اسٹام پر تحریر لے لی کہ یہ دستخط اسی کے ہیں اور مقررہ وقت کے اندر اپیل جمع کرا دی۔ اب یہ بات سب کے لئے بہت حیران کن تھی۔ چیمبر کے الیکشن کمیشن میں اپیل کے لئے 3 سابق صدور (جو کہ خود بڑی کمپنیوں کے مالک ہیں) پر مشتمل ایک کمیٹی نے فیصلہ کرنا تھا۔ ہم کاروباری حضرات جانتے ہیں کہ صرف زبان کی بنیاد پر کروڑوں کا لین دین کر لیتے ہیں۔ لیکن چونکہ ہمیں الیکشن سے آؤٹ کرانا مقصود تھا۔ لہٰذا اس با اثرالیکشن کمیشن نے اس بیان حلفی کو بھی مسترد کر دیا۔ اس کے بعد اگلی اپیل ڈی جی ٹریڈ آرگنائزیشن کے پاس دائر کی جا سکتی ہے۔ اس دوران بھی قافلوں کی صورت میں صبح شام لوگ آتے رہے۔ ہمیں کہاگیا کہ آپ جہاں بھی جائیں گے تو ہمارے لوگ وہاں موجود ہیں۔ قصہ مختصر ہم نے ڈی جی ٹی او کے پاس پٹیشن دائر کی۔ کچھ دنوں بعد ہیئرنگ رکھی گئی۔ ہم اپنے وکلاء کے ساتھ اور سیکرٹری چیمبر آف کامرس بھی پیش ہوئے۔ ڈی جی ٹی او نے ہماری بات سنی اور سیکرٹری سے بھی استفسار کیا۔ آپ کو جس تائید کنندہ کے دستخط پر اعتراض ہے کیا آپ نے ان سے رابطہ کیا۔ اس پرسیکرٹری صاحب نے آئیں بائیں شائیں کرنا چاہی۔ انھیں یہ علم نہ تھا کہ وہ شخص ہمارے ساتھ وہاں ہیئرنگ میں موجود تھا جن کے دستخط پر الیکشن کمیشن معترض تھا۔ ان صاحب نے ہاتھ کھڑا کیا کہ جناب میں ہی وہ تائید کنندہ ہوں۔ سب ہکا بکا رہ گئے۔ ڈی جی ٹی او نے پہلے تو جھاڑ پلائی اور سیکرٹری صاحب سے کہاکہ آپ اس معاملے میں پارٹی کیوں بن رہے ہیں؟ اور فیصلہ ہمارے حق میں دے دیا۔ یہ چیمبر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ طاقتور گروپس کی مرضی کے خلاف ایک عام ممبر کے حق میں فیصلہ آیا۔ اس سارے عمل کے باوجود بھی ہمیں منانے اور روکنے کا سلسلہ نہ رکا۔ہمارے دوستوں، رشتہ داروں کے ذریعے بار بار اپروچ کیا گیا کہ ہم بیٹھ جائیں۔ لیکن ہم ڈٹے رہے۔ 19 ستمبر آخری دن تھا جب کاغذات نامزدگی واپس لیے جا سکتے تھے۔ اس دن میاں مصباح الرحمان جو کہ ہمارے استاد بھی ہیں ہمارے گھر آگئے۔بولے جب تک کاغذات واپس نہیں لو گے میں نہیں اٹھوں گا۔وہ ہمارے استاد اور بزرگ ہیں۔ دوسرا چیمبر قیادت نے اعلان کیا کہ اس بار الیکشن کمپین اور الیکشن کے دن ہونے والے سارے اخراجات کے پیسے سیلاب زدگان کودیئے جائیں گے۔ یہ اچھی تجویز تھی۔ ہم نے اس بنیاد پر کاغذات واپس لے لئے کہ اگلی بار ہر صورت الیکشن لڑیں گے۔ ہم جو چیمبر کی موروثی سیاست کے خلاف بارش کا پہلا قطرہ بنے تھے۔ اسی دیکھا دیکھی اب فاؤنڈر گروپ میں شامل جو ایکٹو ممبران تھے۔ جو کہ ریڑھ کی ہڈی سمجھے جاتے تھے وہ اب علیحدہ ہو گئے ہیں۔ انھوں نے پائنیئر بزنس گروپ کے نام سے ایک نیا محاذ تشکیل دیا ہے۔ لاہور چیمبر سے مخصوص خاندانوں کا قبضہ ختم ہونے کا آغاز ہے۔ 2023 لاہور چیمبر میں تبدیلی کا سال ہے۔

تبصرے بند ہیں.